
"سینیٹ الیکشن اور مفادات کا ٹکراؤ"
پیر 15 مارچ 2021

شیخ منعم پوری
حال ہی میں پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوئے، جس میں سینیٹرز، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات ہوئے، یہ تمام انتخابات اپنی نوعیت کے دلچسپ انتخابات تھے جس میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد( پی ڈی ایم ) اپنی جیت کے بلند وبالا دعوے کر رہے تھے، ہونا تو یہ چاہئے کہ جس کی اکثریت ہو وہی فتح کا حقدار ٹھہرے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہنے کا رواج ہے اور ایسا زیادہ تر سینیٹ کے انتخابات میں ہی ہوتا ہے کیونکہ یہاں خفیہ رائے استعمال کی جاتی ہے اور یہیں سے ہیر پھیر شروع ہوتی ہے، بولیاں لگتی ہیں اور پیسہ بھی چلتا ہے ،یہ سب حقیقت ہے اور اِن حقائق سے انکار نہیں کیا جا سکتا، حالیہ سینیٹ انتخابات سے پہلے کچھ اِس طرح کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جس میں خریدو فروخت کی جا رہی تھی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اِس مسئلے پر لائحہ عمل بناتیں تاکہ موجودہ سینیٹ انتخابات کو صاف اور شفاف طریقے سے منعقد کروایا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ اِس بار بھی ذاتی مفادات آڑے آ گئے اور جس کا جتنا بس چلا اُس نے سینیٹ انتخابات کا معرکہ سر کرنے کی کوشش کی اور وہی کامیاب ہوا جس کا داؤ زیادہ لگ گیا، سینیٹ انتخابات میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ وہی جماعت ہی جیتتی ہے جس کی صوبائی اسمبلیوں میں اکثریتی نشستیں ہوں اور اسلام آباد کی سینیٹ نشستوں پر انتخابات کے لئے ووٹنگ نیشنل اسمبلی کے ممبران کرتے ہیں اور وہاں بھی وہی جماعت ہی جیتتی ہے جس کی حکومت ہو یا اکثریت میں ہو، لیکن سینیٹ انتخابات میں کئی بار ایسا ہوا جب اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا چاہے وہ 2018 کے سینیٹ چیئرمین کے انتخابات ہوں یا 2021 کے سینیٹ کے تمام انتخابات، جس میں سینیٹرز، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات شامل ہیں، اِن انتخابات میں زبردست مقابلہ وفاق کی نشست پر تھا جس میں سید یوسف رضاگیلانی اور حفیظ شیخ مدِ مقابل تھے، لیکن انتخاب میں پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار یوسف رضاگیلانی حکومت کے امیدوار سے جیت گئے، یہ نتائج حکومت کو کسی صورت قابل قبول نہ تھے کیونکہ حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے اور یہاں اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا، اِس ہار میں حکومت کے کچھ اپنے اراکینِ اسمبلی کا ہاتھ ہی تھا، جن کو حفیظ شیخ بطورِ امیدوار کسی صورت قبول نہیں تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو حکومتی کارکردگی اور خان صاحب کے رویے سے نالاں تھے، اِس ساری صورتحال سے پی ڈی ایم نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور حکومتی اراکین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی وجہ سے یوسف رضاگیلانی کی جیت ممکن ہوئی، اِس ہار کے بعد بظاہر عمران خان صاحب اسمبلی میں اکثریت کھو چکے تھے لیکن انھوں نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا لیکن یہاں باعثِ حیرت یہ بات بھی تھی کہ خان صاحب نے اُنہی اراکین سے اعتماد کا ووٹ لیا جن کو وہ بکاؤ اور ناجانے کن کن القابات سے نوازتے رہے کیونکہ حکومت کے کچھ اراکین نے پی ڈی ایم امیدوار یوسف رضاگیلانی کو ووٹ دیا اور وہ جیت گئے تھے جس کے بعد اِس خفت کو مٹانے کے لئے عمران خان صاحب کی طرف سے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا گیا، پی ڈی ایم نے بظاہر اِس اجلاس کا مکمل طور پہ بائیکاٹ کیا کیونکہ اب کی بار الیکشن اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہونا تھے اور یہ یقین تھا کہ خان صاحب بھاری اکثریت کے لئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گے اور ہوا بھی ایسے ہی کیونکہ یوسف رضاگیلانی کی شکست کے بعد عمران خان حکومت نے اراکینِ اسمبلی کو منانے اور ساتھ چلنے کے لئے مکمل طور پر سرکاری مشینری کا استعمال کیا ،اور عمران خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے میں بھی کامیاب ہو گئے، لیکن اِس کامیابی کے بعد حکومت اور پی ڈی ایم کے بینچوں میں قدرے اطمینان تھا وہ اِس لیے کیونکہ یوسف رضاگیلانی کی جیت کے ذریعے پی ڈی ایم اتحاد حکومت کی اکثریت کو ہرا چکا تھا اور حکومت بھی جیسے تیسے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھاری اکثریت سے لینے میں کامیاب ہو گئی لیکن بازی تب ایک بار پھر پلٹی جب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخابات ہوئے اور اب کی بار اپوزیشن کی لی گئی اکثریت کو خفیہ رائے شماری کے ذریعے اقلیت میں بدل دیا گیا اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے حکومتی امیدوار جیت گئے، یقیناً یہ ہار اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھی، اِس ہار کے بعد عام رائے یہ پائی گئی کہ حکومت نے اب کی بار اپوزیشن سے یوسف رضاگیلانی کی جیت کا بدلہ لے لیا ہے لیکن حکومتی کوششوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن بھی یہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ الیکشن یوسف رضاگیلانی کسی صورت نہ جیتیں اور اِن کی ہار میں مسلم لیگ ن کا بھی بڑا کردار ہے وہ اِس لیے کیونکہ سینیٹرز کے الیکشن میں یوسف رضاگیلانی کی جیت کے بعد یہ تاثر پایا گیا کہ زرداری فارمولا کامیاب ہو چکا ہے اور پی ڈی ایم کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا نعرہ ووٹ کو عزت دو صرف نعرے کی حد تک ہی رہ گیا اور بازی زرداری صاحب کی جماعت پیپلزپارٹی نے جیت لی۔
(جاری ہے)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شیخ منعم پوری کے کالمز
-
صدارتی یا پارلیمانی نظام؟
پیر 24 جنوری 2022
-
کیسا رہا 2021 ؟
بدھ 29 دسمبر 2021
-
"مسائل ہی مسائل"
جمعہ 19 نومبر 2021
-
"نئے پاکستان سے نئے کشمیر تک"
جمعرات 29 جولائی 2021
-
افغان جنگ کا فاتح کون، امریکہ یا طالبان؟
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
"جمہوریت بمقابلہ آمریت،خوشحالی کا ضامن کون؟"
جمعہ 2 جولائی 2021
-
"حامد میر کا جرمِ عظیم اور صحافت کی زبان بندی"
بدھ 16 جون 2021
-
معاشرتی مسائل اور ہمارے روّیے"
منگل 15 جون 2021
شیخ منعم پوری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.