''ملکی سیاست سے اتفاق رائے کی اصطلاح غائب''

بدھ 24 نومبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

جمہوری نظام حکومت میں اہم معاملات پر قومی اتفاق رائے کی اہمیت مسلمہ ہے۔ فیصلہ سازی میں اتفاق رائے کے لئے حکومت اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرتی ہے۔وہی فیصلے شرفِ قبولیت حاصل کر پاتے ہیں جو بحث اور مشاورت کے بعد کئے جائیں۔حکومت عددی اکثریت پر قانون سازی کا حق ضرور رکھتی ہے لیکن فیصلے وقتی فائدے اور انا کی تسکین کے لیے عجلت میں کئے جائیں تو تقسیم بڑھتی ہے۔

انتشار اور بداعتمادی نظام کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اپوزیشن کا مستقبل تاریک کرنے کی خواہش قوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔دنیا بھر کے کامیاب جمہوری نظام سے ہمیں جو سبق ملتا ہے اس میں سب سے اہم ترین یہ ہے کہ جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا وجود ماننا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

اہم فیصلے پارلیمان میں زیرِ بحث آتے ہیں۔ ہماری شومئی قسمت پہلا منتخب وزیراعظم پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور آئین پاکستان کو اصل شکل میں بحال کرنے اور مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینے والے راہنما کی بدترین کردارکشی کی گئی۔

یہ الزامات کی سیاست آج بھی عروج پر ہے۔سیاست صرف دشنام طرازی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا انداز سیاست اور تبدیلی سرکار کا طرز حکومت ہی اپوزیشن کے وجود سے انکار پر قائم ہے۔سیاست میں مفاہمت کو گالی بنا کر پیش کیا گیا۔ اسی رویے کی موجودگی میں قومی اتفاق رائے ممکن نہیں جبکہ سیاست تو ناممکن کو ممکن بنانے کا نام ہے۔

اختلاف اور مخالف رائے کو کرپشن کے بیانیہ سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ حقیقت میں کرپشن کا بیانیہ خود سیاسی کرپشن ہے۔ یہ بیانیہ بری طرح پٹ چکا۔ نیب کسی ایک سیاستدان کو سزا نہ دلوا سکا۔نوازشریف پانامہ سے ہوتے ہوئے اقامہ پر سزا یافتہ ہوئے۔ لیکن پورے جاہ وجلال سے بیرون ملک سدھار گئے۔ تاریخ نے پہلی بار دیکھا کہ ایک قیدی جیل سے 50روپے کے اسٹام پر بیرون ملک چلا گیا۔

مریم نواز کی سزائیں معطل ہوگئیں۔کونسا احتساب اور کیسا احتساب۔۔۔؟ این آر او نہیں دونگا کا ریکارڈ بجتا رہا مگر قوم نے یہ سب کچھ دیکھا۔الزام تراشی اور گالی گلوچ کا کلچر پروان چڑھتا رہا۔ حکومت کی کامیابی اس سوچ اور ایسے ماحول کی ہی مرہون منت ہے ایسے میں عوام کہاں اور قومی اتفاقِ رائے کیسا۔۔۔اپوزیشن قومی معاملات پر بھی اپنے محبوب قائد کے بند سیاسی راستہ کھولنے کے لئے کمر بستہ ہے۔

ملکی ادارے بھی مسلم لیگ(ن) کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔عدلیہ سے فیصلہ اگر حق میں آجائے تو انصاف کی فتح، اگر خلاف آگیا تو تحریک انصاف کی فتح۔۔۔اللہ اکبر کبیرا
رانا شمیم کا بیان حلفی (ن) لیگ کے لیے کسی صیحفہ سے کم نہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا یہ ملک ارشد کی ویڈیو یا اس طرح کے ضمیر کے قیدیوں کی باتیں صرف مسلم لیگ (ن) کے لیے بر وقت کیوں ظاہر ہوتی ہیں۔

لیکن انصاف کے پیمانہ پر انکی حیثیت صرف گمان کی اور الزام کی سی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ملک ارشد کی ویڈیو حقیقت، رانا شمیم باضمیر ہوئے تو ملک قیوم کی آڈیو کال کے بارے مسلم لیگ (ن) خاموش۔۔۔ یہ کیسا رویہ ہے یہ کونسی جمہوریت پسندی ہے۔
سیاست میں موجود سخت سیاسی رویے اور سیاسی تنازعات میں اداروں کو فریق بنانے کی پالیسی قوم میں نفاق ڈالنے اور اداروں پر سے اعتماد ختم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

ایسے ماحول میں ادارے بھی جواب دینے پر مجبور ہیں اس تناظر میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'کبھی کسی ادارے کی بات سنی اور نہ کبھی ادارے کا دباؤ لیا، مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ فیصلہ کیسے لکھوں، کسی کو مجھ سے ایسے بات کرنے کی کوئی جرات نہیں ہوئی۔کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی، اپنے فیصلے اپنی سمجھ اور آئین و قانون کی سمجھ کے مطابق کئے۔

فوجی قیادت بھی سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتی آ رہی ہے۔
اب چیرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے ایک بار پھر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی تفصیل سامنے لائی جائے۔صدر آصف علی زرداری کی یہ سوچ نہایت مناسب اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کہ انتہا پسندی کو شکست دینے کے لیے تمام طبقات مل کر بیٹھیں اور متفقہ حکمت عملی کی تیاری میں مدد دیں۔

ٹی ٹی پی سے مذکرات ہوں یا ٹی ایل پی کا معاملہ حکومت نے سب کچھ خفیہ رکھا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اپنی چھ برس کی سیاسی عمر میں مختلف مطالبات منوانے کے لیے تحریک لبیک سات مرتبہ اسی نوعیت کے احتجاج منظم کر چکی ہے۔ ہر مرتبہ ان احتجاجوں نے پُرتشدد شکل اختیار کی اور ان کا اختتام ہر بار حکومتِ وقت سے کسی نہ کسی معاہدے پر ہوا۔اب یہ معاہدے کیا تھے اور کونسا فریق اس معاہدے پر کار بند نہیں رہا۔

جبکہ یہ سیاست نہیں ملک کی سلامتی اور قوم کی یکجہتی کامسئلہ ہے۔
انتہاپسندی جیسے مسائل پر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر قومی اتفاقِ رائے حاصل کرنے کی سنجیدہ کوششیں ضروری ہیں۔ ویسے تو اتفاق رائے قومی مفاد کے تمام مسائل پر ضروری ہے مگر انتہا پسندی ایسا معاملہ ہے جو ملک کی سلامتی، بقا اور وجود کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس مسئلہ پر باہمی خلفشار اور نا اتفاقی کے نتائج پوری قوم کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے تمام محبِ وطن قوتوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔

اور ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے قابلِ عمل حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سیاسی گروہوں اور مذہبی فرقہ بندیوں میں بٹے ہوئے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام تر تفرقوں اور اختلافات کے باوجود جب بھی وقت نے اشتراک عمل کا تقاضا کیا، ہم متحد ہوگئے۔ 1973ء کا متفقہ آئین ہم نے اسی جذبے سے بنایا۔
ملکی سیاست میں قومی یکجہتی اور عوام کہاں ہیں یہ سوال حکومت کے ساتھ اپوزیشن کیلیے بھی شرمندگی کا باعث ہے۔

شرمندگی کیلیے احساس کا ہونا ضروری ہے جسکا فقدان ہے۔ حکومت بل پر بل پاس کروانے پر خوش ہے۔ آئندہ الیکشن ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ایسے میں کامیابی کیسی۔۔۔؟ مسلم لیگ(ن) کی سیاسی منطق ملکی اتحاد کے تقاضوں سے متصادم ہے اسکی ایک چھوٹی سی مثال اوکاڑہ میں چینی قونصل جنرل لاہور مسٹر پینگوئن زیڈ کی اوکاڑہ آمد ہے۔ اس حوالہ سے قومی اخبار میں شائع ہونے والی ایک نمائشی اور فرمائشی خبر سب واضح کرتی ہے ملکی قیادت سے لیکر مقامی قیادت کی سوچ کتنی سطحی ہے۔

خبر کے مطابق اپوزیشن میں ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے بین الاقوامی حوالوں سے اوکاڑہ میں بڑی سرگرمی میں کامیاب رہی۔ چین کے قونصل جنرل کی 8 ماہ 27دن بعد اوکاڑہ میں اپنے میزبانوں کے پاس دوبارہ آمد خاصی مقبول رہی۔ان تقریبات کو قائد نوازشریف اور سربراہ شہباز شریف کی طرف سے خاصا سراہا گیا۔ اسٹیج پر چینی صدر کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے قائد کی تصاویر کو بہت پذیرائی ملی۔


قارئین کرام! چین میں کسی سزا یافتہ سیاستدان کے نام پر سیاست کا تصور بھی ممکن نہیں لیکن یہاں بات کی جارہی ہے پذیرائی کی۔ یہ پذیرائی کس نے بخشی چینی قونصل جنرل تو ایسی سرگرمی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ خبر کے بارے نمائشی اور فرمائشی کے الفاظ کی حقیقت صرف اس سے ہی عیاں ہوجاتی ہے کہ مقامی صحافی کو چینی قونصل جنرل کے دوبارہ دورہ کے ماہ اور دن تک یاد ہیں۔

خبر میں خبریت نہیں صرف مقامی قیادت کی پارٹی قیادت کے لیے ستائش کا سامان ہے۔ اس دورہ میں اوکاڑہ کی عوام کا کیا فائدہ، ملکی مفاد کہاں صرف قائد کی تصویر اہم باقی سب حقیر۔۔۔
 ہمارے بڑے گھمبیر مسئلے ہیں، بیرونی خطرات، اندرونی خطرات، دہشت گردی، فرقہ پرستی، کرپشن، جہالت، پس ماندگی، مہنگائی،بے روزگاری، تعلیم کی کمی، صحت کے مسائل سمیت درجنوں ایسے مسائل ہیں کہ جن پر قومی اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے۔ ان سب مسائل پر حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ ملکر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔جبکہ ملکی سیاست سے اتفاقِ رائے کی اصطلاح ہی غائب ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :