پاکستان کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اور کرپشن ہے،صدرمملکت

اجلاس میں سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز کیلئے فاتحہ خوانی ، ایصال ثواب کیلئے دعا بھی کرائی گئی

پیر 17 ستمبر 2018 20:56

پاکستان کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اور کرپشن ہے،صدرمملکت
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 ستمبر2018ء) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اور کرپشن ہے،کرپشن پر قابو پانے کیلئے احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے،ہم ایک مقروض قوم ہیں اور ہمیں اپنے قرض ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے،اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ خطرناک حد تک زیادہ ہو چکے ہیں،ہمارا سیاسی نظام مختلف وجوہات کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے،قومیں مشکلات سے گھبرایا نہیں کرتیں ان کا مقابلہ کرتی ہیں،موجودہ حکومت نے نیا پاکستان بنانے کا عزم کیا ہے، نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ اور بدعنوانی سے پاک نظام ہے، ہمیں اپنی زندگیوں میں سادگی کو اپنانا ہو گا،حکومت وقت اور تمام جماعتوں کے لیڈران سے درخواست کرتا ہوں کہ ملک کی سمت کو درست کریں، توقع ہے کہ حکومت ہر شعبے میں واضح روڈ میپ مرتب کرے گی اور شفاف نظام حکومت بنائے گی،پانی اور بجلی کے مسائل پر قابو پانے کیلئے ہمیں شجر کاری پر خصوصی توجہ دینا ہو گی اور نئے ڈیم بھی بنانا ہوں گے،توقع کرتا ہوں ڈیم پر ہمارے لوگ چیف جسٹس اور وزیراعظم کی اپیل پر مثبت جواب دیں گے،تصادم اور بلیم گیم کسی مسئلے کا حل نہیں ،بھارت کے ساتھ پٴْرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ،کشمیر کے تنازعے کا حل دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کے لیے لازم ہے،کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی مدد جاری رکھیں گے، حکومت سی پیک کے منصوبے تیزی سے مکمل کرے گی جس سے پاک چین تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور خطے میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا۔

(جاری ہے)

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا جس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی اور پھر بیگم کلثوم نواز کے ایثال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف اور غیر ملکی سفرا سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی۔

پیپلز پارٹی کے سوا تمام اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کی کارروائی شروع ہونے ہی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن سے واک آئوٹ کیا۔اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے اپوزیشن کو احتجاج سے روکنے کی کوشش کی گئی تاہم اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔صدر مملکت نے خطاب کا آغا ز کرتے ہوئے کہا کہ آج کا خطاب نئے پارلیمانی سال کا نکتہ آغاز ہے،اللہ تعالیٰ آنے والے دنوں کو ہمارے لیے باعثِ رحمت و برکت بنائے،ان ایوانوں اور راہداریوں سے میر ی شناسائی اس ایوان کے رکن کی حیثیت سے کئی برس پرانی ہے،مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی رہی ہیں، اٴْن کی ادائیگی کے لیے یہاں بیٹھ کر جو کچھ میں کر سکتا تھامیں نے پوری ایمانداری اور صلاحیت کے مطابق انجام دیاہے،میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنے رفقائے کارخصوصاً ارکانِ پارلیمنٹ اور ممبران صوبائی اسمبلیوں، کا مشکور ہوں کہ مجھے پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدے کے قابل سمجھا،میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں سر انجام دوں گا،میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس سلسلے میں بھی دعا گو ہوں کہ مجھے اِن ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ہمت، طاقت اور توفیق عطا فرمائے،مجھے پوری امید ہے کہ اس سلسلے میں ساتھی اراکین پارلیمنٹ بھی میرا بھر پور ساتھ دیں گے تاکہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اور عوام کی عدالت میں سرخرو ہو سکیں،صدرمملکت نے کہا کہ ہمارا سیاسی نظام مختلف وجوہات کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے،مگریہ امر اطمینان بخش ہے کہ ہماری گذشتہ تین اسمبلیاں اپنی معیاد پوری کرنے میں کامیاب رہی ہیں،ایک سیاسی کارکن اور ذمہ دارشہری کی حیثیت سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اوربے انتہا کرپشن ہے،انتخابات نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ عوام بے ایمانی سے تنگ آچکے ہیں اور ایک پاک معاشرہ چاہتے ہیں ،صدر عارف علوی نے کہا کہ کرپشن کو قابوکرنے میں جہاں صاف اور شفاف نظام ضروری ہے وہیںاحتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بلاخوف و امتیاز اپنا کام سرانجام دیں،صدر پاکستان نے کہاکہ میرا ایمان ہے کہ عوام کی خواہشات کے احترام میں ہی حکومتوں کی کامیابی ممکن ہے،موجودہ حکومت نے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا عزم کیا ہے اور اسی نعرے پر وہ انتخابات کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں،میرے خیال میں نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ، غیر ضروری پروٹوکول کاخاتمہ اور بدعنوانیوں سے پاک نظام ہے،ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ہم ایک مقروض قوم ہیں اور ہمیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے بجائے قرض ادا کرنے لیے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے،معاشیات کے مروجہ اصولوں اور قانون پاکستان کے مطابق Debt to GDP Ratio کو ساٹھ فیصد سے تجاوز نہیں کرناچاہیے،پچھلے کئی برسوں سے ہم اپنے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ،ہمارے اوپر بیرونی اور اندرونی قرضوں کے پہاڑ خطرناک حد تک زیادہ ہو چکے ہیں جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ،ہمیں اپنی زندگیوں میں سادگی کو اپنانا ہوگا اور بے جا نمود و نمائش کے لیے اصراف سے گریز اور ضرورتوں کو محدود کرنا پڑے گا،ان اصولوں کو اپنا کر درست سمت کو اختیار کیا جا سکتا ہے ، صدر پاکستان نے کہاکہ ہمارے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رہنمائی میں قائم ہونے والی ریاست مدینہ کا ماڈل موجود ہے ،اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یہ ہدایت کی تھی کہ کسی انسان کو دوسرے انسان پر رنگ ،نسل اور مذہب کی بنیاد پر برتری حاصل نہیں ہے سوائے تقویٰ کے،اسلامی معاشرے کی بنیاد مساوات، عدل اور باہمی بھائی چارے کی بنیاد پر ہی رکھی گئی ہے ،اس بات کو مصّورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے فلسفہ میں اجاگر کیا ہے، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے،جس میں انصاف اور عدل کا نظام قائم ہو ، عوام کو بنیادی ضروریات دستیاب ہوں اورریاست عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائے جن کی آئینِ پاکستان ضمانت دیتا ہے،صدر پاکستان عارف علوی نے کہا کہ مملکت تمام شہریوں کے لیے،ملک میں دستیاب وسائل کے اندر،معقول آرام وفرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی، مملکت ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزو ری، بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہیں بلا لحاظ جنس، ذات، مذیب یا نسل، بنیادی ضروریات زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی،موجودہ حکومت کے پروگرام کے مطابق مختلف معاشی اور رہائشی منصوبوں پر کام شروع کر کے روزگار اور رہائش کو یقینی بنایا جا سکتا ہے،اگر ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے تویہی تبدیلی ہوگیاور یہی ’’نیا پاکستان‘‘ ہو گا،جس میں ہم سر اٹھا کر چل سکیں گے اور ہمارے بچے پورے اعتماد کے ساتھ ایک نئی پٴْرامن اور خوبصورت دنیا کی تشکیل میں حصہ دار بن جائیں گے،صدر پاکستان نے کہا کہ قومیں مسائل سے دوچار ہو جایا کرتی ہیں اور بعض اوقات مسائل اتنے زیادہ اور گھمبیر ہو جاتے ہیں کہ ترجیحات کا تعین ہی مشکل ہو جاتا ہے،ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے لیکن زندہ اور باہمت قومیں مشکلات سے گھبرایا نہیں کرتیں بلکہ جواں مردی اور حوصلے سے مقابلہ کرتی ہیں ،حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ مِن حیث القوم ہمیں ان مسائل کا ادراک ہے،ہمارے کھیتوں کادہقان ہو یا ہماری عدلیہ کے افراد ، ہماری فوج کا سپاہی ،سول سروس کا نمائندہ یا ہمارے قلم کار، پاکستان کے دور دراز علاقے کا باسی ہو یا بیرونِ ملک رہنے والا ہمارا ہم وطن ، ہر ایک شخص اپنے تئیں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے،ہمارے اوورسیز پاکستانیز جس شوق اور جذبے کے ساتھ پاکستان کی تعمیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ بہت خوش آئند ہے،میں حکومت وقت اور دیگر تمام جماعتوں کے لیڈران سے درخواست کرتا ہوں کہ اس موقع پر موجود عوام کے جذبات اور احساسات کو دیکھتے ہوئے بہت تیزی اور جانفشانی سے ملک کی سمت درست کردیں،مجھے توقع ہے کہ حکومت ہر شعبے میں واضح روڈمیپ مرتب کرے گی اور صاف شفاف ٹرانسپیرنٹ گورننس کو یقینی بنائے گی،ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہو چکا ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں،ہمارے ہاں پانی کی کمی کے باعث زیرِ زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہورہاہے،جس سے زیرِ زمین پانی کی سطح بھی خطر ناک حد تک نیچے جاچکی ہے،بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقے پانی کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کا شکار ہیں،اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر بھی انتہائی مضر اثرات رونما ہورہے ہیں اور گلوبل وارمنگ ی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ اور گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں،فضائی اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے شہروں کی آب وہوا متاثر ہو رہی ہے،اس سلسلے میں ہمیں شجر کاری پر خصو صی توجہ دینا ہو گی اورنئے ڈیم بھی بنانے ہوں گے،پانی کے ذخائر کی تعمیر حکومتِ وقت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے،صدر پاکستان نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ ہمارے عوام اور بیرون ملک پاکستانی، چیف جسٹس اوروزیراعظم کی اپیل کا مثبت جواب دیں گے اور اس کے نتیجے میں ڈیموں کی تعمیر کے لیے سرمایہ دستیاب ہو سکے گا اور زر مبادلہ کی کمی پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی،ہمیں پانی کے ضیاع کو روکنے پر بھی توجہ دینا ہوگی،اس سلسلے میں دو اقدامات نا گزیر ہیں،ایک یہ کہ آبپاشی کے نظام کو مزید مؤثر بنایا جائے اور نہروں و راج باہوں کے ذریعے پانی کے رساؤ پر قابو پانے کے لیے بھر پور اور جامع حکمت عملی تیار کرکے اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے،اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلی لانا ہو گی اورپانی کے بے جا استعمال پر قابو پانا ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے پیارے نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے میں بھی میانہ روی اختیار کرنے اور اصراف سے بچنے کی تلقین کی ہے،پانی اور اس سے متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کے ساتھ ساتھ ناگزیر ہے کہ توانائی اور بجلی کے معاملات پر بھی فوری توجہ دی جائے،بجلی کی ترسیل کا نظام بہتربنایا جائے، لائن لاسز کم کیے جائیں اور بجلی کی چوری کا سدِباب کیا جائے،اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شمالی علاقہ جات، آزادکشمیر اور وطن عزیز کے بعض دیگر علاقے پانی کی دولت سے مالا مال ہیں، ان علاقوں کا ماحول بجلی کی تیار ی کے سلسلے میں قدرتی طور پر سازگار ہے،متعلقہ وزارتوں اور حکام کو دریاؤں کے بہاو پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو مزید بڑھانا چاہیے،ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا چاہیے تاکہ جہاں بھی بجلی پیدا ہو رہی ہو وہ نیشنل گرڈ سے منسلک ہو جائے تاکہ ملک بھر میں بجلی کی ترسیل کانظام مربوط شکل اختیار کر سکے،زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے،ہماری نصف سے زائد آبادی زراعت سے وابستہ ہے، زرعی شعبے کی ترقی بھی آبی ذخائر میں اضافے سے مشروط ہے،موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں قوم سے اس شعبے کی ترقی کاوعدہ کیاہے،ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اس سلسلے میں زرعی ادویات، کھاد اور دیگر زرعی سازو سامان کی مناسب قیمت پر فراہمی کے لیے ایک مؤثر اور جامع پالیسی ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں ماہرین اور کاشت کاروں کے ساتھ ضروری صلاح مشورے کا نظام بھی قائم کرنا چاہیے ،اراکین پارلیمان تعلیم اور صحت کے معاملات میں بھی عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے،اس سلسلے میں خیبر پختونخوا سمیت ملک کے بعض دیگر حصوں میں اچھی اور حوصلہ افزا مثالیں سامنے آئی ہیں لیکن آبادی کا دباؤ بہت زیادہ ہے اور وسائل محدود،صدرپاکستان نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک میں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگااور ملک میں تعداد کی بجائے تعلیمی معیار کو عام کرنا ہوگا،ڈاکٹر عارف عوی نے کہا کہ میں اپنے میڈیا اور پارلیمنٹرین سے چاہوں گا کہ وہ لوگوں میں زچہ و بچہ کی صحت اور چھوٹے کنبے کی افادیت کی اہمیت کو بھی اجاگرکریں۔

ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ خواتین کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں ان کیلیے تعلیم، روزگار اور اعلیٰ ترین سطح سے لے کر نچلی سطح تک انھیں بااختیار بنانے کی پالیسیاں وضع کی جائیں،خواتین کو بااختیار بنائے بغیر کسی بھی ملک کی ترقی کا خواب کامیاب نہیں ہوسکتا،ہماری خواتین بہت محنتی ہیں اور جو خواتین تعلیم حاصل کر چکی ہیں وہ ہرجگہ وہ نمایاں نظر آتی ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کوزیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں اور قومی معاملات میں شامل کیا جائے،صدر پاکستان نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ وہ ملک ، معیشت اور معاشرے میں ہماری معاشرتی روایات کے مطابق بلاخوف وخطر اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں،ہمارے مذہب اور ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسی بات کی تلقین کی ہے،ہماری تقریباً60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ہمیں ان کے لیے میرٹ ، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے ،تاکہ وہ اپنی روزی تلاش کرسکیں،ان کی فنی تربیت کرنا ہو گی تاکہ وہ مناسب ملازمت ڈھونڈ سکیں،کاروبار شروع کرنے کے لیے چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے عمل کو آسان اور یقینی بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

صدر مملکت نے کہاکہ آپ ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہم غیرتربیت شدہ لیبر کی بجائے مہارت رکھنے والی لیبر کو دوسرے ممالک میں بھیجیں تو جہاں وہ بہتر اور باعزت روزگار حاصل کرسکیں گے وہیں وہ پاکستان کے لیے بہتر شناخت کا باعث بھی بنیں گے،اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونماکے لیے کھیلوں کے میدانوں کو بھی آباد کرنا ہو گا،صدر پاکستان نے کہاکہ فنونِ لطیفہ کی طرف بھی رغبت دلانا ہو گی اور معاشرے کے دانشوروں کی آراء کو پالیسی ساز ی کے عمل میں شامل کرنا ہو گا،اس کے علاوہ ہمارے بچوں کی نشو ونما عالمی معیار سے کہیں کم ہے،ہمارے بچے نشو و نما کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہیں،ان بچوں اور ان کی ماؤں کو مناسب غذا نہیں مل رہی اور ہمارے ذہنوں میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے ،سماجی ناہمواری اور غربت سے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں،اس لیے علاقائی، معاشی اور سماجی ناہمواری کو دورکرنا انتہائی ضروری ہے،خاص طور پر ہمیں بلوچستان اور دیگر دور دراز علاقوں کی تعمیرا ور ترقی پر توجہ دینا ہو گی،صدر پاکستان نے کہا کہ آئینِ پاکستان میں ایک اچھا سوشل کنٹریکٹ موجود ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اس پر عمل ہو ہی نہیں رہا،میں نئی حکومت سے امید رکھتا ہوں کہ اس سوشل کنٹریکٹ کو ملک میں لاگو کریں گے تاکہ ایک نیا پاکستان وجود میں آسکے،ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ ہمیں اپنے انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کرنا ہے تاکہ وہ اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکیں،یہ کام صرف اور صرف یکساں تعلیمی نظام اور دیگر سہولتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے،اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ملک کے طول وعرض اور خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں نظام تعلیم کو مضبوط بنایا جائے، ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ تعلیم کے سلسلے میں خیبر پختونخوا کے تجربے کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ صرف حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کے ذریعے ہی تعلیم عام کی جا سکتی ہے اور اس کا معیار بہتر بنایا جا سکتا ہے،اس وقت ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۳۰ لاکھ سے زائد بچے دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں،دینی مدارس کے طلبا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے جدیدنصاب تعلیم کو دینی نصاب تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیے تاکہ یہ بچے تعلیم حاصل کر کے مختلف شعبہ زندگی میں اپنا مثبت اور جاندار کردار ادا کرسکیں،اس سلسلے میں حکومت علمائے کرام کی مشاورت سے ایک متفقہ لائحہ عمل بنائے اور اس پر مستعدی سے عمل کرے،فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے اعلان کے بعد جلد از جلد اس کو قومی دہارے میں شامل کرنے کے لیے فاٹا کے عوام کی امیدوں اور توقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں واضح پالیسیاں بنانی پڑیں گی اورفیصلے کرنے پڑیں گے ، پاکستان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بعض مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔

سب سے بڑا چیلنج مسئلوں سے گھری ہوئی معیشت ہے، کرپشن کے ناسور نے ملک کی اقتصادیات کو تباہ و برباد کر دیا ہے ، صنعتیں بندہیں ، بے روزگاری عروج پر ہے اور ملک اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو ا ہے، زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ قرضوں اور ان کے اوپر سود کی ادائیگی میں صرف کر رہے ہیں ، اس کے علاوہ ہمارا تجارتی توازن بھی دگر گوں ہے۔

ہمارے برآمدات اور درآمدات میں توازن نہیں ہے، ملک کی معیشت پر گردشی قرضوں کا بوجھ پچھلے سالوں میں بڑھ کر ۱۱۰۰ ارب روپے سے زیادہ ہو گیا ہے اور حالیہ دنوں میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے، مہنگائی اور افراطِ زر میں اضافہ ہوا ہے اوراس کا اثر عام آدمی خاص طور تنخواہ دار طبقہ پر پڑا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی معیشت کی بحالی کے لیے تن دہی سے کام کریں اورغربت کی لکیر سے باہر نکلیں ، میں سمجھتا ہوں کہ معیشت کی سمت کو درست کرنا اور ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا حکومت کی اہم ترجیح ہے، میں چاہوں گا کہ حکومت مالیاتی خسارہ کم کرے ریاستی ملکیتی اداروں کے مسائل کو حل کرے اور سرمایہ کار دوست پالیسیاں بنائے اور سرمایہ کاری کرنے کے عمل و آسان اور سہل بنائے، اس میں مختلف محکموں کے کردار کو کم اور صوابدیدی اختیار ات کو ختم کرے اور انھیں ایک محدود وقت میں اجازت نامہ دینے کا پابند کرے، ہمارے بینکوں اور سرمایہ کاروں کو اس سلسلے میں سرگرم ہونا پڑے گا اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا ہو گا ، تاکہ ملک میں خود انحصاری کے ساتھ ساتھ روزگارکے مواقع بھی پیدا ہوں۔

ملک کے تمام ایوان ہائے تجارت اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں اور اپنی تجاویز سے حکومت کو آگاہ کریں تاکہ ضروری پیشرفت کی جاسکے، اللہ کے فضل و کرم سے پاکستانی عوام کی استقامت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جہدِ مسلسل اور قربانیوں سے وطنِ عزیز میں دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پایا جاچکا ہے اور انتہا پسندی کے اثرات بھی سمٹ رہے ہیں، میں ا فواج پاکستان کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے دنیا میں سب سے کامیاب اور تجربہ کار فوج ہماری ہے۔

دنیا کو ہم سے سیکھنا چاہیے اس موقع پر میں اپنی جانب سے اور عوام کی جانب سے تمام شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں، شہدا نے عظیم ترین قربانیاں پیش کر کے ہمارے ملک کی آبیاری کی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں اور اٴْن کے خاندانوں کو صبر جمیل عطا کرے، آمین، انہوں نے کہاکہ نظام انصاف کی جانب توجہ بھی لازم ہے تاکہ غریب عوام نسلوں تک مقدمات کے چنگل میں پھنس کر مسائل کا شکار نہ ہوتے رہیں، ہمسایہ ممالک بالخصوص اور دیگر اقوام عالم کے ساتھ اچھے تعلقات کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتے ہیں ،نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی خارجہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکاہے ، چین ، امریکہ ، ایران اور ترکی کے وزرائے خارجہ اور سعودی عرب کے وزیرِ اطلاعات کے حالیہ دورہ پاکستان اور ہمارے وزیرِخارجہ کا دورہ افغانستان سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں مزید گہرائی آئی ہے، انشاء اللہ العزیز بیرونی تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔

ہمیں من حیث القوم اقوام عالم کے ساتھ بالعموم اور اسلامی دنیا کے ساتھ بالخصوص اچھے تعلقات مربوط کرنے ہیں، صدر پاکستان نے کہاکہ پاک چین تعلقات مثالی دوستی اور باہمی اعتماد پر محیط ہیں، ہزار موسم ، لاکھ امتحان آئے لیکن پاک چین تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترہوتے گئے ہیں، موجودہ حکومت پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی بھر پور حمایت کر تی ہے جس سے خطے میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، صدر مملکت نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ حکومت سی پیک کے منصوبے تیزی سے مکمل کرے گی جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور خطے میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گا، اسی طرح وسط ایشیا کے ساتھ مختلف تجارتی و توانائی کے منصوبوں پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائے گا تاکہ معیشت کی ترقی کے اہداف کو یقینی بنایا جا سکے۔

، پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور ہمیں معیشت ، دفاع، ثقافت اور دیگر تمام شعبوں میں باہمی تعاون میں مزید اضافہ کرنا چاہیے، ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات خصوصی نوعیت کے حامل ہیں جو نہ صرف ہمارے درمیان بلکہ اس پورے خطے میں استحکام کے فروغ کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں ، افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لیے ضروری ہے، ہمارے اس ہمسایہ ملک میں دیرپا امن سے ہمارے لیے اور خطے کے لیے تجارت کی نئی راہداریاں کھلیں گی، ہم اس سلسلے میں ہمیشہ انتہائی خلوص سے کام کرتے رہیں گے ، پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہش مند ہے، ہم بھارت کے ساتھ پٴْرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہر مثبت قدم کا خوش دلی سے خیر مقدم کریں گے ، کشمیر کے تنازعے کا حل دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کے لیے لازم ہے۔

تصادم اوربلیم گیم کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے ، پاکستان کی حکومت اور عوام مقبوضہ کشمیر کی عوام کی سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہر سطح پر کاوشیں جاری رکھے گا، کشمیری عوام نے اپنے حقِ خودارادیت کے لیے اپنے لہو سے نئی تاریخ رقم کی ہے ، کشمیری عوام کو ان کے حقِ خود ارادیت سے محروم رکھنا قابلِ مذمت ہے ، اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی حالیہ رپورٹ ہمارے مؤقف کو تقویت دیتی ہے، عالمی برادری اوردیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جارحیت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، انہوں نے کہاکہ میں اپنے خطاب کے آخر میں آپ تمام ارکانِ پارلیمان کو اس ایوان کا حصہ بننے پر مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پاکستانی عوام کی فلاح و ترقی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اقوام عالم میں پاکستان ایک ذمہ دار اور باوقار ملک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و نگہبان رہے۔

پاکستان پائندہ باد۔