وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان کے قوم سے خطاب کا متن (ساتواں اور آخری حصہ)

پیر 20 اگست 2018 04:20

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اگست2018ء) ہم پاکستانی ان کے ساتھ کھڑے ہیں، انہوں نے کوئی جرم کوئی ہے یا وہ کوئی بے قسور ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد کئی بچارے لوگوں کا پتہ چلتا ہے کہ انہیں ایسے ہی پکڑ لیتے ہیں تو انشااللہ اپنی ایمبیسیز سے ان کی مدد کریں گے کیونکہ یہ ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہیں، اور پھر میں آ گیا اوورسیز پاکستانیز پہ، میں آج خاص طور پر اوورسیز پاکستانیز سے بات کرنا چاہتا ہوں، ہم یہاں آپ کے لئے انویسٹمنٹ کے پورے مواقع پیدا کریں گے، ہم یہ چاہیں گے کہ آپ اپنا پیسہ پاکستان لے کر آئیں، پاکستان کے بینکوں میں رکھوائیں۔

اس وقت ہمیں ڈالرز کی بہت کمی ہے، میں نے شروع میں آپ کو بتا دیا کہ ہمارا خسارا اتنا بڑھ گیا ہے کہ ٹریڈ گیپ اور ہماری امپورٹ اور ایکسپورٹ میں اتنا بڑا گیپ آ گیا ہے کہ ہمیں اس وقت ڈالرز کی بہت اشد ضرورت ہے، میں یہ چاہوں گا کہ اوورسیز پاکستانی ہمارے بینکوں میں پسہ رکھوائیں اور ترسیلات زر بھی جب اپنے رشتہ داروں کو بھیجیں تو بینکوں کے ذریعے بھیجیں تاکہ ملک کو ڈالرز ملیں، یہ جو ہمارا مشکل وقت ہے اس مشکل وقت کو گزارنے کے لئے میں اپنے اوورسیز پاکستانیوں کو خاص طور پر کہوں گا کہ آپ اس ملک میں اس وقت ہماری مدد کریں اور ہمیں اس وقت آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد کرپشن! یہ تیسرا بڑا ایشو ہے۔ کرپشن کے اوپر ہم نے اب پورا زور لگانا ہے، کوئی بھی ملک جس میں اتنی زیادہ کرپشن ہو وہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، کرپشن دو کام کرتی ہے، ایک تو جو پیسہ عوام پر خرچ ہونا ہوتا ہے وہ لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے دوسرا کرپشن کرتے وقت جب صاحب اقتدار لوگ کرپشن کرتے ہیں تو ملک کے ادارے تباہ کر کے وہ کرپشن کرتے ہیں، نہیں تو وہ کرپشن نہیں کر سکتے اور پکڑے جائیں گے، اس لئے کرپشن کے اوپر ہم انشاء اللہ پورا زور لگائیں گے اور ایک تو نیب ہے، نیب کے چیئرمین سے میں بہت جلد میٹنگ کروں گا اور انہیں کسی بھی قسم کی اگر کوئی مدد چاہیے، مین پاورز چاہیے یا کوئی فنڈز چاہئیں، ہم ان کی پوری مدد کریں گے اور انہیں پاور فل بنانے کے لئے ہر اہم اور موثر اقدام اٹھائیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک قانون پاس کرنے لگے ہیں جو ہم نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی کیا تھا، جسے وصل بلور ایکٹ کہتے ہیں، کوئی بھی آدمی خاص طور پر گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ جو بھی کرپشن کی نشاندہی کرتا ہے اور جو بھی پیسہ اس نشاندہی سے وصول ہوگا، اس کا 20 یا 25 فیصد اس نشاندہی کرنے والے شخص کو جائے گا، یعنی کہ وہ حلال طریقے سے پیسہ کما سکتے ہیں اگر وہ کرپٹ عناصر کی نشاندہی کریں اور ملک کا پیسہ بچائیں۔

وصل بلور ایکٹ جو خیبرپختونخوا اسمبلی میں پاس ہے اسے بھی ہم پاس کریں گے اور ایس ای سی پی جو بہت اہم ہے ہم اس ادارے کو بھی ٹھیک کریں گے کیونکہ پہلے یہ کرپٹ لوگوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور پھر ایف آئی اے۔ وزارت داخلہ میں اپنے پاس رکھ رہا ہوں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ایف آئی اے کے ذریعے ہم نے جو منی لانڈرنگ ہوتی ہے اس ملک سے، کرپشن ہے اس کے لئے میں خود اس پر پوری نظر رکھوں گا کیونکہ جب تک یہ مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں اور اس ملک کا پیسہ چوری کر کر کے باہر لے جا رہے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ یہ جو ہمارے ہیومن ڈویلپمنٹ ہیں، ہمارے انسان ہیں جنہیں ہم نے اوپر اٹھانا ہے انہیں نہیں اٹھا سکیں گے۔

اس کے اوپر میں خود نظر رکھوں گا، میں آپ کو بتا دوں کہ جب ہم کرپٹ لوگوں کے اوپر ہاتھ ڈالیں گے تو آپ سب لوگ تیار ہو جائیں یہ شور مچائیں گے۔ یہ کرپٹ لوگ جو ابھی تک پیسہ بنا رہے تھے یہ ہر جگہ بیٹھے ہوئے ہیں، ڈیپارٹمنٹس میں مافیا بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایف بی آر کے اندر بھی مافیا بیٹھے ہوئے ہیں، ہر جگہ ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو کرپٹ نظام سے پیسہ بنا رہے تھے، جب ان پر ہاتھ ڈلے گا تو یہ ذہن میں ڈال لیں کہ یہ شور ضرور مچائیں گے اور یہ شور ہر قسم کا مچائیں گے، سڑکوں پہ بھی آئیں گے، جمہوریت بھی خطرے میں آ جائے گی کیونکہ جب ان کی کرپشن پر ہاتھ ڈلے گا لیکن آپ نے میرے ساتھ کھڑے رہنا ہے کیونکہ یا یہ ملک بچے گا یا یہ کرپٹ لوگ بچیں گے تو اس لئے تیار ہو جائیں اس کے لئے، میں پھر سے آپ سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے میری ٹریننگ کرائی ہے مقابلہ کرنے کے لئے تو انشاء اللہ میں ان کا پوری طرح مقابلہ کروں گا۔

پھر ہم نے سب سے زیادہ چیز عام لوگوں کے لئے انصاف کا نظام بنانا ہے، میں نے چیف جسٹس کے ساتھ میٹنگ کرنی ہے، ہم نے عدلیہ عدالتوں میں جو لوگ سالوں سالوں کیس چلتے ہیں نیچے مسئلے ہیں کچہریوں میں مسئلے ہیں لوگوں کو، عام آدمی کے مسائل ہیں، زمینوں کے کیسز ہیں، جو کئی سال چلتے ہیں، لوگ بیچارے اگلے جہان چلے جاتے ہیں لیکن زمین کے کیس حل نہیں ہوتے، ہم نے چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی ہے جس طرح ہم نے پختونخوا میں کیا تھا، وہاں بھی ہم نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھ کر ایک سول پروسیجر کورٹ میں ترمیم کی تھی اور ایک سال کے اندر اندر سارے سول کیسز کا فیصلہ کیا۔

اس میں ہمارے ساتھ عدلیہ بھی تھی جنہوں نے ہمارے ساتھ پوری طرح تعاون کیا اور اب ہم یہ انشاء اللہ نیشنل لیول پر کریں گے، کیسز کو ایک سال سے زیادہ اوپر نہیں جانا چاہیے۔ ہم ساروں سے مل کر عوام کے لئے عوام سے یہ ظلم نہیں کر سکتے کہ جرم ہوتا ہے اور سزا نہیں ملتی، تو انشاء اللہ ایک ایسا نظام لائیں گے کہ ایک سال کے اندر کیس حل ہو گا، میں چیف جسٹس صاحب سے آج خاص درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ کئی بیوائیں ہیں جنہوں نے مجھے اپروچ کیا ہے جن بیچاریوں کی زمینوں پر قبضے ہوئے ہوئے ہیں، زمینوں کے کیسز ہیں، وہ بیچاری سالوں سے رل رہی ہیں لیکن ان کے کیسز حل نہیں ہوئے، میں چیف جسٹس سے درخواست کروں گا کہ کم از کم جو بیوہ ہیں ان کے کیسز حل کریں جنہیں بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

میں آپ کو ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب میں نے سیاست شروع کی تو مجھے ایک خاتون نے اپنے خون سے خط لکھا اور اس نے کہا کہ میں اور میری بیٹی پولیس سٹیشن جاتے ہیں، میرے خاوند کو کسی نے قتل کر دیا، ہم اس قتل کے کیس کی ایف آئی آر کے لئے تھانے جاتے ہیں وہاں وہ پولیس والے جان بوجھ کر ہمارا کیس ڈیلے کرتے ہیں اور ہمیں بار بار تھانے جانا پڑتا ہے جہاں وہ ہمیں بری نظر سے دیکھتے ہیں، تو وہ کہتی ہے کہ میری آج یہ حالت ہے کہ میری بیٹی اور میں کس کے پاس جائیں، تو میں انشاء اللہ آج سب کے سامنے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ یہ میرا عزم ہے کہ یہ جو ہمارا کمزور طبقہ ہے جن کے ساتھ ظلم ہوتا ہے یہ جو ہماری بیوائیں ہیں یا یہ جو ہمارا غریب طبقہ ہے جیلوں میں، جب میں جیل میں تھا ہر طرف غریب ہی نظر آتے تھے، آج میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جیلوں میں بھی ہم وکیلوں کے گروپس بھیجیں گے کہ وہ جا کہ جیلوں میں پڑے لوگوں کے مسئلے مسائل دیکھیں۔

وہاں کچھ لوگ ایسے بچارے پڑے ہیں کہ وہ فیس نہیں دے سکتے اور اس وجہ سے وہ وہاں پڑے ہوئے ہیں، اور بہت ساروں کا صرف یہی جرم ہے غربت۔ ہم نے وہ بھی کرنا ہے اور پولیس کا نظام بھی ٹھیک کرنا ہے، پہلے مجھے خیبرپختونخوا کی بہت خوشی ہے کہ کے پی کے میں پولیس میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے، میں بہت شکرگزار ہوں کہ جس طرح کے پی کے کی پولیس میں ایک ایسی تبدیلی لے کر آئے تھے اور ہمارے الیکشن میں جیتنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ وہاں پولیس ٹھیک ہو گئی اور لوگوں کو پولیس پر اعتماد آ گیا اور وہاں جرم نیچے آ گیا۔

وہ صرف اس لئے تھا کہ ہم نے وہاں پولیس کو پروفیشنل کیا، ایک پولیس کے جو آئی جی تھے جنہوں نے یہ ساری اصلاحات کیں ان کا نام تھا ناصر درانی۔ میں نے ناصر درانی کو یہ کہا ہے اور وہ مان گئے ہیں کہ اب پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کے لئے ہم انہیں ایڈوائزری دے رہے ہیں کیبنٹ کے اندر۔ اور ہم انہیں یہ رول دے رہے ہیں کہ جس طرح انہوں نے کے پی کے پولیس کو ٹھیک کیا وہ پنجاب کی پولیس کو بھی کریں۔

کیونکہ یہ صوبائی معاملہ ہے اس لئے ہم براہ راست مداخلت نہیں کر سکتے اور سندھ میں اور ہم پوری کوشش کریں گے کہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر سندھ پولیس کو بھی ٹھیک کیا جائے اور پولیس کا ایک جو افسوسناک مسئلہ ہے اور یہ بات پھیلتی جا رہی ہے کہ بچوں کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے، قصورکا ایک کیس سامنے آ گیا اور وہ صرف اس لئے کہ وہ سامنے آ گیا، اور اتنے زیادہ کیسز ہیں جو آپ سنتے ہیں، وہ ماں باپ شرماتے ہیں اور بیچارے ڈرتے ہیں، اور کسی سے بات تک نہیں کرتے اور ہم نے پولیس کے ساتھ مل کر یہ بچوں کے ساتھ جو زیادتی ہوتی ہے اس کے خلاف بڑا سخت ایکشن لینا ہے، انشاء اللہ ہیومن رائٹس کی جو ہم نے منسٹری بنائی ہے اس کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہوگا کہ چائلڈ ابیوز کو ختم کرنے کے لئے ہم پورا زور لگائیں۔

تعلیم! تعلیم کے لئے سب سے زیادہ زور سرکاری سکولوں پر لگانا ہے، گورنمنٹ سکولوں کے اندر جب تک تعلیم کا نظام ٹھیک نہیں ہو گا ہم اپنے بچوں کو پڑھا نہیں سکتے، ہمارے بچوں کی اکثریت سرکاری سکولوں میں جاتی ہے، سرکاری سکولوں کا برا حال ہے، کیونکہ سرکاری سکولوں کا برا ہے، تنخواہ دار لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجتے ہیں، پرائیویٹ سکولوں میں بعض اوقات فیسز بڑھ جاتی ہیں، کتابوں کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ یہ جو ہمارا تنخواہ دار طبقہ ہے وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے کے لئے کس طرح قربانیاں دیتا ہے، مجھے پتہ ہے کئی بیچارے دو دو نوکریاں کر رہے ہیں، صرف اس لئے کہ ان کے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ جائیں۔

لوگ اپنی قربانی دے لیتے ہیں لیکن اپنے بچوں کی قربانی نہیں دینا چاہتے اور چاہتے ہیں کہ کم از کم ان کے بچوں کو صحیح تعلیم ملے، اس لئے ہم نے سب سے زیادہ زور سرکاری سکولوں کے سٹینڈرڈ کو ٹھیک کرنے پر لگانا ہے، پختونخوا میں کئی سرکاری سکولوں کا سٹینڈرڈ اتنا بہتر ہوا کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچہ پرائیویٹ سکولوں سے سرکاری سکولوں میں آیا، اب ہم نے اس کو اور لیول پر لے کر جانا ہے اور گورنمنٹ سکولوں کے لیول کو مزید بہتر کرنا ہے اس کے باوجود جو ہمارے اتنے بچے سکول سے باہر ہیں، ہم ایک اور چیز سوچ رہے ہیں کہ ڈبل شفٹ کریں اور پرائیویٹ سکولوں کو دعوت دیں کہ جب سرکاری سکولوں کا ٹائم ختم ہو تو جو پرائیویٹ سکول والا چاہتا ہے اس کو کرایہ پر لے کر وہاں اپنی کلاسز ہولڈ کر سکتے ہیں لیکن ایمرجنسی ہے کہ ہم نے اپنے سوا دو کروڑ بچوں کو جو سکولوں سے باہر پڑے ہیں، یہ ظلم نہیں ہونے دینا اپنی قوم سے اور اپنے بچوں کو پڑھانا ہے ،انہیں سکول لے کر آنا ہے۔

ہم نے اپنے مدرسہ کے بچوں کو بھی نہیں بھولنا، میرا ایک جو اور بھی وژن ہے وہ یہ ہے کہ مدرسے سے نکلنے والے بچوں کو بھی انجینئر بننا چاہیے، ڈاکٹر بننا چاہیے، بڑے بڑے کام کرنے چاہئیں، جنرل بننا چاہیے، ججز بننا چاہیے، ہم کیوں انہیں یہ موقع نہیں دیتے، ہم نے انشاء اللہ مدرسہ کا جو ایجوکیشن سسٹم ہے جس میں ہمارے 24 لاکھ بچے پڑھتے ہیں اس کے سٹینڈرڈ کو ریز کریں اور انہیں موقع دیں کہ ان کے ہاں سے بھی بچے پڑھ کر آگے بڑھ سکیں۔

پھر ہسپتالوں کے لئے ہم نے ہسپتالوں کے لئے ٹاسک فورس بنائی ہے، ہم نے جو پختونخوا کے اندر کیا وہ بڑا مشکل کام ہے، میں آپ کو ایک چیز سمجھا دوں، شوکت خانم ہسپتال بنانا، اس میں نظام بنانا اس کے اندر نیا سسٹم لے کر آنا، میرٹ کا نظام بنانا، سزا اور جزا کا نظام بنانا آسان کام ہے لیکن گورنمنٹ ہسپتالوں میں جن میں ایک پرانا اور فرسودہ نظام موجود ہے اس کو ٹھیک کرنا بہت مشکل کام ہے، ہم نے بڑی کوشش کی، بڑا زور لگا کر پختونخوا کے اند رآخری سال میں پانچ سال زور لگایا اور آخری سال میں ہسپتالوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ابھی بھی صحیح طرح سے نہیں آئی لیکن جب تک ہم سرکاری ہسپتالوں کا مینجمنٹ سسٹم نہیں بدلیں گے وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا مقابلہ نہیں کریں گے۔

پھر ہو گا کیا کہ امیر آدمی پرائیویٹ ہسپتال میں اور غریب آدمی سرکاری ہسپتالوں میں، ہم نے سرکاری ہسپتالوں کو ٹھیک کرنا ہے اور اس کے لئے میں نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے اور جن دو صوبوں میں ہماری حکومت ہے وہاں تو ہم پورا زور لگائیں گے اور سندھ میں ہم پوری کوشش کریں گے کہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر سرکاری ہسپتالوں کے سٹینڈرڈ کو ٹھیک کریں۔

سب سے زیادہ ضروری ہے کہ پورے پاکستان کے اندر ہیلتھ کارڈ لے کر آئیں گے، پختونخوا کے لوگوں کے لئے جو ہیلتھ کارڈ تھا، ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی جو انشورنس تھی کہ غریب گھرانے میں اگر کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو ساڑھے پانچ لاکھ روپے تک وہ خرچ کر سکتا ہے، انشاء اللہ سارے پاکستان کے اندر یہ ہیلتھ انشورنس لے کر آئیں گے تاکہ غریب گھرانے جو پہلے ہی مشکل میں ہیں، کھانا پینا مشکل ہے اور اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اس کے پاس اگر ہیلتھ کارڈ ہو تو وہ کسی بھی ہسپتال میں جا کر اپنا علاج کروا سکے۔

پھر جو مسئلہ ہے پانی کا وہ بہت بڑا مسئلہ ہے جو کافی دیر سے چلا آ رہا ہے لیکن کے اس کے لئے کچھ ہوا نہیں اگر پہلے سے اس کی تیاری ہوتی تو یہ مسئلہ نہ ہوتا، اب ہمارے اوپر اس کی ایمرجنسی ہے، سب سے پہلے تو ہمارے شہروں کے اندر مشکل پڑ گئی ہے، کراچی میں پانی نہیں ہے، سب جانتے ہیں کہ ٹینکر مافیا آ گیا ہے اور لوگ پانی دینے پر بھی پیسہ بنا رہے ہیں، کیا حالات ہیں کراچی کے، کوئٹہ کے اندر وہاں پانی نہیں ہے، اسلام آباد میں بھی کئی علاقوں میں پانی نہیں ہے اور یہ جو مسئلہ ہے پانی کا یہ آج کا نہیں ہے بلکہ کئی دیر سے چلتا آ رہا ہے لیکن کسی نے اس بارے میں سوچا نہیں۔

پانی کے مسئلے پر ہم ایک پوری منسٹری بنا رہے ہیں اور پورا زور لگا رہے ہیں کہ پہلے شہروں میں کیسے پانی کو پہنچانا ہے اور کسانوں کے لئے ہم نے پوری کوشش کرنی ہے کہ انہیں نئے طریقے بتائے جائیں کہ وہ کیسے پانی بچا سکتے ہیں۔ دنیا میں بہت زبردست طریقے ہو گئے ہیں پانی بچانے کے، سنٹرنکل سسٹم وغیرہ وغیرہ۔ اس معاملے میں ہم کسانوں کی مدد کریں گے، نہروں کی لائننگ کریں گے، اس سے بھی پانی بچایا جا سکتا ہے، اس وقت ایک ڈیم بنانا تو ناگزیر ہو گیا ہے، بھاشا ڈیم ہمیں ہر قیمت پر بنانا پڑے گا کیونکہ اگر ہم نے نہ بنایا تو آگے جا کر ہمیں بہت مسئلے آئیں گے، ڈیم کیوں نہیں بنتا کیونکہ ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے اور انشاء اللہ ڈیم کے لئے جس طرح چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے اور زبردست انیشی ایٹو لیا ہے ساری قوم مل کر بیرون ملک پاکستانیوں کو ساتھ ملا کر ہم پوری کوشش کریں گے کہ بھاشا ڈیم بنانے کے لئے پیسہ اکٹھا کریں۔

پھر نویں چیز کسان! پاکستان میں اگر ہم نے سب سے تیزی سے آگے بڑھنا ہے تو ہم کسانوں کی مدد کریں، کسانوں کے پاس جب تک پیسہ نہیں آئے گا وہ اپنی زمین پر نہیں لگائیں گے، اگر وہ زمین پر نہیں لگائیں گے تو پیداوار نہیں بڑھے گی اور حکومت نے مدد کرنی ہے تاکہ کسان پیسہ بنائے اور کسان پیسہ تب بنائے گا جب ہم اس کے خرچے کم کریں گے اور پیداوار کی قیمت بڑھائیں گے اور ایک ایکڑ سے زیادہ پیداوار کے لئے اس کی مدد کریں گے، اب اس کے لئے سب سے جو زیادہ ضروری چیز ہے وہ ایگریکلچرل ریسرچ۔

ہمارے پاس فیصل آباد یونیورسٹی زبردست ہوتی تھی، جس طرح دوسرے ادارے تباہ ہوئے، وہ بھی پیچھے رہ گئی۔ اور سب سے زیادہ ضروری ہے ایگریکلچر ریسرچ، ہم نے کسانوں کیلئے ریسرچ کرنی ہے، یہ سوچیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بیچارے کسان بھارت سے سبزیوں کے بیج لیتے ہیں تاکہ ان کی پیداوار بڑھ جائے، ہم کیوں نہیں کر سکتے ہیں، ہم انشاء اللہ کسانوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لئے پورا زور لگائیں گے لیکن ریسرچ سب سے زیادہ ضروری ہے، پانی کا بہتر استعمال وہ دوسری چیز ہے کہ وہ کیسے اپنی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔

اس کے بعد سول سروسز ریفارمز بہت زیادہ ضروری ہیں یعنی حکومت پالیسی بنائے گی اور اگر اس حکومتی پالیسی کو سول سروسز ایگزیکیوٹ نہیں کرتی تو ہم جو مرضی پالیسی بناتے جائیں، 60ء کی دہائی میں پاکستان کی سول سروسز سارے ایشیاء میں بہتر سول سروسز مانی جاتی تھیں، ہمارے بڑے بڑے پراجیکٹ ہماری اپنی سول سروسز نے کئے تھے، ہماری سول سروسز کی دنیا بھر میں اچھی ریپوٹیشن تھی، ہماری بدقسمتی کہ ہم نے سیاسی مداخلت سے میرٹ کو ختم کر کے پروفیشنل ازم ختم کر کے آج ہماری سول سروسز اس معیار کی نہیں ہیں، ہم نے اپنی سول سروسز کو اٹھانا ہے اس کے لئے ہم ریفارمز کر رہے ہیں، ڈاکٹر عشرت حسین نے کتاب یھی لکھی ہے اور انکی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بن رہی ہے اور سول سروسز ریفارمز پر ہم پورا کام کر رہے ہیں کہ ہم کیسے میرٹ واپس لا سکتے ہیں اور اس میں سیاسی مداخلت ختم کر سکتے ہیں، میں سول سرونٹس کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم اپنی حکومت میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں آنے دیں گے، آپ ڈلیور کریں ہم آپ کی سپورٹ کریں گے، آپ کی ایفیلی ایشن جس مرضی جماعت سے ہے مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا، مجھے صرف یہ چاہیے کہ آپ میرے ملک کے لئے کام کریں، ہم آپ کو پوری عزت دیں گے، جس طرح پچھلے دور میں سول سرونٹس کو نوکروں کی طرح رکھا گیا، ہم ایسا نہیں کریں گے، ہم آپ کو عزت بھی دیں گے، کوئی مداخلت بھی نہیں کریں گے اور اب آپ کی پوری مدد کریں گے، آپ کے ٹنیور کی پروٹیکشن بھی دیں گے، یہ نہیں ہوگا کہ ہر دوسرے دن ٹرانسفر، اس میں بھی آپ کی مدد کریں گے، لیکن میں جو چاہتا ہوں کہ ایک عام آدمی کہ ہمارا عام آدمی جب سرکاری دفاتر میں آئے تو آپ نے اس کو عزت دینی ہے، اس کو انسان سمجھنا ہے، اس کو وی آئی پی بنانا ہے، یہ اللہ کا کام ہے، بیچارا عام آدمی دھکے کھاتا پھرتا ہے لیکن جو اس کا حق ہے وہ ہی اسے نہیں ملتا، ایک ہم رائٹ ٹو سروسز ایکٹ بھی لے کر آ رہے ہیں جو ہم خیرپختونخوا میں بھی لے کر آئے تھے، اگر ایک ڈیپارٹمنٹ عام لوگوں کے کام کرتی ہے مثلاً پاسپورٹ آفس ہے یا آئی ڈی کارڈ وغیرہ ہے جو عام آدمی کا حق ہے اور وہ عام آدمی کا کام صحیح طریقے سے کرتی ہے تو ہم انہیں پالیسیز دیں گے لیکن اگر عام لوگوں کا کام نہیں ہو رہا ہم ان کو پینالائز کریں گے، سزا اور جزا کا قانون لے کر آئیں گے جو اچھا کام کرے گا اس کو اوپر اور تنخواہیں بھی زیادہ کی جائیں گی، لیکن عام آدمی جو بیچارا سرکاری دفاتر کے باہر دھکے کھاتا پھرتا ہے اس کی زندگی بہتر کرنی ہے اس کے اوپر ہم انشاء اللہ پورا کام کریں گے۔

اس کے بعد بلدیاتی نظام! خیبر پختونخوا میں پہلی بار بلدیاتی نظام لے کر آئے ہیں، جس کے اند ر ہم نے نیچے تک پاور منتقل کی، ہم نے اس سے بڑا سیکھا ہے، اب ہم ان دو صوبوں میں جہاں ہماری حکومت ہے وہاں ایک نیا بلدیاتی نظام لے کرآئییں گے، اور ناظم کا ڈئریکٹ الیکشن کرائیں گے، اور ضلعی ناظم کو بااختیار بنائیں گے، چیک اینڈ بیلنسز ہوں گے، نچلی سطح پر ترقی ہوگی، اب تک پنجاب اور سندھ میں یہ ہوتا ررہا ہے کہ سارا پیسا وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتا تھا اور وہ کیا کرتا ہے جو پیسہ بلدیات میں جانا چاہیے وہ ایم پی اے اور ایم این اے کو ترقیاتی فنڈ دے دیتا ہے، دنیا بھر میں کہی بھی ایم پی اے اور ایم این اے کو ترقیاتی فنڈ ز نہیں دیے جاتے، ہاں وہ بتا ضرور سکتے ہیں لیکن ترقی بلدیات میں ہوتی ہیں، تو ہم نے بلدیاتی نظام کوبہترین کرنا ہے، ساری دنیا میں جو ملک بھی آگے ہیں ان بلدیاتی نظام بہترین ہیں،نوجوان! کیلئے ہم نے توپہلے نوکریاں دینی ہیں، اور نوکرریوں کیلئے ہم نے ہائوسنگ کا ایک بہترین نظام بنایا ہے، بڑا چیلنج دیا، ہم نے 50 لاکھ سستے گھر بنانے ہیں پانچ سالوں کے اندر، یہ بڑا چیلنج ہے، اس کے اوپر ہم بڑی کوشش کررہے ہیں، باہر سے بھی ایکپرٹیز لی ہیں، اور اب پوری آرا لی ہیں کہ کیسے ون ونڈو آپریشن لانا ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اگر یہ چل پڑا تو اس سے نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی، انڈسٹری چلیں گی، 50 انڈسٹری تو ڈائریکٹلی اس کے ساتھ کھڑی ہو جائیں گی، تو انشاء اللہ یہ ایک طریقہ ہے جو ہم نے نوکریوں کے لئے بنایا ہے، ہم نے نوجوانوں کی سکلڈ ایجوکیشن کیلئے کام کرنا ہے، ہم نوجوانوں کو بلا سود قرضے دیں گے تاکہ وہ اپنے کاروبار کر سکیں اور آخر میں مجھے نوجوان کہتے ہیں کہ کھیلوں کے گرائونڈز بنانے ہیں، اور جب میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا لاہور میں تو کئی گرائونڈز ایسے ہیں جن پر قبضے ہو گئے ہیں، جاوید میانداد نے بھی مجھے بتایا ہے کہ کراچ میں کئی گرائونڈز پر قبضے ہو گئے ہیں، ہم نے اپنے بچوں کے لئے کھیلوں کے گرائونڈز بنانے ہیں ان کے لئے پارکس بنانے ہیں، اس کے لئے ہم پوری ایک مہم چلائیں گے کیونکہ یہ ہمارے شہریوں اور ہمارے بچوں کا حق ہے، جہاں ہماری خواتین کے باہر نکلنے کے لئے اچھے پارکس بھی ہوں، ہم نے ایک ارب درخت لگائے پختونخوا میں، جو ہم نے تجربہ سیکھا ہے سارے پاکستان میں اربوں درخت ہم نے لگانے ہیں، یہ ہمارے آنے والی نسلوں کے لئے ضروری ہے، ہم نے شہروں میں بھی درخت لگانے ہیں اگر ہم نے شہروں میں درخت نہ لگائے یہ گرمی بڑھتی جائے گی، جس طرح کراچی کے اندر ہیٹ ویوو آ گیا ہے کیونکہ وہاں درخت ہی نہیں ہیں، وہاں سیمنٹ کے اوپر دھوپ پڑتی ہے، گرمی بڑھ جاتی ہے، گرمی بڑھتی ہے تو بارشیں کم ہوتی ہیں لہذا ہم نے، یہ بہت بڑی چیز ہے کہ ہم نے ایک بڑے پیمانے پر پاکستان کو ہرا بھرا کرنا ہے، اپنے سارے نوجوانوں کو ہم ساتھ ملائیں گے، ہمارا ایک نوجوان طبقہ ہے، ان کو اپنے ساتھ ملائیں گے اور پاکستان کو ہرا بھرا کرنے کے لئے ایک بڑی کمپین چلائیں گے، اس کے ساتھ ہم نے پولیوشن کیونکہ نومبر آنے والا ہے اور لاہور میں پولیوشن پھیلتی ہے بیماریاں پھیلتی ہیں، اس سے نجانے ہمارے بچوں اور بوڑھوں کو کتنا افیکٹ ہوگا، اور ایک بڑے پیمانے پر پولیوشن پر ہم نے پورا زور لگانا ہے، ہم نے ایک پورا منسٹر رکھا ہوا ہے انوائرمنٹ کا امین اسلم کو، اور تیسری چیز ہے وہ ہے گندگی، حدیث ہے کہ آدھا ایمان صفائی ہے، اور جتنا ہم اپنے ملک میں گندگی پھیل گئی، آآآآآ کراچی میں جتنی گندگی پھیل گئی، ہم نے کراچی کو بدلتے دیکھا، کہاں ایک صاف ستھرا شہر اور کہاں ایک گندگی اور ہر جگہ گندگی ہے، اور ہم سمندر کو بھی برباد کر رہے ہیں، گند سمندر کے اندر ڈال کر، یہ ہمیں پوری کمپین کرنی ہے، اپنے ملک میں ہم نے دریا صاف کرنے ہیں، ہوا صاف کرنی ہے، اور جو سارا گند پڑا ہے اس کے ویسٹ ڈسپوزل کے لئے ضروری نہیں کہ ہم باہر سے کمپنیاں لے کر آئیں، ہمارے ملک میں یہاں اتنی بے روزگاری ہے، آپ کو آرگنائز کرنا ہے، اور ہم نے اپنی صفائی شروع کرنی ہے ملک کی، اور یہ میرا بہت بڑا ٹارگٹ ہے کہ انشاء اللہ ملک پاکستان پانچ سال بعد ایسا لگے جیسے آپ دنیا کے کسی ملک کے یورپ میں جاتے ہیں اور صفائی ستھرائی دیکھتے ہیں، یہ کوئی بڑی چیز نہیں ہے اور پھر ٹورازم ! جتنا پاکستان میں زیادہ ٹورازم کا پوٹینشل ہے، آپ کو اندازہ نہیں ہے، میں ان چند پاکستانیوں میں سے ہوں جو پورا پاکستان پھرا ہوں اور دنیا بھی پھرا ہوں اور میں آپ سے کہنے جا رہا ہوں کہ ہم جو نئے ریزارٹس کھولنے جا رہے ہیں آپ یورپ چلے جائیں گے تو ایسے خوبصورت ریزارٹس نہیں ملیں گے، انشاء اللہ ہر سال چار ریزارٹس کھولنے ہیں، اگر الیکشن نہ آتا تو خیبرپختونخوا میں چار کھل چکے ہوتے، ٹورازم کو ہم نے فروغ دینا ہے، اور ابھی تک کسی نے سوچا نہیں ہے کہ ہمارے سمندر کے ساتھ کتنی خوبصورت خوبصورت بیچیں ہیں، ہم کیوں نہیں انشاء اللہ ان کو ہم ڈویلپ کریں گے، ہماری فیملیز جائیں وہاں، کراچی میں کوئی جگہ ہی نہیں جانے کے لئے، اتنی بڑی آبادی ہے، باہر سے لوگ آئیں گے گوادر کے پاس جائیں، اتنی خوبصورت بیچز پوری دنیا میں نہیں کہیں، انشاء اللہ ہم اپنی بیچز کا بھی استعمال کریں گے اور پھر فاٹا۔

چار چیزیں ہیں جو میں آپ کو بتا رہا ہوں اور اس کے لئے بڑا مضبوط عزم چاہیے، سب سے پہلے فاٹا، بہت برے حالات ہیں، جنگ کی وجہ سے بہت تباہی ہے، وہاں نارمل حالات نہیں، جلدی سے جلدی ہم کوشش کریں گے کہ فاٹا اور کے پی اور فاٹا کے اندر ترقی کی جائے، اور جلد سے جلد لوکل الیکشن کروائیں گے تاکہ ان کے ذریعے ڈویلپمنٹ شروع کی جائے، یہ بہت بڑا ایشو ہے فاٹا ہے، یہ ہمیں سوچ سمجھ کرنا پڑے گا یہ آسان نہیں، لیکن اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، دوسری چیز بلوچستان۔

بلوچستان ہمارا پیچھے رہ گیا، بلوچستان کے اندر حالات برے ہیں اور انشاء اللہ ہماری حکومت اور ہماری حکومت بلوچستان میں پورا زور لگائے گی، پوری کوشش کریں گے جو لوگ ناراض بھی ہیں جو دہشتگرد بھی بن چکے ہیں ان کو پوری کوشش کریں گے ساتھ لے کر آئیں، جو بھی ایشوز ہیں بلوچستان کے انشاء اللہ وہ ہم حل کریں گے اور پھر ہم پورا زور لگائیں گے اور میں بھی زور لگائوں گا اور سائوتھ پنجاب کا جو ہم نے فیصلہ کیا ہے اس کا صوبہ بنے گا، اور بالکل بننا چاہیے، 12 کروڑ کا پنجاب ہے اور ایک لاہور سے بیٹھ کر 12 کروڑ پنجاب کی حکومت نہیں ہو سکتی، اور انشاء اللہ ہم اس پر بھی فوری طور پر کام شروع کریں گے اور کراچی کی میں پھر سے بات کر دوں، کراچی پاکستان کا فنانشل کیپٹل ہے، اگر کراچی کے حالات اچھے نہیں ہوں گے تو پاکستان کے معاشی حالات اچھے نہیں ہونگے، اور کراچی کے لئے ہم نے ٹرانسپورٹ کرنی ہے، اور سندھ حکومت کے ساتھ پوری مدد کریں گے، سندھ خاص طور پر کراچی میں لاء اینڈ آرڈر صرف رینجرز نہیں رکھ سکتے، پولیس کو ٹھیک کرنا پڑے گا، کراچی کی جو گندگی ہے جو کوڑا کرکٹ ہے اس کے لئے ہمیں صفائی کرنا پڑے گی، کراچی میں اس وقت پانی کا بڑا ایشو ہے اور اس کے لئے ہم پورا پروگرام بنانا ہے کہ کیسے ہم نے کراچی کے لوگوں کو پانی دینا ہے۔

ہماری نیشنل ایکشن پلان جو تمام پارٹیوں کا متفق فیصلہ تھا اس پر ہم انشاء اللہ پورا کام کریں گے اور اس پر عملدرآمد کرنے کے لئے جو حکومت کا کام ہے، یہ ساری پارٹیز جو ہیں، 20 پوائنٹ کے نیشنل ایکشن پلان پر ساری پارٹیز مانی ہوئی ہیں اور انشاء اللہ تعالی ہم پوری طرح عملدرآمد کریں گے، دہشتگردی کو اس ملک سے ختم کرنا ہے، جب تک امن نہیں آئے گا، اس ملک میں خوشحالی نہیں آ سکتی، فارن پالیسی میرے جتنے بھی پاکستان کے جتنے بھی ہمسائے ہیں ان سے میری بات ہوئی ہے، ان سب نے مجھے ٹیلیفون کیا ان کا شکریہ، اور انشاء اللہ تعالی سارے ہمسایوں سے اپنے تعلقات بہتر بنائیں گے، پاکستان کو امن کی ضرورت ہے، پھر سے کہہ رہا ہوں جب تک امن نہیں آتا ہمارا جو آدھی آبادی غربت کی لیکر سے نیچے ان کو اوپر نہیں اٹھا سکتے۔

ہماری پوری کوشش ہو گی کہ اپنے تمام ہمسایوں سے بہترین ریلیشن شپ کریں۔ اور میرا آخری پوائنٹ جو ہے وہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کو انشاء اللہ فلاحی ریاست بنائیں گے، شروع تو ہم اس طرح کریں گے جو ہمارے بچے سڑکوں پر ہیں، جن کو سٹریٹ چلڈرن کہتے ہیں ان کے لئے یہ ہماری ذمہ داری ہے، یہ بچے ہمارے ہیں، ہم ان کا دھیان نہیں رکھ سکتے تو اور کون رکھے گا، جو ہمارے سٹریٹ چلڈرن ہیں، ہماری بیوہ عورتیں ہیں جو برے حالات میں رہتی ہیں، اور جو ہمارے معذور ہیں اور ان سب کی ہم نے ذمہ داری لینی ہے اور یہ میں چاہتا ہوں اور آخر میں، میں آپ سب سے اور قوم سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے دل میں رحم پیدا کریں، انسانوں اور جانوروں کے معاشرے میں فرق ہے، جانوروں کے معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس، جانوروں کے معاشرے میں رحم نہیں ہوتا، انسانوں کا معاشرہ ہوتا ہی وہی ہے جس میں انصاف ہوتا ہے، جس میں آپ کو فکر ہوتی ہے اس طبقے کی جو پیچھے رہ گیا ہے، آج ہم نے وہ اس جو فلاحی ریاست بنانا ہے، تو ان اصولوں پر جانا پڑے گا جو جن اصولوں پر مدینہ کی ریاست بنائی گئی تھی، مدینہ کی ریاست میں نبیؐ نے کیا کیا تھا، سوچیں کیا انہوں نے رومن امپائر سے قرضے مانگے تھے یا پرشین امپائر سے یا کوئی انہوں نے امداد مانگی تھی، انہوں نے اپنے لوگوں کو کھڑا کر دیا تھا، انہوں نے انسانوں پر صحیح توجہ دی تھی، ان کی تعلیم پر ان کے انصاف پر ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر جو وقت کے خلیفہ تھے، جب سارے عرب کو بھی فتح کر دیا، انہوں نے اپنی زندگی نہیں بدلی، انہوں نے محلات نہیں بنائے، سادگی اختیار کی، تو میں آج اپنی قوم سے آپ سب کے سامنے کہتا ہوں کہ میں آپ کو سادہ ترین زندگی گزار کر دکھائوں گا، صرف مجھے جو سیکورٹی کی وجہ سے مسئلے آتے ہیں ان کی وجہ سے مجھے یہ گارڈ رکھنے پڑتے ہیں، میں آپ کو ایک ایک پیسہ بچا کر دکھائوں گا، آپ کا پیسہ میں بچائوں گا، اور 50 فیصد ان تمام نچلے طبقوں پر خرچ کروں گا، کوئی بزنس نہیں کروں گا، جب ایک حکمران بزنس کرتا ہے تو وہ نقصان پہنچاتا ہے ملک کو، میں آپ کی وجہ سے اقتدار میں ہوں، بزنس مینی کروں گا، کوئی کسی قسم کی یعنی آپ اپنے ذہن میں ایک بات ڈال لیں کہ جو لوگ آپ کے مخالف ہیں جو آپ کے دشمن ہیں، آپ کا پیسہ چوری کرتے ہیں وہ میرے دشمن ہیں، میری کسی سے بھی ذاتی لڑائی نہیں ہے، میرا صرف مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ کا پیسہ چوری کر کے ملک کے باہر لے کر جاتے ہیں وہ آپ کی تباہی کرتے ہیں، آپ نے میری مدد کرنی ہے، آپ کے اپنے پیسوں کی حفاظت کرنے کے لئے، کون سا انسان ہے جس کے گھر میں چوری ہو رہی ہو اور وہ چپ کر کے بیٹھے کہ پولیس خود ہی پکڑ لے گی، آپ چور کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کریں، جب ملک میں کرپشن ہوتی ہے تو آپ کا پیسہ چوری ہو رہا ہے، آپ غریب ہو رہے ہیں، آپ مقروض ہو رہے ہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ انکو روکیں، آپ میری مدد کریں ان کو روکنے کے لئے اور اسی طرح جب اور ہماری حکومت کوئی بھی آپ کا پیسہ آپ کے ٹیکس کا پیسہ غلط استعمال کرے گی، اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، بولنا چاہیے، آپ ہمارے اوپر چیک رکھیں، کیونکہ یہ آپ کا پیسہ ہے تو ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ میں آپ کے پیسوں کی حفاظت کروں، آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ میری ٹیم بن کر مدد کریں میری، اپنے پیسوں کی حفاظت کے لئے، میں انشاء اللہ سب کو یہ اعتماد دلاتا ہوں، اللہ نے ہمارے ملک کو سب کچھ دیا ہے، اس ملک میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے پاکستان جو ہے، ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے، ہم نے اس کو اپنا ملک سمجھ کر رہنا ہے، جب سرکار کا پیسہ چوری ہوتا ہے، ہم سب نے مل کر اس کی حفاظت کرنی ہے، اور انشاء اللہ ایک دن آئے گا، میں آپ کو اپنا ایک وژن دے دیتا ہوں، میرا وژن یہ ہے کہ پاکستان کی ایک دن آئے گا پاکستان میں کوئی زکوٰة لینے والا نہیں ملے گا، پتہ نہیں میں اس وقت تک زندہ ہوں گا یا نہیں لیکن میرا یہ ایمان ہے اگر ہم اس پر چل پڑے، اگر ہم نیشن بلڈنگ کی طرف چل پڑے، ایک دن آئے گا پاکستان میں کوئی زکوٰة لینے والا نہیں ملے گا، ہم وہ ملک ہوں گے جو لوگوں کی مدد کیا کرے گا، وہ ہے میرا آئیڈیا پاکستان کا، میں وہ پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں۔