ابھی مت مرنا۔۔۔

منگل 11 فروری 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

 وطن عزیز کی بے شمار دکھ بھری داستانوں میں سے ایک جڑانوالہ کے ارسلان حیدر کی ہے کہ جب وہ فیکٹری کی ملازمت سے نکالے جانے پر پریشان حال خالی جیب‘ خالی آنکھوں اور خالی ہا تھ گھر کی دہلیز پر پہنچا تو اپنے بیمار بھائی کہ جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اپنے خا ندان والوں اور بلخصوص اپنے غریب بھائی سے اپنی زندگی کے بجھتے ہوئے چراغ کی آخری لو کے لیے علاج کا تیل ڈالنے کی بھیک ما نگ رہا تھا۔

اس کی حالت زار دیکھ کر ارسلان نیم پاگل سا ہوگیا اوراس کے علاج کی فکر چھوڑ کر کسی اور ہی سوچ میں مبتلا ہو گیا۔
 ارسلان رو رو کر اپنے اکلوتے بھائی سے التجا کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ”میرے بھائی ابھی مت مرنا میرے پاس تو کفن دفن کے بھی پیسے نہیں ہیں“ کیا اس حقیقت پر خون کے آنسو بہانے کو دل نہیں چاہتا‘ کیا یہ وطن عزیز کے ہر غریب اور سفید پوش گھرانے کی داستان نہیں‘ کیا یہ ہر اس طبقے کی داستان نہیں جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے‘ کیا یہ ہر اس شخص کی کہانی نہیں جو دو وقت کی روٹی کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے‘ کیا یہ ہر اس خاندان کا دکھ نہیں کہ جن کے گھروں میں بیٹھی بیٹیاں جہیز نہ ہونے کے باعث ساری زندگی سروں میں چاندی سجائے بیٹھی رہتی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

ارسلان حیدر کے یہ الفاظ نشتر بن کر میرے سینے کو چیر رہے ہیں اور ہر ذی شعور انسان کے دل میں کانٹے کی طرح پیوست ہیں کہ جو انسانیت کا ذرا سا بھی درد اور احساس رکھتا ہے ہر اس شخص کو اس حادثے کا شدید افسوس ہوگا کہ جس نے اس کو محض ایک حادثہ تصور نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس اسے ایک قومی المیہ کے طور پر محسوس کیا ہوگا۔
اسلامی فلاحی ریاست میں ہر روز کسی نہ کسی ارسلان حیدر کو ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے‘ ہر روز کسی نہ کسی کوچے میں میتیں بے گورو کفن چندے کا انتظار کر رہی ہیں اور سرد خانے کی زینت بنے ہماری قومیت اور انسانیت پر نوحہ کناں ہیں یا پھر ہماری بے حسی اور لاچاری کی تصویر بنے ہمیں منہ چڑا رہی ہیں۔

کس طرح کے لوگ ہیں ہم‘ کس طرح کے مسلمان ہیں‘ کس طرح کے انسان ہیں کہ اپنے کندھوں پر کئی جنازے قبروں کے سپرد کرنے کے باوجود کبھی رک کر نہیں سوچتے کہ اس جنازے کا کفن دفن کیسے ہوا ہوگا‘ اس کا انتظام کیسے اور کس نے کیا ہوگا‘ کیا خاندان والوں کے پاس اتنا سرمایہ بھی ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں بغیر کسی پریشانی کے اس ذمہ داری سے سبک دوش ہو سکیں یا پھر یہ ذمہ داری بھی انہی لواحقین کی ہے کہ جن کے گھر میں سا نحہ پیش آیا ہے‘ ذرا سوچیئے کہ کیا ہم نے اپنا کفن دفن خود کرنا ہے‘ کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہم کب‘ کہاں اور کیسے اس جہان فانی سے کوچ کر جائیں گئے اگر نہیں تو یقین جانئے کہ ہم سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور خدا کے بعد ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دکھوں کا مداوا کرینگے‘ ایک دوسرے کے زخموں پر مرہم رکھیں گے‘ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹیں گے‘ ایک دوسرے کا مشکل گھڑی میں ساتھ دینگے مگر ہم تو زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے کی حرص میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ اپنا مرنا یکسر بھول بیٹھے ہیں۔

 کسی حد تک مساجد اور فلاحی ادارے اس کام کو انجام دے رہے ہیں مگر سوال یہ نہیں کہ مردوں کا کفن دفن کون کرے گا‘ اصل سوال یہ ہے کہ ریاست مدینہ میں اس طرح کے افراد اور خاندانوں کا کیوں کوئی حال پوچھنے والا نہیں ہے‘ کیوں غریب دو وقت کی روٹی اور علاج کو ترس رہے ہیں‘ کیوں ان کو اپنے علاج کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں‘ کوئی تو ان حکمرانوں سے پوچھے کہ کیوں؟آخر کیوں؟ ابھی تک اس ملک میں درپیش روزمرہ کے مسا ئل کہ جیسے ڈینگی جیسے مرض کے علاج کی سہولیات عوام کو میسر نہیں ہر سال کئی افراد علاج کی سہولیات کے بغیر ہی اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور ہزار افراد ہر سال ہسپتالوں میں زیر علاج ہوتے ہیں آخرکیوں وقت پر سپرے نہیں کیا جاتا‘ آخرکیوں باؤلے کتے کے کاٹنے کی ویکسین ہسپتالوں میں موجود نہیں ہے‘ آخر کب تک یہ ڈرامہ اسی طرح چلتا رہے گا‘ کب تک لوگ یونہی لقمہ اجل بنتے رہیں گے‘ کیا حکمرانوں کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے؟
میں پو چھتا ہوں کہ محکمہ اوقاف کہاں سو رہا ہے‘ محکمہ صحت کہاں مر گیا ہے؟ کیوں عوام کو ان محکموں سے کسی بھی قسم کی سہولت میسر نہیں ہے‘ جب بھی ان کی مدد کی ضرورت پڑ جائے تو عوام کو اس قدر کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ یا تو مریض علاج کے بغیر ہی لقمہ اجل بن جاتا ہے یا پھر اس کی لاش سرد خانے کی زینت بنی بے یارومددگار اس نظام مملکت کو آخری سلام پیش کر رہی ہوتی ہے اور اس مسیحا کی آمد کی طلب گار ہوتی ہے کہ جو اس کو سفر آخرت پر روانہ کر سکے۔

اب حال ہی میں کرونا وائرس کے حملے کے بعد پاکستانی طلبہ چین میں حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ہر روز میڈیا پر آکر حکومتی نمائندے انہیں تسلی دیتے ہیں اور ایک لائن جو شاید انہوں نے ٹرمپ سے سیکھی ہے کہ جو ابھی تک پاکستان اور ہندوستان کے معاملے پر استعمال کرتے ہیں کہ ہم حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مشیر صحت بھی بار بار اسی لائن کو دوہرا رہے ہیں اور دوسری طرف ان بچوں اور بچیوں کو اس قدر مشکلات کا سامنا ہے کہ ان کا پاکستانی سفارت خانے سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔

آپ کے پاس کم از کم اتنی اخلاقی جرات تو ہونی چاہیے کہ آپ کم از کم ان کی شکایات سن کر ان کو تسلی تشفیع تو دیں اور پھر ان کے مسائل اگر خود حل نہیں کر سکتے تو ان کو چینی حکام کے ذریعے ہی حل کروا دیں۔ ان کو اس طرح لاوارث تو نہ چھوڑیں۔ 
کیا یہ ہی نیا پاکستان ہے کیا یہ ہی اوورسیز پاکستانیوں کی قدر اور قیمت ہے۔ کیا یہ زندہ قوموں کا شیوا ہے کہ مشکل حالات میں اپنے شہریوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیں۔

میں مان لیتا ہوں کہ ہمارے پاس علاج و معالجے کی سہولیات چین کے مقابلے میں کم ہیں مگر کیا غیرت بھی ان سے کم ہے۔ کیا ان کا فون سننے اور ان کی چینی حکومت کے ذریعے امداد بھی ممکن نہیں۔ خدا را ملی غیرت کو جگا ئیں ان پاکستانیوں کی جس حد تک مدد ہو سکتی ہے کریں ورنہ خدا کو کیا منہ دیکھا ئیں گئے۔ ورگرنہ میں تو کہوں گا کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

ان پاکستانیوں سے ہاتھ جوڑ کر معذرت چاہتا ہوں کہ جو اپنے آپ کو چین میں تنہا اور بے یارو مددگار محسوس کر رہے ہیں۔ اوران سے گزارش کرتا ہوں کہ خدا پر بھروسہ رکھیں یقین جا نیے وہ آپ کو کھبی بھی حکومت پاکستان کی طرح تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وہ بڑا کار ساز ہے آپ کی مدد ضرور کرئے گا۔ 
میں یہاں پی آئی اے کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں اپنی تمام تر دیگر کمیوں کے باوجود کہ جنہوں نے عرصہ دراز سے ملک سے باہر وفات پا جانے والے پاکستانیوں کی میتوں کو مفت ملک عزیز میں پہنچانے کا ذمہ لیا اور وہ بخوبی اس کام کو انجام دے رہے ہیں‘ کیا پی آئی اے کی طرح دوسرے متعلقہ ادارے اپنے کام کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے اور حکومت کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود ابھی تک کسی بھی محکمے کی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نظر نہیں آرہی۔

وہی چال بے ڈھنگی ہے جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے‘ ان اداروں کو پی آئی اے سے سبق حاصل کرنا چاہیے‘ غریب اور بے سہارا افراد کو اس مشکل سے آزاد کر دینا چاہیے کہ وہ علاج اور پھر تدفین کے اخراجات کیلئے بے یارومددگار در در کی خاک چھاننے پر مجبور ہوجائیں‘ محکمہ صحت کو اس چیز کا سخت نوٹس لینا چاہیے کہ غریب عوام کا علاج یقینی بنایا جائے‘ ہیلتھ کارڈ ایک اچھا عمل ہے مگر اس کو سو فیصد عوام تک پہنچانا اور ہسپتالوں کے انتظامات کو درست کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور محکمہ اوقاف کو ان مجبور و لاچار افراد کیلئے 24 گھنٹے کی سروس شروع کرنی چاہیے اور اس سے بڑھ کر ہسپتال انتظامیہ کے پاس تدفین کیلئے خصوصی فنڈز ہونے چاہیے جو محکمہ اوقاف کی طرف سے ان کے پاس موجود ہوں کہ وہ میت کو لواحقین کے حوالے کرتے وقت تدفین کے اخراجات بھی حق دار خاندان کو ادا کریں۔

 یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے اخراجات تو کیا ہسپتال کا بل ادا نہ کرنے پر میت لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی‘ ان اخراجات کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ ہر مجبور و بے سہارا خاندانوں کو مستقل پیکج دے تاکہ بے چارے‘ مزدوروں‘ غریبوں‘ یتیموں کو ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے‘ کوئی اور ارسلان حیدر اپنے پیاروں کی جدائی کے غم کو بھول کر ان کی تدفین کیلئے رقم کا انتظام نہ ہونے کے غم میں مبتلا نہ ہوجائے۔

 یہاں ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد بسنے والے غریب اور سفید پوش لوگوں کا خیال رکھیں جس حد تک بھی ممکن ہو ان کی مدد کریں تاکہ ایک صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں لایا جاسکے‘ کسی کو پریشانی لے کر آپ کے پاس نہ آنا پڑے‘ کسی کو صدا بلند کرنے سے پہلے ہی دے دیا جائے اور ایسے دیا جائے کہ دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلے تاکہ اس کی عزت نفس بھی قائم رہے اور خدا بھی ہم سے راضی ہوجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :