
''مسائل کا واحد حل۔۔سیاسی مکالمہ''
بدھ 16 جون 2021

سلمان احمد قریشی
اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے سیاست ریاست اور حکومت کا علم ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان میں سیاست آئین پاکستان کے دائرے میں رہ کر ہی کی جاسکتی ہے۔
اس بات کو تسلیم کیے بغیر آگے بڑھا نہیں جاسکتا کہ بھٹو نے 1973ء کا آئین منظور کرواکر وطن عزیز میں سیاست کو قائم کیا۔بھٹو کی ذات سے اختلاف سب کا حق ہے انکے فیصلے درست اور غلط ہو سکتے ہیں لیکن سیاست بھٹو اور اس وقت کی اسمبلی کے پاس کردہ آئین سے باہر نہیں ہوسکتی۔ سیاست کا سب سے پہلا اصول برداشت ہے۔ مخالف کی بات کو سننا اور اتفاق رائے پیدا کرنا ہے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مکالمہ ضروری ہے۔مکالمہ کے لیے تربیت اور خواہش کا ہونا لازم ہے۔سیاست بند گلی میں نہیں ہوسکتی، بند گلی سے نکلنے کا نام سیاست ہے۔ ایک جملہ میں لکھوں تو '' ناممکنات کو ممکن بنانا سیاست ہے''_ سیاست انتخابی کامیابی یا برسراقتدار آنے تک کے عمل کا نام نہیں۔سیاست بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کو کہتے ہیں۔قارئین کرام! پاکستان میں انتخابی عمل، حکومت کا قیام اور سرگرمیاں سب کچھ نظر آتا ہے۔صد افسوس سیاست معدوم ہے۔ سیاسی جماعتیں ہیں، رہنما ہیں، کارکن، دلفریب نعرے سب کچھ ہے۔ احتساب بھی ہورہا ہے انقلاب بھی آرہا ہے۔ اب تو ایماندار قیادت بھی برسراقتدار ہے۔لیکن بہتری کیوں نہیں آرہی۔ قومی اتفاق رائے کسی بھی سطح پر نہیں، بس تقسیم ہے اور یہ سیاسی تقسیم بڑھتی ہی جارہی ہے۔ قانون سازی کم جملہ بازی زیادہ ہے۔ ترقی کم تنقید اور الزام تراشی کا چلن عام ہے۔
پارلیمنٹ جو کسی بھی معاشرے کی اجتماعی وزڈم ہوتا ہے کی حالت دیکھیں تو عبد المجید نیازی ایم این اے کا طرز عمل ہی کافی ہے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ اسمبلی میں بہترین دماغ نہیں صرف زبان درازی معیار ہے۔ اسمبلی سے باہر فردوس عاشق اعوان کا ٹاک شو میں عمل سیاست کے زوال کی آخری سطح کی عکاسی ہے۔شیخ رشید کی غیر شائستہ گفتگو، فیاض الحسن چوہان، مراد سعیداور شہباز گل کس کس کے نام لکھیں یہ سیاستدان ہیں۔۔۔؟
اپوزیشن پر نظر ڈالیں تو سبحان اللہ۔۔۔۔کیا کیا کردار ہیں۔۔؟ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی عام کارکنان کو فلائنگ ککس مارتے نظر آتے ہیں۔جاوید لطیف مریم نواز کے حوالہ سے پاکستان ناکھپے کہنے سے بھی اجتناب کرنے پر تیار نہیں۔سب ایک دوسرے کو ختم کرنے پر تیار ہیں۔پی ٹی آئی سبکو چور ڈاکو کہتی رہے درست اگر کوئی منتخب ایم این اے ایک غیر متخب مشیر پر کرپشن کی خبر کے حوالہ سے بات کردے تو دست دارزی، یہ پاکستان کی سیاست کے منہ پر طماچہ ہے، سمجھنے والوں کے لیے وطن عزیز کا درد رکھنے والوں کے لیے۔۔۔سطحی سوچ کے حامل افراد اس حرکت کو اے سی سیالکوٹ والے واقعہ کا تسلسل سمجھتے ہیں۔
14مئی 2006 کولندن میں محترمہ بینظیر بھٹو اور نوازشریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔معاہدے میں احتساب اور عام انتخابات کے بارے مشترکہ نقطہ نظر پیش ہوا۔فریقین بعد از اقتدار اس پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے۔نوازشریف میمو گیٹ سکینڈل پر عدالت جاپہنچے۔آصف علی زرداری کے ایک بیان پر بطور وزیراعظم طے شدہ ملاقات سے پیچھے ہٹ گے۔آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی نے انہیں سنہری موقعہ دیا تھا کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرتے اداروں کو مستحکم اور جمہوریت کو مضبوط کرتے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔نوازشریف نے اکبر بادشاہ کی طرح نورتنوں کا انتخاب کیا جو بادشاہ سلامت کی بربادی کا باعث بنے۔پی ڈی ایم کی تشکیل ہوئی۔ لیکن نوازشریف کے معاملات سے آج بھی سیاسی میدان میں ہیجان کی کیفیت ہے۔پی ڈی ایم میں باہمی اتفاق سے فیصلے نہیں کیے گے۔ شخصیات کی خواہشات اور رائے نے سیاسی اتحاد کو ختم کردیا۔اقتدار اور بس اقتدار۔۔۔۔نہیں تو انقلاب۔۔۔۔اللہ اکبر
سیاستدان اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کو چھپانے کے لیے اداروں پر الزام تراشی سے بھی گریزاں نہیں۔سوشل میڈیا پر نام نہاد جمہوریت پسند اداروں کے بارے غلیظ پراپیگنڈا مہم کی سرپرستی کرتے ہیں۔پی ٹی آئی عوام کی خدمت کر کے عام آدمی کے دل جیتنے کی بجائے زندہ بھٹو کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ سندھی قوم کی تذلیل میں اپنی کامیابی تلاش کرنے کی خواہشمند ہے۔ سندھ فتح کرنے کے لیے فواد چوہدری اور اسد عمر بے چین ہیں۔
حکومت اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرنے پر ہی تیار نہیں جبکہ اپوزیشن صرف اقتدار کے راستے کے مسافر ہیں۔اس سفر کو طے کرنے کے لیے کسی کا کندھا بھی میسر ہو توکچھ غلط نہیں۔اپوزیشن لیڈر پاوں پکڑنے تک تیار ہیں۔ سوچیں کس کے پاوں۔۔۔؟ نوازشریف کے یا کسی اور کے، سب جائز ہے۔
اس انتشار اور بگاڑ سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے سیاسی مکالمہ، حکومت اور اپوزیشن انتخابی اصلاحات پر بات کریں، معیشت پر میثاق کریں سب کچھ ممکن ہے اگر آئین پاکستان کے تابع رہ کر کوشش کی جائے۔ راقم الحروف کو بھٹو بطور حکمران اور نواب زادہ نصراللہ خان ایک اپوزیشن لیڈر کے طور پر یاد ہیں۔ یہ شخصیات اب موجود نہیں لیکن انکا طرز عمل تو سب کے سامنے ہے۔پی این اے نے اقتدار تو حاصل نہیں کیا تھا ہاں نہ بھٹو جسمانی طور زندہ رہا اور نہ پی این اے قائم رہی۔ سب سے پہلے پاکستان، یہی سوچ ضروری ہے۔ پاکستان کے لیے سوچیں پاکستانیوں کے لیے کچھ کریں۔ بھٹو زندہ ہے تو وہ لیڈرشپ بھی کبھی نہیں مرے گی جو پاکستان کو مضبوط کرے گی۔ اقتدار کے لئے پاوں پکڑنے سے بہتر ہے عوام کے پاوں تلے اپنی جنت تلاش کریں۔سیاست کی جنت عوام کے پاوں تلے ہی ہوتی ہے۔ سیاست مکالمہ کا دوسرانام ہے اور جب مکالمہ ختم ہوجاتا ہے توغیر آئنیی راستے ہی کھلتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلمان احمد قریشی کے کالمز
-
گفتن نشتن برخاستن
ہفتہ 12 فروری 2022
-
نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا عزم
جمعرات 27 جنوری 2022
-
کسان مارچ حکومت کیخلاف تحریک کا نقطہ آغاز
پیر 24 جنوری 2022
-
سیاحت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت
بدھ 12 جنوری 2022
-
''پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں''
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
ڈیل،نو ڈیل صرف ڈھیل
بدھ 29 دسمبر 2021
-
''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
غیر مساوی ترقی اور سقوطِ ڈھاکہ
اتوار 19 دسمبر 2021
سلمان احمد قریشی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.