کچھ بیوہ سوالات

جمعہ 1 مارچ 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

بیوہ کا لفظ آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہے۔ اس سے مراد جیون ساتھی کامرجانا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں سوال اور جواب بھی ایک دوسرے کے جیون ساتھی ہوتے ہیں۔ اگر کسی سوال کا کبھی کوئی جواب نہ ملے تو کیا اِسے بھی ”بیوہ سوال“ نہیں کہا جاسکتا؟ ”بیوہ سوال“ والی میری نئی ایجاد کردہ اِس اصطلاح کو لے کر آئیے کچھ معاملات پر غور کرتے ہیں۔

 نریندر مودی کے مطابق عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اُن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”مودی جی میں پٹھان کا بچہ ہوں۔ میں سچا بولتا ہوں، سچا کرتا ہوں“۔ عمران خان کا یہ حوالہ دینے پر مودی کے لئے ایک بیوہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا بلوچ، سندھی، پنجابی، گلگتی، بلتی اور کشمیری بچے وغیرہ سچا نہیں بولتے اور سچا نہیں کرتے؟ حالانکہ دیکھا جائے تو بھارتی حکومتوں کو انڈین مقبوضہ کشمیری بچوں کا آزادی کے لئے سچا بولنے اور سچا کرنے کا 72 برسوں سے تجربہ بھی ہورہا ہے اور یہ کہ کشمیر کی آزادی کے لئے ہر پاکستانی بچہ بھی 72 برسوں سے سچا بولتا ہے اور سچا کرنے کو تیار ہے۔

(جاری ہے)

ہماری مشرقی روایات ہیں کہ جب کسی گھر کی لڑکی کا رشتہ پسند کیا جاتا ہے تو سسرال والوں کا اُس گھر کے لئے ایک خاص جانب دارانہ نرم اور صلح جو تعلقات والا رویہ نظر آتا ہے۔ مثلاً عید، شب برات پر لڑکی کے لئے تحائف بھجوائے جاتے ہیں، اگر کبھی سسرال والوں کو لڑکی والوں میں سے کوئی کسی دوسری جگہ مل جائے تو سسرال والے انہیں اٹھ کر تپاک سے ملتے ہیں، لڑکی والوں کو اگر کسی محکمے میں کوئی کام پڑ جائے تو سسرال والے ظاہر اور درپردہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔

گویا سسرال والوں کی مددگار اور محبت بھری نگاہیں لڑکی والوں کو ہرطرف سے گھیرے رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر سسرال والوں کا لڑکی والوں سے معاملہ خراب ہو جائے تو سسرال والوں کا لڑکی والوں کے لئے سخت اور جھگڑالو رویہ نظر آتا ہے۔ وہ لڑکی والوں کو بدنام کرنے سے لے کر اُن کے لئے ہر طرح کی مشکلات پیدا کرنا دنیا کے امن کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔

بالکل ایسے ہی عالمی برادری کے خارجہ تعلقات میں امریکہ اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہے جس کا تجربہ پاکستان کو 72 برسوں سے ہو رہا ہے۔ یعنی کسی ضرورت کے پیش نظر اگر امریکہ پاکستان سے راضی ہے تو پاکستان کے لئے لامحدود سہولتوں کے درکھل جاتے ہیں اور اگر پاکستان کوئی چال امریکی مرضی کے خلاف چل جائے تو پاکستان کے لئے درتو ایک طرف وشن دان بھی بند کردےئے جاتے ہیں۔

 
امریکہ افغانستان میں اپنی 18برس کی جنگ کی کھلی شکست سے بچنے کے لئے افغان طالبان سے کامیاب مذاکرات چاہتا ہے جس کے لئے پاکستان ایک اہم وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن دنوں امریکہ پاکستان کے لئے نرم اور صلح جو موڈ لئے ہوئے ہے۔ مثلاً امریکی صدر ٹرمپ کا پاکستانی حکومت کے لئے ناراض بیان کے بعد چند مہینوں کے اندر ہی مثبت بیان دینا، اقوام متحدہ کی صدر کا پاکستان کے دورے پر آنا، ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے پر جانچنے کے لئے مزید آگے کی تاریخ دے دینا، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے پر دلائل مکمل ہو جانے کے بعد فیصلہ سنانے کے لئے لمبی تاریخ دینا، برٹش اےئرلائنز سمیت انٹرنیشنل اےئرلائنز کا پاکستان میں فلائٹ آپریشن شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کرنا، عرب، خلیجی ممالک اور یورپین ممالک کا پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کرنا، پلوامہ اٹیک کے بعد موجودہ پاک بھارت ٹینشن کو کم کرنے کے لئے امریکی صدر ٹرمپ کا فوری بیان دینا، پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی بھارتی کوشش کا ناکام ہوجانا، پلوامہ اٹیک پر بھارت کی بھرپور سفارت کاری کے باوجود پاکستان کو پہلے کی طرح نشانہ بنائے بغیر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا تمام ممالک کو تحقیقات میں تعاون کرنے کا عام سا بیان جاری کرنا وغیرہ وغیرہ پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سہاگن وہی جو پیا من بھائے۔

 اپنا مطلب نکل جانے کے بعد امریکی نوازشات ختم ہوجانے کی نشاندہی پاکستان کی 72برس کی ہسٹری کرتی ہے۔ اِس پر ایک بیوہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ جب امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال کر لے جائے گا اور اُس کی ضرورت پوری ہو جائے گی تو کیا امریکہ کا رویہ پاکستان کے لئے پہلے کی طرح بے رخی والا ہی ہو جائے گا؟ جی ڈی اے کی طرف سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہونے والی بین الصوبائی رابطہ کی وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا پیپلز پارٹی کی نشست پر قومی اسمبلی کی سپیکر رہ چکی ہیں۔

جب وہ سپیکر تھیں تو میڈیا میں اُن کی شخصیت کا تاثر صلح جو، نرم گو، مہذب، شائستہ اور بردبار خاتون کے طور پر تھا۔ اُس دوران شاید کسی نے انہیں غصے میں آکر سیخ پا ہوتے نہیں دیکھا تھا لیکن گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں وہ اپنی ہی سابقہ جماعت پیپلز پارٹی کے ایک رکن سے بے حد غصیلے انداز میں الجھنے اور تکرار کرنے لگیں۔ اُس وقت وہ بہت مہذب فہمیدہ مرزا کی بجائے پرانے وقتوں کی جھگڑالو خاتون لگ رہی تھیں۔

اسی طرح کچھ دن پہلے ایک بے حد نفیس، بہت پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی سینئر اینکر پرسن کو جب پنجاب کے وزیراعلیٰ کے ترجمان شہباز گل نے تنقید کا نشانہ بنایا تو وہ ایک دم آپے سے باہر ہو گئیں۔ اُن کی تیز، تلخ اور آگ بگولا آواز کو سن کر یہ نہیں لگتا تھا کہ یہ وہی ڈیسنٹ اور بہت پڑھی لکھی سینئر اینکر ہیں۔
 یہاں ایک بیوہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نفیس ہونا، سلجھے ہوئے ہونا یا ڈیسنٹ ہونا شخصیت کا مستقل حصہ ہونے کی بجائے کیا بناوٹی پہناوہ ہوتا ہے؟ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو اُن کی اپوزیشن والے ڈرامے باز کہتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے لئے بھی اُن کی اپوزیشن والے یہی لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں بھی اُن کی اپوزیشن والوں کی یہی رائے ہے۔ یہاں ایک بیوہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جیسے ہرعہد کا ایک نام ہوتا ہے مثلاً پتھر کا زمانہ، کانسی کا زمانہ، سائنس کا زمانہ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ ڈرامے بازوں کا زمانہ ہے اور ان ڈراموں کے رائٹرو ڈائریکٹر کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ مسئلہ کشمیر 72برسوں سے ایک ہی دائرے کے گرد گھوم رہا ہے جس میں بھارت کی طرف سے الزامات، پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت، انٹرنیشنل طاقتوں کی طرف سے تحمل مزاجی کی نصیحتیں وغیرہ شامل ہیں۔

اس حوالے سے حال ہی میں دونئی باتیں سامنے آئی ہیں جن میں سے ایک پرویز مشرف کی طرف سے بھارت سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کا مشورہ اور دوسری اسرائیلی ہوائی جہاز کا ایک غیرمعمولی اسرائیلی شخصیت کو لے کر تل ابیب سے اسلام آباد آنا اور دس گھنٹے تک ٹھہرے رہنا جیسی غیرمصدقہ خبر شامل ہیں۔ یہاں ایک بیوہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مسئلہ کشمیر کے پرانے دائرے کے گرد ہی گھومتے رہیں گے یا نئے پاکستان میں کسی نئی تجویز پربھی غور ہوسکتا ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :