"سینیٹ الیکشن اور مفادات کا ٹکراؤ"

پیر 15 مارچ 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

طاقت کا نشہ جب کسی پر حاوی ہو جائے تو پھر وہ دنیا یا آخرت کے حقائق سے باخبر ہو جاتا ہے، وہ طاقت کے حصول کے لئے آخر تک لڑتا رہتا ہے، اگر جیت جائے تو نشے کے اثرات واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں چاہے وہ مثبت ہوں یا پھر منفی یہ طاقت کے توازن پر منحصر ہے، اگر ہار جارتو وہ کبھی بھی اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا چاہے اُس کے سامنے جو مرضی ثبوت رکھ دیں کہ وہ واقعی ہارا ہوا کھلاڑی ہے ۔


حال ہی میں پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوئے، جس میں سینیٹرز، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات ہوئے، یہ تمام انتخابات اپنی نوعیت کے دلچسپ انتخابات تھے جس میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد( پی ڈی ایم ) اپنی جیت کے بلند وبالا دعوے کر رہے تھے، ہونا تو یہ چاہئے کہ جس کی اکثریت ہو وہی فتح کا حقدار ٹھہرے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہنے کا رواج ہے اور ایسا زیادہ تر سینیٹ کے انتخابات میں ہی ہوتا ہے کیونکہ یہاں خفیہ رائے استعمال کی جاتی ہے اور یہیں سے ہیر پھیر شروع ہوتی ہے، بولیاں لگتی ہیں اور پیسہ بھی چلتا ہے ،یہ سب حقیقت ہے اور اِن حقائق سے انکار نہیں کیا جا سکتا، حالیہ سینیٹ انتخابات سے پہلے کچھ اِس طرح کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جس میں خریدو فروخت کی جا رہی تھی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اِس مسئلے پر لائحہ عمل بناتیں تاکہ موجودہ سینیٹ انتخابات کو صاف اور شفاف طریقے سے منعقد کروایا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ اِس بار بھی ذاتی مفادات آڑے آ گئے اور جس کا جتنا بس چلا اُس نے سینیٹ انتخابات کا معرکہ سر کرنے کی کوشش کی اور وہی کامیاب ہوا جس کا داؤ زیادہ لگ گیا، سینیٹ انتخابات میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ وہی جماعت ہی جیتتی ہے جس کی صوبائی اسمبلیوں میں اکثریتی نشستیں ہوں اور اسلام آباد کی سینیٹ نشستوں پر انتخابات کے لئے ووٹنگ نیشنل اسمبلی کے ممبران کرتے ہیں اور وہاں بھی وہی جماعت ہی جیتتی ہے جس کی حکومت ہو یا اکثریت میں ہو، لیکن سینیٹ انتخابات میں کئی بار ایسا ہوا جب اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا چاہے وہ 2018 کے سینیٹ چیئرمین کے انتخابات ہوں یا 2021 کے سینیٹ کے تمام انتخابات، جس میں سینیٹرز، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات شامل ہیں، اِن انتخابات میں زبردست مقابلہ وفاق کی نشست پر تھا جس میں سید یوسف رضاگیلانی اور حفیظ شیخ مدِ مقابل تھے، لیکن انتخاب میں پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار یوسف رضاگیلانی حکومت کے امیدوار سے جیت گئے، یہ نتائج حکومت کو کسی صورت قابل قبول نہ تھے کیونکہ حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے اور یہاں اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا، اِس ہار میں حکومت کے کچھ اپنے اراکینِ اسمبلی کا ہاتھ ہی تھا، جن کو حفیظ شیخ بطورِ امیدوار کسی صورت قبول نہیں تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو حکومتی کارکردگی اور خان صاحب کے رویے سے نالاں تھے، اِس ساری صورتحال سے پی ڈی ایم نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور حکومتی اراکین کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کی وجہ سے یوسف رضاگیلانی کی جیت ممکن ہوئی، اِس ہار کے بعد بظاہر عمران خان صاحب اسمبلی میں اکثریت کھو چکے تھے لیکن انھوں نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا لیکن یہاں باعثِ حیرت یہ بات بھی تھی کہ خان صاحب نے اُنہی اراکین سے اعتماد کا ووٹ لیا جن کو وہ بکاؤ اور ناجانے کن کن القابات سے نوازتے رہے کیونکہ حکومت کے کچھ اراکین نے پی ڈی ایم امیدوار یوسف رضاگیلانی کو ووٹ دیا اور وہ جیت گئے تھے جس کے بعد اِس خفت کو مٹانے کے لئے عمران خان صاحب کی طرف سے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا گیا، پی ڈی ایم نے بظاہر اِس اجلاس کا مکمل طور پہ بائیکاٹ کیا  کیونکہ اب کی بار الیکشن اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہونا تھے اور یہ یقین تھا کہ خان صاحب بھاری اکثریت کے لئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گے اور ہوا بھی ایسے ہی کیونکہ یوسف رضاگیلانی کی شکست کے بعد عمران خان حکومت نے اراکینِ اسمبلی کو منانے اور ساتھ چلنے کے لئے مکمل طور پر سرکاری مشینری کا استعمال کیا ،اور عمران خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے میں بھی کامیاب ہو گئے، لیکن اِس کامیابی کے بعد حکومت اور پی ڈی ایم کے بینچوں میں قدرے اطمینان تھا وہ اِس لیے کیونکہ یوسف رضاگیلانی کی جیت کے ذریعے پی ڈی ایم اتحاد حکومت کی اکثریت کو ہرا چکا تھا اور حکومت بھی جیسے تیسے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھاری اکثریت سے لینے میں کامیاب ہو گئی لیکن بازی تب ایک بار پھر پلٹی جب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخابات ہوئے اور اب کی بار اپوزیشن کی لی گئی اکثریت کو خفیہ رائے شماری کے ذریعے اقلیت میں بدل دیا گیا اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے حکومتی امیدوار جیت گئے، یقیناً یہ ہار اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھی، اِس ہار کے بعد عام رائے یہ پائی گئی کہ حکومت نے اب کی بار اپوزیشن سے یوسف رضاگیلانی کی جیت کا بدلہ لے لیا ہے لیکن حکومتی کوششوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن بھی یہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ الیکشن یوسف رضاگیلانی کسی صورت نہ جیتیں اور اِن کی ہار میں مسلم لیگ ن کا بھی بڑا کردار ہے وہ اِس لیے کیونکہ سینیٹرز کے الیکشن میں یوسف رضاگیلانی کی جیت کے بعد یہ تاثر پایا گیا کہ زرداری فارمولا کامیاب ہو چکا ہے اور پی ڈی ایم کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا نعرہ ووٹ کو عزت دو صرف نعرے کی حد تک ہی رہ گیا اور بازی زرداری صاحب کی جماعت پیپلزپارٹی نے جیت لی۔

(جاری ہے)

اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سینیٹ الیکشن لڑنے اور یہاں سے ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے جیتنے کی رائے پاکستان پیپلزپارٹی نے دی تھی جس کے بعد باقی ساری جماعتوں نے اِسے قبول کیا اور سینیٹ الیکشن میں بھرپور حصہ لیا اور پی ڈی ایم کی ساری جماعتوں نے یوسف رضاگیلانی کو متفقہ امیدوار نامزد کیا لیکن اِن کی جیت کے بعد سارا کریڈٹ پیپلزپارٹی کی جھولی میں پڑ گیا کہ زرداری فارمولا جیت چکا ہے، اور پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ کسی صورت قبول نہیں کہ پی ڈی ایم میں اکثریت ہونے کی وجہ سے اِن کامیابیوں کا کریڈٹ کوئی اور جماعت لے اِس لیے چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے کچھ امیدواروں نے جان بوجھ کر ووٹ ضائع کیے اور یوسف رضاگیلانی چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہار گئے، بظاہر تو مسلم لیگ ن نے کافی شور مچایا کہ حکومت نے پریزائڈنگ آفسر کے ساتھ مل کر ووٹوں کو ضائع کیا ہے لیکن یوسف رضاگیلانی کو ہرانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے یہ مضبوط عمل تھا ،اب یوسف رضاگیلانی بھی ایک بار تو ہار گئے اور حکومت کے اوپر بھی یہ الزام لگ گیا کیونکہ جس طرح ووٹوں کو ضائع سمجھ کر ریجیکٹ کیا گیا اِس عمل سے حکومت کا پریزائڈنگ افسر کے ساتھ ملے ہونے کا تاثر بھی جاتا ہے ،اِس سارے کھیل میں مسلم لیگ ن کا نعرہ ووٹ کو عزت دو ایک بار پھر پی ڈی ایم کا نعرہ بن چکا ہے، کہ اب ہمارے ووٹوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا ہے اور اِس میں حکومت کے ساتھ کچھ طاقتور شخصیات بھی ملوث ہیں اور یہ تاثر بھی کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حکومتی امیدوار کو جتوانے کے لئے اِن طاقتور شخصیات کی طرف سے مکمل زور بھی لگایا گیا شاید یہ لوگ کامیاب نہ ہو سکتے اگر ن لیگ ایسا کھیل نہ کھیلتی، اب ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی نے فوراً سے پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں سے ہار کا بدلہ لے لیا اور پی ڈی ایم امیدوار حکومتی امیدوار سے اکثریت میں ہونے کے باوجود ہار گئے، یعنی کہ سینیٹ کے اِن الیکشنز کے یہ مقابلہ جات کافی دلچسپ رہے جس میں حکومت کا پلڑا بھاری رہا، اِس ساری صورتحال میں پی ڈی ایم کے اندورنی اختلافات تو کھل کر سامنے آ ہی گئے کیونکہ اِن سب کے سیاسی مفادات ایک دوسرے سے الگ ہیں، حکومت کی کمزور پوزیشن ہونے کے باوجود پی ڈی ایم نے اِس سنہری موقعے کو ضائع کر دیا ،اب بظاہر اپوزیشن اتحاد ایک بار پھر مکمل توانائی کے ساتھ میاں نواز شریف کے بیانیے ووٹ کو عزت دو کے ساتھ میدانِ عمل میں نکلنے کے لئے تیار ہے اور اِس بار پی ڈی ایم کا زیادہ فوکس لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنوں پر ہی ہو گا لیکن اِس ساری صورتحال کے نتائج کے بعد ہی فیصلہ ہو سکے گا کہ ایک بار پھر اتحاد کے ساتھ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانا ہے یا مطلوبہ نتائج لانگ مارچ یا دھرنوں سے ہی حاصل ہو سکیں گے لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حکومت کو گرانے کے لئے پی ڈی ایم کے پاس قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا موقع بھی موجود ہے اور وہ یہ پریکٹس صوبائی اسمبلیوں خاص طور پہ پنجاب اسمبلی میں بھی استعمال کر سکتی ہے، لیکن اِس سارے عمل سے پہلے اب کی بار پی ڈی ایم کا مکمل فوکس لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنوں پر ہی ہوگا تاکہ حکومت کے خلاف ایک ماحول بنانے کے بعد تحریکِ عدم اعتماد والے آپشنز کی طرف آیا جائے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب پی ڈی ایم کا لانگ مارچ یا احتجاجی دھرنوں کا پلین ناکام ہوا، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اتحاد کو صحیح معنوں میں اتحاد کی بھی ضرورت ہے اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر پی ڈی ایم کے مشترکہ مفادات پر ہی سوچنا ہوگا تاکہ کامیابی ممکن بنائی جا سکے ورنہ  پلانز بنتے اور ٹوٹتے رہیں گے  اور اِس طرح حکومت بھی بغیر کسی کارکردگی کے کامیابی کے ساتھ اپنے پانچ سال بھی پورے کر لے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :