تباہ حال کراچی کی فریاد اور وزیر اعظم کی لبیک

اتوار 6 ستمبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جو عروس البلاد کے ساتھ ساتھ غریب پرور شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کے دل اور دروازے سب کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ یہاں کا ماحول دوسرے شہروں سے بہت ہی مختلف ہے، لوگ یہاں ملک بھر سے تعلیم و روزی کے حصول کے لئے آتے ہیں اور من کی مرادیں پاتے ہیں۔ مگر پیار کے بدلے پیار کے معاملے میں یہ شہر بہت ہی بدنصیب ہے کیونکہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے اس کا کوئی بھی حقیقی والی وارث اور دل سے پیار کرنے والا نہیں لوگ دعوے ضرور کرتے ہیں مگر دعوے محض لفاظی تک ہی رہ جاتے ہیں اور عملی طور پر کراچی محرومی، تنزلی، ابتری اور بد ترین حد تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ طرز عمل ارباب اختیار اور امراء تک محدود نہیں بلکہ یہاں کے عام رہنے والے بھی اس سے سوتیلی اولاد جیسا رویہ رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس شہر کی ابتری میں جتنا ہاتھ شہری انتظامیہ کا ہے اس سے کہیں زیادہ یہاں بسنے والوں کا ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کا کراچی کی بحالی اور ترقی کیلئے سوچنا اور اقدامات کرنا نہایت خوش آیندہ ہے، اور اگر یہ وعدے جو وفاقی حکومت کر رہی ہے پورے ہوگئے تو کراچی کی بڑی خوش قسمتی ہوگی۔
کراچی 1729 میں مچھیروں کے ساحلی گاؤں کے طور پر وجود میں آیا اور ابتداء میں اسے کلاچی کے نام سے پکارا جاتا تھا، آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہوا یہ شہر کراچی بن گیا، ایک بڑے میٹروپولیٹن شہر کی شکل اختیار کرگیا۔

پاکستان کے کاروبار کی شہ رگ اور سب سے زیادی کما کر دینے والا شہر بن کر سامنے آگیا اور اس قدر نامساعد حالات کے باوجود آج بھی ملک کو سب زیادہ پیسہ کما کر دینے والا شہر ہے۔ سرسری اعداد و شمار کے مطابق کراچی سے ٹیکس کلیکشن کی مد میں 75.15% ، کسٹمز ڈیوٹیز کی مد میں 79% سیلز ٹیکس ، امپورٹ ڈیوٹی اور FBR کلیکشن کی مد میں 53.38% جمع کرکے دے رہا ہے جو بذاد خود ملک بھر سے جمع کئے جانے اعداد و شمار میں سب سے زیادہ ہے۔

مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنا کما کر دینے کے باوجود خو د ہر دور میں اس کی اپنی ذات تعمیر و ترقی سے محروم اور نظر انداز رہا ہے۔ بلکہ اب تو حالت قابل رحم ہے۔
یہ سچ ہے کہ اس بار مون سون کی بارشیں غیر معمولی طور پر زیادہ تھیں، گوکہ پیشین گوئی تو محض 10 سے 20 فیصد زیادہ کی تھی مگر اس بار تو 70 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ کراچی میں عموماً اگست کے دوران 68 ملی لٹر تک بارش ہوتی ہے جو اس بار 587.5 ملی لٹر ہوئی جس نے گذشتہ 70 سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔


سنہ 2020 کا مون سون اس اعتبار سے بہت مختلف ہے کہ دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر کو اس نے شدید متاثر کیا، پاکستان کے بیشتر علاقے اس کی وجہ سے بد ترین صورتحال کا شکار ہیں بالخصوس کراچی کا تو بہت ہی برا حال ہے۔ اس بار کراچی بھر میں بارشوں نے وہ تباہی پھیلائی جس کی مثال ملنا محال ہے۔ پورا شہر کھنڈر بن کر رہ گیا ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔

شہر میں کئی روز پانی کھڑا ہے اور شہر کے طول عرض میں صرف تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے۔ املاک کے ساتھ ساتھ اس بار پاکستان بھر میں جانی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا اور قریب 134 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس بار جیسے ہی مون سون شروع ہوا اس نے ملک بھر میں تباہی مچا دی مگر کراچی متاثرہ علاقوں میں سرفہرست ہے۔ 27 اگست کو ایک دن میں کراچی میں ہونے والی سب سے زیادہ بارش کا 89 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔


اس حقیقت کے باوجود کہ بارشیں بہت زیادہ ہوئی ہیں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جانی مالی نقصان کا بڑا سبب سرکاری اداروں کی مجرمانہ غفلت و لاپرواہی ہے، کیونکہ زیادہ بارشوں کی پیشنگوئی تو پہلے ہی کی جاچکی تھی، مگر نالوں کی بروقت صفائی نہ ہوسکی اس ضمن میں ملنے والا فنڈ جو ورلڈ بینک نے دیا تھا وہ تو لوگ کھا کر ہضم کر چکے تھے۔

پاکستان کا سب سے کما کر دینے والا شہر اتنی بری حالت میں ہے کہ اس میں سے پانی کی نکاسی تک کوئی مناسب بندوبست نہیں۔
 جب سے پاکستان بنا روشنیوں کا شہر عروس البلاد تباہ ہوتے ہوتے کھنڈر بن کر رہ گیا، تمام شہری سہولتوں سے محروم کراچی ایک آفت زدہ شہر بن کر رہ گیا ہے۔ اور صوبائی حکمران اب بھی سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اور کمال حیرت بات یہ ہے اس پر باقاعدہ سیاست کی جارہی ہے، شہر کی تعمیر نو کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

ہمارے ہاں لاشوں پر کی جانے والی سیاست سب سے زیادہ مقبول اور کارآمد ہے لہذا سیاستدان کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
بارش کے متاثرین شہر کے طول و عرض میں پھیلے ہیں ڈیفنس سوسائٹی سے سرجانی ٹاؤن تک سب ڈوبے ہوئے ہیں کمر کمر تک پانی عام ہے جو کئی دن سے ان علاقوں میں کھڑا ہے، جس کی وجہ سے روڈ، عمارتیں ، املاک، گاڑیاں سب تباہ ہو گئے ہیں۔

بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے۔ لوگوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔
پاکستان چوک سے لیکر ڈیفنس ، شادمان، سخی حسن، ناگن چورنگی، سرجانی ٹاؤن، کورنگی، گلبائی ہر جگہ کئی کئی دن سے پانی کھڑا تھا۔ روڈ پانی میں بہہ چکے، جن میں اب جان لیوا گڑھوں نے جگہ لے لی ہے جو حادثات کا سبب بن رہے ہیں۔ سب سے قابل رحم حالت نیا ناظم آباد کی ہے جہاں گھروں میں کمر کمر تک پانی کھڑا ہے جس نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا ہے لوگوں نے بمشکل جان بچائی ۔


کراچی کی سب سے اہم اور مصروف شاہراہ ، شاہراہ فیصل کسی بڑے سیلاب زدہ تیز بہاؤ والے دریا کا منظر پیش کر رہی تھی۔ جگہ جگہ پانی کی سطح اتنی بلند تھی کہ گاڑیاں ڈوب گئیں اور بہاؤ اتنا تیز کہ لوگ گاڑیوں سمیت بہہ گئے۔ کراچی بھر کے انڈر پاس تو گویا سوئمنگ پول بن کر رہ گئے تھے اور کلفٹن انڈر پاس بد ترین تباہی کا شکار ہوچکا ہے۔ ان تمام تکالیف کے ساتھ پانی کا اخراج نہ ہونے کی وجہ سے گندگی اور تعفن پھیل رہا ہے جو ممکنہ طور پر وبائی امراض کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ صورتحال لوگوں کے لئے ذہنی اور جسمانی اذیت کا سبب بنی ہوئی ہے۔ لوگ پہلے ہی لاکھوں کی املاک کا دکھ کھائے بیٹھے ہیں کہ اوپر سے یہ اذیت مارے ڈال رہی ہے۔
انتظامی کوتاہی کسی کی بھی ہو خمیازہ کراچی کے ہر شہری نے بلاتفریق اپنی جان پر جھیلا ہے۔ بروقت برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے اور شہر سے پانی کی نکاسی کے غیر فعال اور ناکارہ نظام کی وجہ سے پورا شہر تباہی کا شکار ہوگیا، اور اب دوسرا بم عوام پر گرینڈ آپریشن کی شکل میں گرایا گیا ہے رات گیارہ بجے اعلان کیا گیا کہ صبح سات بجے تک اپنا گھر خالی کر دیں ورنہ بغیر وارنگ کے گرا دیا جائے گا۔

اب آپ سوچیں کہ ایک برسوں کا بسا ہوا گھر آدھی رات میں کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ نالوں پر قائم یہ بستیاں ناجائز تجاوزات کے سوا کچھ بھی نہیں، مگر کوئی پوچھے کہ یہ سب کیسے یہاں آکر آباد ہوگئے کراچی میں یہ حال ہے کہ اگر آپ اپنے جائز گھر کو بنانے کی کوشش کریں تو بھی پولیس دس چکر لگا لیتی ہے تو یہ بیسیوں سال سے یہاں کیسے آباد ہوگئے، کوئی تو ذمہ دار ہوگا، وہی مجرم بھی ہے۔

تو پھر یہ نادر شاہی حکم نامہ چہ معنی دارد، یہ تو اداروں کی شدید ناہلی ، غفلت اور لاپروہی کو ظاہر کرتا ہے، حالت یہ ہے کہ اتنی شدید مشکل گھڑی میں بھی لوگ کام کرنے کے بجائے سیاست چمکا رہے ہیں ، اور یہ باور کیا جا رہا ہے کہ جیسے سب کچھ ٹھیک کردیا گیا ہے۔ اب ان حالات کا مجرم کون ہے یہ تو اظہر من الشمس ہے۔
ایسے میں جبکہ سب اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں وزیر اعظم کا دورہ کراچی تیز دھوپ مین تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، اور پھر کراچی پیکیج کا اعلان ایک نہایت ہی خوش آئند بات ہے۔

اب دعا یہ کہ یہ جو فنڈز ملنے کی امید بندھی ہے وہ بلا کسی خیانت کے کراچی پر ہی لگ جائے کیونکہ گذشتہ شواہد نہایت حوصلہ شکن اور تکلیف دہ ہیں۔ وفاقی حکومت کو فنڈز کے اجراء سے پہلے ہی کوئی ایسا لائحہ عمل وضع کرلینا چاہئے جس کی رو سے فنڈز کراچی پر ہی لگ سکیں اور خرد برد اور لوگوں کی جیبوں میں جانے بچ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :