ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

ہفتہ 17 اکتوبر 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
آغا حسن عابدی صاحب کہ معرکہ اراء BCCI یا پھر شاہکار UBL کے وجود میں آتے ھی کئ عالمی اداروں کو تشویش ھوئی کہ اس میدان میں کوئ ان سے بہتر کھلاڑی بھی اتر چکا ہے اور سازشی سرمایہ کاری کا یہ راز کہیں تیسری دنیا پہ آشکارہ نہ ھو جائے اور کہیں جدید غلامی کے اس خواب کی تعبیر نہ دھندلی پڑ جائے۔


چناچہ سیاسی عوامل اور دوسرے زرائع سے اس بساط کو پلٹا گیا اور عابدی صاحب کو ھماری تقدیر بدلنے سے روک دیا گیا جنھیں آپ بینکنگ کا ملک ریاض کہ سکتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ نیک نام تھے۔
اسی عشرے سے عالمی مالیاتی اداروں نے کچھ خاص قوانین بنانے شروع کئے جن سے مطلوبہ معاشی اجارہ داری قائم کی جا سکے جو کہ سر مایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے اور اس نظام کی خوبصورتی بھی ہے ۔

(جاری ہے)


یہ Slow poison کی طرح اثر کرتا ہے اور جبتک آپ اس کے رموز سے واقف ھوتے ہیں یہ آپ کو حصار میں لے چکا ھوتا ہے اور مزید دلچسپ بات یہ ھے کہ اس میں مہارت یافتہ ممالک یا اقوام بیک وقت اس کی بھیانک رخ کی طرف سے خبردار بھی کرتی ہیں اور مستفید بھی ھوتی ہیں ۔ مثلاً منی لانڈرنگ کے قوانین کو ھی لیجئے مختلف مالیاتی اداروں کے زریعے ھمہ وقت اس کی بیغ کنی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور مختلف ممالک کو تو پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور خاص کر تیسری دنیا کے ممالک کی نازک اقتصادیات کو ذیادہ خطرہ رھتا ہے جہاں وسائل کی قلت ھوتی ہے اور اس طرح قومی منصوبہ نندیاں کرنا قدرے مشکل کام ھوتا ہے۔


مگر حیرت کی بات یہ کہ ھر سال انھی تیسری دنیا کے ملکوں سے دو سو بلین امریکی ڈالر منی لانڈر ھو کر ان ترقی یافتہ ممالک کے پاس چلی جاتی ہیں جو اس کی مخالفت کے علمبردار ہیں
مثال کے طور پر پاکستان بھارت اور افریقی ممالک کے چور سیاستدان، جرنلز اور کاروباری حضرات، حتی کہ روس کے مالدار لوگ جو برطانیہ میں چھپے پیٹھے ہیں اور برطانوی قوانین کے پیچ و خم ان کی سیاہ کاریوں کو دوام بخشے رھتے ہیں اور قانونی ماھر بہتی گنگا میں خوب ھاتھ صاف کرتے ہیں۔

Offshore companies کا ایک ناتمام سلسلہ ہے جن کی ملکیت کا کوئ سرہ نہیں ملتا اور ان سے کولمبیا کا مافیا، ھانڈورس کے اسمگلر، افغانستان کی باڑہ مارکیٹیں، میکسیکو کے اسلحے کے منڈیاں، ایرانی تیل، لیبیا کا سونا، وجے مالیا جیسے نو سرباز اور الطاف حسین جیسے بہر و پیے اور ارب پتی روسی نیکولے گلشکوو، آندرے بورودین جیسے دھوکے بازو کو FCAجیسے اداروں کے زریعے تحفظ دیا جاتا ہے مگر یہی ادارے برطانوی شہریوں کو ایسی کسی سرگرمی سے باز رھنے اور اس کے خلاف قوانین بنانے میں مصروف عمل رھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ FCA نے اب تک 132 بڑے برطانوی فراڈ پکڑ کر حکومتی خزانے میں جمع کروائے ہیں مگر اپنے وجود کے بارہ سال سے زائد عرصے میں ماسوائے وکی پیڈیا والے جولین اسانج جس پر امریکہ نے مدد مانگی تھی باقی 3,457 مانگے گئے لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی واپس ان کے ملک کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ برطانیہ کے معروف قانونی اداروں کے زریعے پراپرٹی، کموڈیٹیز اور نیشنل لاٹری کے حیلے بہانوں سے صرف پچھلے دس سالوں میں آٹھ سو بلین ڈالر کی رقم اپنے بینکوں میں جمع کروادی، اور ایسے ھی کئ اور معاملات ہیں جن سے لندن کو دنیا کا معاشی دارالحکومت بنایا گیا ۔

دوسرے کئ ممالک جن میں سوئزر لینڈ، باھاماس، لگزمبرگ بھی اس سے ملتے جلتے نظام سے منسلک ہیں جن کو G8 کے چند بڑے ممالک سے تحفظ حاصل ہے۔
ھر سال سات سو سے آٹھ سو بلین ڈالر کم ترقی یافتہ ممالک سے کریبین آئرلنڈ، الپائن فاینانشلز فورٹریس جیسے ٹیکس چور علاقوں میں منتقل ھوجاتا ہے جسے انسانی حقوق، مذھبی اور مالی مساوات کے علمبردار ملک کی مشہور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مدد حاصل ھوتی ہے جو تیسری دنیا جیسے ممالک میں سیاسی پشت پناہی کرکے حکومتی ڈھانچوں کو کمزور بنا کر اپنے مہروں کو سامنے لے کر آتی ہیں اور پھر ان کے زریعے ملک میں کاروباری مسابقت کو غیر فطری طور پر ختم کرکے اپنے منافع کو مزید بڑھاتی ہیں اور برے وقت میں پھر اپنے زر خرید غلاموں کو اپنے آقاؤں کے ہاں بھیج دیتی ہیں جہاں ان کی عیاشیاں ھمیں جلا وطنی معلوم ھوتی ہیں اور پھر وہ عظیم قائد کی شکل میں تاریخ میں امر بھی ھوجاتے ہیں جبکہ ھم اپنے ھی چوسے گئے خون سے بنے ابھی عظیم محلات کے باھر صرف چند گالیاں اور آوازیں کس کہ اس لئے سو جاتے ہیں کہ اگر ھمیں ان چور ممالک کی شہریت ملے گی اور اگر روزگار نہ بھی ھوا تو دو وقت کی روٹی کے پیسے سرکاری بھیک میں مل جائیں گے۔


مجھے یاد نہیں کہ عمران خان کے علاوہ پاکستان کے کسی ایک بھی رھنما نے ان عالمی راہ زنوں کی طرف اشارہ کیا ھو۔ ھم ایمل کانسی سے لے کر عافیہ صدیقی کو بغیر ثبوتوں کے حوالے کردیتے ہیں مگر ھمارے چور ھمیں لوٹانے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔ اس کی مثال عمران فاروق قتل کیس ہے جس میں قاتل کی نشاندھی ھو گئی ہے مگر گرفتار صرف وہ مدد گار ھوئے ہیں جو لندن میں کوئی بڑی سرمایہ کاری کرنے کے متحمل نہ تھے
اس نظام کی شیطانیت اور علت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ چین نے نظام حکومت کی حد تک تو کمیونسٹ نظریات رکھے ہیں مگر مالیاتی نظام مکلمل طور پر سرمایہ دارانہ ہے۔

آج دنیا میں غیر منصفانہ ارتکاز دولت اور انسان کے بنیادی حقوق کی جو پامالی تہذیب یافتہ اقوام کے ھاتھوں نظر آرھی ہے وہ شاید ھمارے سارے اختلافات کے باوجود ھمیں اس طرف دھکیل رھی ہے کہ آئندہ آنے والا وقت کارل ماکس کے قد میں اور اضافہ کرے گا اور قوی امید ھے کہ ماکس کے نظریات میں موجود خلا کو پر کرتے ھوئے دنیا اس بات کو تسلیم کرے گی کہ اسلام کا معاشی نظام آفاقی ہے اور موجودہ مضمرات کا بہترین حل ہے۔


غرض یہ جس وقت میں یہ الفاظ تحریر کر رھی ھوں خبر یہ ھے کینیڈا نے یہ کہ کر ایک ملک کو اسلحے کی سپلائی روک دی ہے کہ وہ خاموشی سے آزر بائجان کی مدد اس کے جائز مطالبے میں مدد کررھا اور سرحد پہ ھونے والی دوران جنگ چند اموات میں اس کا بھی کچھ حصہ ہے جبکہ یہی کینیڈا ایک اور ملک کو اس سے کہیں ذیادہ اسلحہ دے رھا ہے جس نے دوسرے ملک پہ حملہ کرکہ ایک انسانی المیہ کو جنم دیا ہے اور لاکھوں ناجائز اموات سے اپنے ھاتھ رنگے ہیں - چناچہ بات صرف مفادات کی ہے اور جن کو ھم ترقی یافتہ یا تہزیب یافتہ کہتے اور سمجھتے ہیں اور ان کی مثالیں دے کر ان سے دم دوا کی امید کرتے ہیں وھی منبع ہیں ان تمام امراض کا جو ان کی سازشوں اور ھماری نااہلیوں سے ھمیں لاحق ھوے اور ھم آج بھی ان سے ھی امید کئے بیٹھے ہیں کہ وہ اس کا مداوا کریں گے
میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ھوئے جن کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ھیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :