برطانیہ میں بھی نسلی فسادات کا خدشہ

منگل 16 جون 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

چند روز قبل امریکہ میں سیاہ فام شخص  جارج فلوا ئیڈ کے پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے بعد سے حالات انتہائی کشیدہ ہیں  یہاں تک کہ امریکہ بھر میں فوج نافذ کرنی پڑی مگر سیاہ فام افراد کا غم و غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اور اب حالات یہ ہیں کہ یہ پرُ تشدد واقعات لندن تک پہنچ چکے ہیں ۔ گزشتہ چند  دنوں سے لندن میں پہ در پہ مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے حالیہ مظاہروں میں درجنوں پولیس اہل کار زخمی ہو چکے ہیں جو کہ کافی تشو شنا ک ہے۔

اگر یہ مظاہرے لندن میں بھی شدت اختیار کر گئے تو برطانیہ کو بھی دو طرفہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔ ایک تو کورونا کی وباء اور لاک ڈاؤن  تو دوسری طرف نسلی فسادات کی وباء اور انار کی ۔ سب سے زیادہ پریشان کُن بات یہ ہے کہ ان سیاہ فام عوامی مظاہروں کے دوران کورونا وائرس سے بچنے کے سارے قواعد و ضوابط کو بری طرح پامال کیا گیا۔

(جاری ہے)

جو کہ برطانیہ کے لیے کورونا وائرس کی ایک نئی لہر لےکر آسکتا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو خدا نخواستہ اموات کی تعداد  کا ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچنے کا خطرناک حد تک امکان ہے۔ برطانیہ میں کورونا نے اس قدر تباہی مچائی ہے کہ ابھی تک اس کے اثرات لاک ڈاؤن اور معیشت پر سر چڑھ کر بول رہے ہیں اوپر سے اب  یہ نیا مسلۂ درپیش ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی مسا ئل نے پہلی بار امریکہ اور برطانیہ کے دروازے پر اکٹھے دستک دی ہے ۔

جو کہ یہاں کی حکومتوں کےلیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
اب  یہاں سوال  پیدا ہوتا ہےکہ برطانوی حکومت نے کورونا وائرس کی جان لیوا وبا کے دوران  اس طرح کے احتجاج کی اجازت کیوں دی اور اگر دی بھی ہے تو اس میں کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر کیوں نہیں رکھا گیا یہ جانتے ہوئے کہ  اس کے برطانیہ پر  بہت برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اگر اس کا مقصد سیاہ فام کمیونٹی کے دل سے  جارج فلوائیڈ کے قتل کے غم و غصے کو کسی درست راستے پر ڈالنا مقصود تھا تو شاید اس کو کسی اور بہتر انداز سے بھی آرگنائز کیا جا سکتا تھا کہ جس سے کورونا کی وباء کے پھیلاؤ کا خدشہ کم سے کم ہوتا۔


بہر کیف اس کےعلاوہ اس امر کی بھی تردید نہیں کی جا سکتی کہ اب ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ ہی جینا ہو گا تب تک کہ جب تک اس کا کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہو جاتا۔ ابھی تک جو حل موجود ہے وہ صرف احتیاط ہے اور بس  اس کے سوا کوئی  چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارا خدا ہم سے روٹھ چکا ہے اور اُس کی بخشش طلب کیے بغیر ہم کسی بھی وبا ء کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

 
 اب ذرا ایک نظر برطانیہ میں نسلی فسادات کی طرف  بھی ڈالتے ہیں ان پرُ تشدد مظاہروں کی بھی  ایک تاریخ ہے مگر چند واقعات  قابل ذکر ہیں ۔ جن میں  ۱۱۸۹ کے  نسلی فسادات شامل ہیں کہ جب رچرڈ اوّل برطانیہ کا بادشاہ بنا اور اس نے چند  یہودی درباریوں کو کسی وجہ سے عہدوں سے برطرف کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں نے افوا پھیلا دی کہ بادشاہ نے یہودیوں کے قتل عام کا حکم دیا ہے بس اتنا سننا تھا کے لوگوں نے برطانیہ میں پہلے نسلی فساد ات کی داغ بیل ڈال دی  لندن میں لوگ نے یہودیوں کے گھروں کو تباہ برباد کرنا شروع کر دیا اور اس قدر تباہی پھیلی کے یہودیوں کو اپنا مذہب تک تبدیل کرنا پڑا بہرحال اس کے بعد کنگ رچرڈ  اوّل نے جو کہ کنگ ہنری دوئم کے تیسرے صاحب زادے تھے اس صورت حال کا علم ہونے پر اس قتل عام کو روکا اور یہودیوں کو امان بخشی۔


اس کے بعد ۱۷۶۸ میں نسلی فسادات تب شروع ہوئے کہ جب جان ویکس جو برطا نوی پارلیمنٹ کا ممبر تھا اس نے غلامی پر ایک کالم لکھا جو اس کے اپنے اخبار دی نارتھ برٹن میں شائع ہوا اس کے نسل پرستانہ اور  زہر آلودہ قلم کے باعث اس کے خلاف  بے شمار مظاہرے کیے گئےجس کے بعد حکومت کے چند افراد  نے  آرمی کو حکم دے کر سینٹ جارج فیلڈ میں مظاہرین پر اوپن فائر کھول دیا جس میں بے شمار مظاہرین موت کے گھٹ اُتر گئے۔


اس کی بعد ۱۹۵۷ میں نوٹنگ ہل کے نسلی فسادات بھی قابل ذکر ہیں جو کے برطانیہ کی تاریخ میں پہلے سیاہ فام اور سفید فام کمیونٹی کے درمیان  پیش آئے یہ پہلا واقعہ تھا کہ جب باقاعدہ سیاہ فام کو نسلی تعصب کا نشانہ بنایا گیا اور اس کا آغاز تب ہوا کہ جب سفید ڈیفنس لیگ نے سیاہ فام خاندانوں کو  کو اغوا کر لیا اس وقت  ۵۰۰ سے زائد افراد ہر روز سڑکوں پر نکلتے توڑ پھوڑ کرتے اور سفید فام افرا د پر حملے کرتے تھے  اس کے بعد  دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیل گیا۔

پھر ۹۷۷ ۱میں بیٹل آف لیوشم جس میں ۴۰۰۰ سے بھی زائد افراد نسلی تعصب کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ ۱۹۸۱ میں سیاہ فام کے بر کسٹن میں نسلی تعصب کے خلاف مظاہرے کہ جس کو بلڈی ہفتے کا نام بھی دیا گیا کہ جس میں ہزاروں افراد زخمی اور موت کا شکار ہوئے ۔اس کے بعد لندن میں یہ سلسلہ دوبارہ ۲۰۱۱ اور اب ۲۰۲۰ میں پھر سے شروع ہو گیاہے۔
مگر اس سب کے باوجود  موجودہ دور میں شاید برطانیہ میں نسل پرستی امریکہ اور باقی یورپ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

یہاں انسانیت کی وہ قدریں ابھی بھی باقی ہیں کہ جن کا درس ہمیں اسلام دیتا ہے۔ عدالتوں میں اور اداروں میں انصاف ہے اور نسل پرستی کا رجحان بھی نسبتاً کم ہے۔ مگر اس  کو مکمل طور پر ختم کرنا شاید نا ممکن ہے۔
ابھی حال ہی میں برٹش پولیس نے سیاہ فام مظاہرین کے سامنے ابھی سے سر جھکا دیا اور ان کی نسل کو عزت سے دیکھنے اور ان کو مساوی حقوق دینے کے وعدے کی تجدید بھی کی جو کہ برطانیہ کی جمہوری روئیے کا ایک خوبصورت انداز تھا ۔

مجھے اس میں تجربہ کار  جمہوریت کی ایک جھلک محسوس ہوئی ۔ اگر برطانوی حکومت بھی مظاہرین کو امریکہ کی طرح ڈیل کرتے تو آج برطانیہ کے حالات امریکہ سے دو گناہ ابتر ہوتے۔ مگر حکومت نے اس کا بھر پور احساس کرتے ہوئے  اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بہترین فیصلے کیے مگر میری تنقید اپنی جگہ موجود ہے کہ جارج کے قتل پر ہونے والے مظاہروں کو بہتر طریقہ پر آرگنائز کیا جا سکتا تھا اور ان معاملات کو شاید کسی اور طریقے سے بھی حل کیا جا سکتا تھا کہ جیسے جسنڈا نے برطانیہ میں مسجد پر حملے کے بعد نیوزی لینڈ میں نسلی تعصب کو بہت عمدہ طریقے سے حل کیا جو تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔


اسی طرح برطانیہ میں حال ہی میں پولیس رفارمز کا بل پاس کیا گیا ہے تاکہ اس طرح کے نسلی فسادات کے سامنے بند باندھا جا سکے جو کہ برطانوی اسمبلی کا ایک اچھا اقدام ہے۔
امریکہ کو اس سب سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جس طرح برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے نسلی تعصب کو ختم کرنے کے لیے اقدامات اُٹھائے ۔  ٹرمپ حکومت کو امریکہ  کو پولیس سٹیٹ نہیں بنانا چاہئیے یہ نہ ہو کہ اٹلی میں غلامی کے خلا ف اُٹھنے والے گلیڈ ئیڑز  کے جن کا آغاز یونان میں سپا ٹرز کی زمین پر ہوا تھا امریکہ میں بھی غلامی سے اٹی قوم ان کے نقش قدم پر نہ چل نکلے ۔


اب بھی وقت ہے حالات کو معمول پر لایا  جا سکتا ہے بس زد کے پیکر سے باہر نکل کر دوسروں کے جوتے میں اپنا پاؤں ڈال کر دیکھنے اور مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک چھوٹا سا اچھا قدم دنیا بھر کے انسانوں کو جوڑ بھی سکتا ہے اور ایک غلط قدم ان کو سول وار کی طرف لے جا سکتا ہے۔اس فقرے پر میرا یقین ہے کہ  
“Blood is thicker then water “

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :