حالیہ بارش اور کراچی کی حالت زار

ہفتہ 18 جولائی 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

میرا اس شہر خرابہ میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
زرا سی بارش سے کراچی کا برا حال ہوجانا کو ئی نئی بات نہیں بچپن سے دیکھتے سنتے آرہے ہیں کہ بارشوں میں لوگ کس طرح راستوں پر پھنس جایا کرتے تھے بعض علاقوں میں سیلابی کیفیت ہوجاتی تھی اور اخبارات اس طرح کی خبروں سے بھرے ہوتے تھے کہ: کراچی میں شدید بارش نشیبی علاقے زیر آب آ گئے۔

بارش کا پانی گھروں میں داخل ہو گیا، لوگوں کی املاک کو شدید نقصان پہنچا۔
مجھے امید ہے کہ میری اس بات سے سب ہی اتفاق کریں گے۔ تو کیا وجہ ہے کہ عروس البلاد، روشنیوں کا شہر، پاکستان کی شہہ رگ، پاکستان کا تجارتی مرکز ستر سال گزرنے کے باجود بنیادی سہولتوں سے نہ صرف محروم ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)


ہم کسی دوسرے ملک کی مثال کیا دیں وہاں تو ترقی کا طوفان آیا ہوا ہے بنگلہ دیش جو بار بار سمندری طوفان سے شدید متاثر ہوجاتا تھا آج ہمارے لئے قابل تقلید مثال بن کر کھڑا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے ہی بعض شہروں سے کراچی کا موازنہ کریں تو پائیں گے کہ کراچی تو کہیں بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے، کراچی کی مثال تو کچھ یوں ہے کہ : دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے اور اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔

کیا کراچی وہ غریب پرور شہر نہیں جو پورے پاکستان سے روزی کی تلاش میں آنے والوں کو بڑے پیار سے اپنی آغوش میں لے لیتا ہے، اگر ہم گذشتہ بیس سال کا موازنہ کراچی اور لاہور کے درمیان ہی کریں تو بہت واضح فرق پائیں گے۔ دراصل کراچی کا کوئی بھی وارث نہیں۔ یہ ایک لاوارث شہر ہے، لوگ کماتے ہیں اور پیسہ اپنے آبائی علاقوں میں لگاتے ہیں۔ پاکستان نے جن افغانیوں اور بنگالیوں کو پناہ دی اور کراچی نے روزگار دیا اس ہی کراچی میں افغانیوں اور بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد بد ترین جرائم میں ملوث ہے، جو لوٹ مار سے لیکر قتل و غارت گری تک کرتے پھرتے ہیں۔

مگر کیونکہ یہاں کی نہ پولیس مقامی ہے نہ انتظامیہ لہذا وہ کیا کہتے ہیں کہ غریب کی بیوہ سب کی لگائی والی حالت کراچی کی بھی ہے۔ جو چاہتا ہے لوٹتا کھسوٹتا ہے، اور مزے اڑاتا ہے، اور کوئی پوچھنے والا نہیں، معاملا جائیدادوں پر قبضہ کا ہو یا چائینہ کٹنگ کی بات ہو یہ کراچی کا سینہ ہی ہے جسے سب چاک کر کے اپنا خراج وصول کر رہے ہیں، آخر کب تک اور کتنا کھائیں گے ہم اس غریب پرور شہر کو آخر اس کی بھی تو ایک حد ہوگی، پھر اس کے بعد تو مکمل تباہی ہی ہوگی یا ہاتھی مرا بھی سوا لاکھ کے مصداق اس بات کا انتظار کیا جائے کہ کب یہ مکمل تباہ ہو اور ہم اس کا سودا کریں۔


جب بھی کوئی آفت پریشانی دوسرے علاقوں میں آتی ہے یہی کراچی ہے جہاں سے سب سے پہلے لبیک کی صدا بلند ہوتی ہے، مگر جب کراچی پر مشکل وقت آتا ہے تو باقی تمام ملک بیٹھ کر منہ تکتا ہے اور باقی ملک کی کیا بات یہاں کے اپنے ارباب اختیا ر عیاشیوں سے سر اٹھا کر نہیں دیکھتے کہ شعلے ابھی ان کے گھر اور دامن تک نہیں پہنچے ہیں۔ بے حسی اور غیر ذمہ داری سندہ کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ ہے۔

پورا کا پورا شہر ابتری اور بدحالی کا بدترین شکار ہے، مگر سندھ کے نیرو اپنی بانسری کی دھن میں ایسے مگن ہیں کہ ان کو کوئی چیخ کوئی آہ سنائی نہیں دیتی۔
کل کی صرف آدھے گھنٹے کی بارش نے انتظامیہ کی کارکردگی کی قلعی کھول دی، اگر ان حکمرانوں میں زرہ برابر بھی غیرت ہو تو ڈوب مریں اسی بارش کے پانی میں جو ہر وقت جھوٹ کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔

ٹی وہ پر خیالی ترقی کی جھوٹی کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ کمال حیرت امر یہ ہے کہ یہ لوگ اکیلے میں خود سے نظریں بھی کیسے ملاتے ہوں گے۔ کہ کرتے تو کچھ نہیں مگر میڈیا پر قلابے بڑے بڑے مارتے نظر آتے ہیں ، جھوٹ ہی ان کی زندگی اور دھوکہ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہو کر رہ گیا ہے۔ لہذا جو بھی ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں وہ شہر پر لگنے کے بجائے ارباب اختیار کی جیبوں میں چلا جاتا ہے، اور کراچی بیچارہ چند منٹوں کی بارش میں ناک ناک تک پانی میں ڈوب جاتا ہے۔

کراچی کا میئر ساری مراعات لے رہا ہے مگر کہتا ہے کہ بے بس ہے ، بے اختیار ہے ، اگر تو اتنا ہی بیحیثیت اور بے اختیار ہے تو چھوڑ دے حکومت کی بڑی گاڑی اسٹاف اور مراعات کیوں بلا کام کئے مزے اڑا رہا ہے۔ جب یہ حضرت شہر میں چلتے ہیں تو ایک لمبا لشکر ان کی پیروی میں چلتا ہے، کیا ان کی آنکھیں نہیں دیکھتیں کہ شہر کھنڈر بن چکا ہے، یہی وہ کراچی ہے جہاں دنیا کے بڑے بڑے لوگوں نے آنے کو فخر جانا اور آج اگر کوئی آنا بھی چاہے تو ہم بلا ہی نہیں سکتے کہ دکھائیں گے کیا، شہر بھر غلاظت کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔

کوئی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ لوگ ذاتی او ر سیاسی اختلافات کا انتقام کراچی سے لے رہے ہیں۔ اور کراچی ان مفاد پرستوں کے درمیان ایک فٹبال بن کر رہ گیا ہے۔
اگر ہم سارا ملبہ ارباب اختیار پر ڈالیں تو انصاف نہ ہوگا، کراچی کے عام شہری بھی اس شہر سے مخلص نہیں ہیں جتنی بے قاعدگیاں یہاں ہوتی ہیں، شاید ہی کسی اور شہر میں ہوتی ہو، لوگ اپنے گھر کا کچرا بے دھڑک گلی میں پھینک دیتے ہیں، گاڑی بیچ راستے میں پارک کردینا اور ٹریفک کی خلاف ورزی کرنا جیسے زندگی کا جزو لازم بن کر رہ گیا ہے۔

ہر کام رشوت سے کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، پڑوسیوں کی بالکل بھی رعایت نہیں کی جاتی اور جتنا ان کو تنگ کیا جاسکتا ہے کیا جاتا ہے۔ چوری کی بجلی جلائی جاتی ہے، یہ سب کیوں ہے اس لئے کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کو کونسا ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔ تو جب اپنی آبائی جگہ پر ہوں گے تو تمیز تہذیب بھی اپنا لیں گے ، ابھی تو ان ہی رویوں کے ساتھ گزارہ کرتے ہیں۔


میں اس حوالے میں بالکل بھی کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار نہیں ہوں کہ کوئی کوہ کاف کا شہزادہ آئے گا اور اس شہر کی قسمت بدل دے گا، جب وہ لوگ ہی جو یہ دعوی کرتے رہے ہیں کہ وہ محبان کراچی ہیں اس عظیم شہر کو قبرستان بنا گئے تو کسی اور سے امید رکھنا پتھر میں جونک لگانے کے مترادف ہی ہوگا۔ ہم مل جل کر ہی حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں اس کیلئے سب کو اعلی ظرف کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا، سب کو اخلاق اور ایثار سے کام لینا ہوگا، دوسروں کے حقوق اور ان کی عزت نفس کا احساس کرنا ہوگا، دوسروں کی آل و املاک کی حفاظت اپنی ذاتی املاک کی طرح کرنا ہوگی تو امید کی جاتی ہے کہ یہ شہر پھر سے خوشیوں اور تمدن کا گہوارہ بن جائے۔

اب رہی بات شہری سہولیات کے حصول کی تو جب ماحول بنے گا یک جہتی ہوگی تو حکومت پر دباؤ ڈال کر بھی اپنا حق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کیلئے کام ہمیں اپنے گھر سے شروع کرنا ہوگا، ہر شخص اپنا محتسب آپ ہوگا تو امید کی جاسکتی ہے کہ مثبت نتائج آنا شروع ہوجائیں اور کراچی بار بار ڈوبنے سے بچ جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :