بارشوں سے تباہ حال کراچی

ہفتہ 22 اگست 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

جب سے کراچی میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے میں نے خود پر بہت جبر کیا کہ کچھ نہ لکھا جائے‘ کسی کو کچھ نہ کہا جائے لیکن آخر کب تک ؟میں نے ”پانی اور پانی کی دھار“ دیکھنے کی ٹھانی تھی لیکن برداشت جواب دے ہی گئی ۔این ڈی ایم اے کو کراچی کے تین بڑے نالوں کی صفائی کی ذمہ داری دیئے جانے کے بعد مجھے بہت زیادہ تو نہیں لیکن تھوڑی بہت اُمید تھی کہ گزشتہ بارشوں میں کراچی میں جو مناظر دیکھنے کو ملے ‘ میری آنکھیں اب وہ نہیں دیکھیں گی لیکن میری یہ سوچ محض دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوئی‘ میں نے یہ بھی سمجھا تھا کہ مومن آباد کے آٹھ سالہ شاہ زیب‘ مون سون کی بارشوں کے چوتھے دورانیہ کی تین روزہ بارشوں کے دوران پانچ بچوں سمیت جو 18 افراد کرنٹ لگنے اور پانی میں ڈوب کرہلاک ہونے والوں کی قربانی کوئی رنگ لائے گی لیکن صدہائے افسوس ۔

(جاری ہے)


 مون سون کے پانچویں اسپیل کی دھواں دھار انٹری ہوتے ہی شہریوں کی شامت آگئی ۔ گلشن حدید سے کیماڑی‘اورنگی سے سرجانی‘ عائشہ منزل سے یوسف پلازہ جدھر دیکھئے ادھر گھٹنوں گھنٹوں پانی ہے ۔ کے ڈی اے سے ناگن چورنگی جانے والی شاہراہ کی پھر وہی کہانی ہے‘نالے اُبل پڑے‘ سڑکیں ڈوب گئیں۔ تیز بارش کے بعد حب کینال میں شگاف پڑگیا جس کے بعد پانی قریب کے گوٹھوں میں داخل ہوگیا۔

ہمدرد یونیورسٹی سے حب ڈیم جانے والے روڈ جہاں کئی مقامات پر برساتی نالوں کی گذر گاہیں ہیں وہاں سے ٹریفک مکمل طور پر بند ہوگئی ۔بلدیہ ٹاوٴن میں ریلے کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا‘ علاقہ مکینوں کو ایک بار پھر خراب صورتحال کا سامنا ہے۔سخی حسن چورنگی پر نالہ اُبل پڑا جس میں بارش کا پانی بھی مل گیا اور ہر طرف گندگی ہی گندگی پھیل گئی اور صرف یہیں نہیں بلکہ پورا شہر کی گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔

پہلے ہی مچھروں اور مکھیوں نے شہریوں کا جینا حرام کررکھا تھا آج کی بارش کے بعد تو اللہ ہی کراچی کی عوام کا حامی و ناصر ہو اور ابھی تو یہ اطلاع بھی ہے کہ بارش کا سلسلہ اگلے تین روز تک جاری رہے گا۔
باران رحمت اس شہر کیلئے بھی رحمت ہی ہے لیکن سندھ حکومت‘ شہری حکومت اور خود اس شہر کی عوام نے اسے اپنے لئے زحمت بنا دیا ہے ۔بارشیں ہر سال ہوتی ہیں‘ بارشوں کے نتیجے میں شہر کی صورتحال ہر سال خراب ہوتی ہے ‘ لوگ مرتے ہیں ‘ مکان تباہ ہوتے ہیں ‘ سڑکیں تباہی کا شکار ہوجاتی ہیں ۔

بالخصوص کراچی میں ایسا گزشتہ دو دہائیوں سے تواتر کے ساتھ ہوتا چلا آرہا ہے۔ بارشوں کی تباہی کے ساتھ کیوں کہ سندھ ‘بطور خاص کراچی کا تصور بندھا ہوا ہے لہٰذا اسی تسلسل میں بات کرتے ہیں۔گزری ہوئی دو دہائیوں میں پی ٹی آئی حکومت میں نہیں تھی ۔عروس البلاد کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے نام ہی سنے جاتے تھے)کچھ عرصے کیلئے جماعت اسلامی بھی میدان عمل میں نظر آئی( اور یہ دونوں جماعتیں ہی شہر کی وراثت کی دعوے دار تھیں لیکن ان دعویداروں نے کبھی اس شہر کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں جس کے نتائج آج اس شہر کی بدحالی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ۔


آج کراچی شہر پھیل کر عملی طور پر کنکریکٹ کا جنگل بن چکا ہے‘اسے کنکریکٹ کا جنگل بناتے ہوئے اس کے نکاسی آب کے تمام ذریعوں پر ناجائز تجاوزات قائم کردی گئی ہیں۔کراچی میں کسی زمانے میں چار بڑے نالے جن کو لیاری ندی‘ملیر ندی‘اورنگی نالہ اور گجر نالہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور درجنوں چھوٹے نالوں پر اس وقت تجاوزات قائم ہیں۔ ایک وقت تھا کہ گجر نالہ کو پیدل پار کرنے میں کم از کم پندرہ سے بیس منٹ لگتے تھے لیکن آج ایک منٹ بھی نہیں لگتا ۔

دنیا میں کسی بھی ملک‘ شہر اور معاشرے میں کوئی بھی حکومت عوام کی مدد کے بغیر تنہا ماحولیات کے مسائل پر قابو نہیں پاسکتی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی بہترین حکومت دن میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگا سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں مگر پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں پر عوام نے اپنیآبادیوں کے قریب موجود نالوں کو کوڑا کرکٹ سے بھر دیا ہے۔

مچھر کالونی کے قریب جو نالہ ہے وہاں پر اتنا کوڑا کرکٹ ہے کہ اس پر لوگ چل پھر سکتے ہیں۔یہ ایک نہیں بلکہ کراچی میں اس طرح کی کئی مثالیں ہیں‘ جب نالوں پر تجاوزات قائم ہوں گی اور کوڑا کرکٹ پھنکا جائے گا تو پھر اس کا حال وہ ہی ہوگا جو اس وقت کراچی کا ہو رہا ہے۔ اب کراچی میں بارش معمول کی ہوں یا زائد جب نکاسی آب کے راستے ہی نہیں ہوں گے تو پھر کراچی کا یہ ہی حال ہوگا جو اب ہو رہا ہے۔


ایک جانب عوامی بے حسی ہے تو دوسری جانب شہر کے ذمہ داران کا” غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے “ کراچی کا اصل مسئلہ اونر شپ کا ہے۔ اس شہر میں اٹھارہ ادارے کام کرتے ہیں۔ کئی ادارے، کئی علاقوں اور بڑے رقبے پر موجود میونسپل ادارے سندھ حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔یہ ادارے نالوں پرخود تعمیرات کراتے ہیں اور تجاوزات کو ختم کرنے میں تعاون نہیں کرتے ایسے میں سندھ حکومت اپنی بے بس کا رونا روتی ہے ۔


 بات کریں شہری حکومت کی تو کراچی کی صفائی کی ذمہ داری ناظم شہر کی ہے لیکن ان کے پاس جو عملہ ہے وہ بدقسمتی سے سیاسی اور سفارشی ہے۔ ادارے میں بدعنوانی کی حد یہ ہے کہ بغیر رشوت کے لوگ کسی کام کیلئے تیار نہیں ہوتے اور مون سون کا موسم سر پر آجانے کے باوجود نالوں کی صفائی کا کام ہوتا نظر نہیں آیا ۔ سڑکوں کے کناروں اور ندی نالوں میں کچرے کے ڈھیر دور سے دیکھے جاسکتے تھے اور عام لوگ بھی پریشان تھے کہ بارش ہوگئی تو کیا ہوگا؟بے حسی اور غیر ذمہ دار شہری انتظامیہ فنڈز کی کمی کا رونا ہی روتی رہ گئی اور کراچی پانی میں ڈوبتا چلا گیا ۔


اس وقت کراچی میں شہری سیلاب کی پیش گوئی کی جارہی ہے ۔ ماضی میں کراچی کو تین بار شہری سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں ایک 20ویں صدی کے آغاز‘دوسرا 1958 جس میں کراچی کا جنوبی حصہ ڈوب گیا تھا اور ایک 1978 جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔محکمہ موسمیات مستقبل میں بھی بارشوں کی پیش گوئی کر رہا ہے‘ اگراس دوران خدانخواستہ شہری سیلاب کی کوئی صورتحال بنتی خاکم بدہن شدید نقصان کا خدشہ ہے کیونکہ نکاسی آب کے تقریباً تمام ہی ذرائع ختم ہوچکے ہیں۔


 ‘گزشتہ بارشوں میں کراچی کی عوام پر گزرنے والی قیامت اوراسی متوقع شہری سیلاب کے پیش نظر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے فوری طور پرپاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے این ڈی ایم اے کو میدان میں لانے کا فیصلہ کیا تھاجس کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ فوج کا وہ ادارہ ہے جو غیر معمولی صورتحال مثلاً زلزلے یا سیلاب کی صورت میں فعال ہوتا ہے ۔

گو کہ یہ پہلے ہی کہہ دیا گیا کہ این ڈی ایم اے کے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں ہے کہ وہ برسوں کے بگاڑ کو چند روز میں درست کرسکے۔ ہر شخص یہ بات سمجھ رہا تھاکہ این ڈی ایم اے بارش کے نقصان کو کم سے کم کرنے کیلئے کچھ اقدامات تو کرسکتا ہے لیکن کم وقت میں کوئی بڑا کارنامہ وہ بھی انجام نہیں دے سکتا اور ایسا ہی ہوا۔بارش شروع ہوتے ہی شہر ندی اور نالے کا منظر پیش کرنے لگا ۔


کراچی کی موجودہ صورتحال میں لوگوں کو سابق ناظم شہر مرحوم نعمت اللہ خان بہت یاد آئے۔ پڑھے لکھے اور باشعور شہری یہ کہتے نظر آئے کہ اگر خان صاحب کو موقع مل جاتا تو شاید کراچی کا آج یہ نقشہ نہ ہوتا۔ یاد رہے کہ یہ نعمت اللہ خان کی پالیسیاں ‘ کاوشیں اور شروع کئے ہوئے کام ہی تھے جن کی تکمیل پر سابق ناظم مصطفی کمال کراچی کی تعمیر و ترقی کا سہرا اپنے سر پر سجاتے رہے ۔

کراچی کے مسائل اور معاملات انتہائی الجھے ہوئے ہیں‘ اس شہر میں ناظم بن کر آنے والا شخص نعمت اللہ خان جیسا ہونا چاہئے لیکن ہم عوام وسیم اختر جیسے لوگوں کو ووٹ ڈال کر ان سے نعمت اللہ خان جیسے کاموں کی احمقانہ توقع کرتے ہیں ۔وسیم اختر کا بدترین دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے‘ کراچی کی عوام کے پاس ایک اور موقع ہے کہ اپنے شہر کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے غیر جانبداری سے کام لیتے ہوئے ایک ایمان دار‘ محنتی اور کراچی کا درد رکھنے والے ناظم کا انتخاب کرے بصورت دیگر اگلے سال میرا قلم ایک بار پھر ایسی ہی باتیں اگل رہا ہوگا اور کراچی کے عوام اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلیں کراچی کی سڑکوں پر تیرانے پر مجبور ہوں گے۔

فیصلہ ہمارا اپنا ہے اور نتیجہ بھی ہم ہی دیکھیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :