ملک عوام کی مرضی سے چلتے ہیں کسی امپائر کی مرضی سے نہیں‘بلاول بھٹو

پنجاب کے دورے بہت قیمتی پڑ رہے ہیں ،جب کوئی دورہ کرتا ہوں وکیلوں کی ٹیم میں اضافہ کرنا پڑجاتا ہے ہم آکر دوبارہ آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کرینگے ،ہمارے اور نواز شریف کے دور میں ڈو مور ،آج سراج حقانی اداریے لکھ رہے ہیں دعا گو ہیں افغانوں میں آپس میں مذاکرات امن کے لیے ہوں ،ٹرمپ کے انتخابات کے لیے نہیں‘ میٹ دی پریس میں اظہار خیال

پیر 2 مارچ 2020 17:38

ملک عوام کی مرضی سے چلتے ہیں کسی امپائر کی مرضی سے نہیں‘بلاول بھٹو
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 مارچ2020ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک عوام کی مرضی سے چلتے ہیں کسی امپائر کی مرضی سے نہیں ،خورشید شاہ کے مرحوم بھائی کو نیب کا نوٹس بھیجا گیا یہ ان کے سیاسی انتقام کا لیول ہے،پنجاب کے دورے بہت قیمتی پڑ رہے ہیں جب میں پنجاب کا کوئی دورہ کرتا ہوں تو وکیلوں کی ٹیم میں کوئی نہ کوئی اضافہ کرنا پڑتا ہے تاہم ہم قانون کے مطابق نیب کا مقابلہ کریں گے،ہم پی ٹی آئی آئی ایم ایف ڈیل کونہیں مانتے ،جائیں واپس جاکر مذاکرات کریں عوام کے حق میں ڈیل کریں ،نہیں کر سکتے تو گھر چلے جائیں ،ہم آکر دوبارہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کریں گے ،ہمارے دور میں اور نواز شریف کے دور میں جو ڈو مور کی باتیں کی گئیں تو اس کا مقصد تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو زیادہ پکڑنا ہے مگر اب گول پوسٹ تبدیل ہوگئے ہیں اور سراج حقانی نیو یارک ٹائمز میں اداریے بھی لکھ رہے ہیں،دعا گو ہیں کہ افغانوں میں آپس میں مذاکرات امن کے لیے ہوں ٹرمپ کے انتخابات کے لیے نہیں،ورکنگ جرنلسٹ آج بھی جمہوریت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں وہ آخری دم تک لڑیں گے،پاکستان میں اگر آج جمہوریت موجود ہے تو اس میں صحافیوں کا خون پسینہ شامل ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب میں ’’میٹ دی پریس ‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع راجہ پرویز اشرف، قمر زماہ کائرہ ، چوہدری منظور اور حسن مرتضیٰ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج آزادی صحافت اور جمہوریت پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں، ورکنگ جرنلسٹ نئے پاکستان کو نہیں تسلیم کریں گے جہاں قلم کی آزادی نہ ہو۔

جب جنرل ضیاالحق نے ملک پر بدترین آمریت مسلط کی تھی تو بیگم نصرت بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ شانہ بشانہ قلم کے مزدور، صحافی اور پریس کلب کے اراکین کھڑے تھے اس لیے آج پیپلز پارٹی کی تیسری نسل آپ کے درمیان موجود ہے۔نئی حکومت کے آنے کے بعد جب معاشی بحران اور دیگر مسائل اتنے زیادہ نہیں تھے اس وقت پہلا حملہ پریس پر ہوا اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے واجبات نہیں دئیے گئے،میڈیا کے واجبات کی ادائیگی نہ ہونے کو عذر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہر ادارے سے صحافیوں کو نکالا گیا،اس کے بعد جس تیزی کے ساتھ ملک میں سینسر شپ میں اضافہ ہوا اس کے تحت ہونے والی گھٹن صرف سیاسی کارکنان اور اپوزیشن کے لیے نہیں بلکہ صحافیوں، کیمرہ مین، پروڈیوسرز، میڈیا مالکان کے لیے بھی ہے بلکہ بلاگرز اور ٹوئٹر، فیس بک پر پوسٹ کرنے والے بچوں پر بھی ہے،اگر ایسا پاکستان تشکیل دینا ہے جہاں ہر ایک کی اپنی مرضی ہو کہ وہ کیا لکھنا چاہتا ہے اور کیا پوسٹ کرنا چاہتا ہے جہاں تعمیری تنقید برداشت ہو اس کے لیے ہمیں صحافی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے یہ جدوجہد ہم سب کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو غیر جمہوری لوگ ہیں اور ہمارے حقوق چھیننا چاہتے ہیں ان کا آپس میں تعاون 100 فیصد ہے، وہ ہر مسئلے پر ایک ساتھ کھڑے ہیں لیکن ہم شاید کسی وجہ سے وہ اتحاد قائم نہیں کرسکے۔اس لیے ہم پریس کلب کے اراکین، سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک پلیٹ فارم سے جمہوریت اور جمہوری آزادی کے ایک آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ کیسز اس لیے بن رہے ہیں کہ سیاسی انتقام چل رہا ہے اور جو گھٹن آپ اپنے اداروں میں محسوس کرتے ہیں وہی گھٹن وہ قومی اسمبلی میں چاہتے ہیں کیوں کہ وہ ادارہ ملک کے عوام کی نمائندگی کرتا ہے،،سید خورشید شاہ کے مرحوم بھائی کو نیب کا نوٹس بھیجا گیا یہ ان کے سیاسی انتقام کا لیول ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پارلیمان کے پہلے ہی سیشن میں کہہ دیا تھا کہ قومی احتساب بیورو اور قوم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، پھر بزنس مینز نے آرمی چیف سے کہا کہ نیب اور قوم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اور بعد میں یہی بات عمران خان نے بھی تسلیم کی اور آرڈیننس جاری کیا۔یہ تسلیم کرنے کے بعد یہ نیب اور قوم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اس کے اختیارات لے کر صرف سیاسی انتقام تک محدود کردیا گیا ہے جو آج بھی سیاسی لوگوں کو گرفتار کرسکتا ہے اور بزنس مینز اور بیوروکریٹ کے خلاف وہ کوئی کارروائی ہی نہیں کرسکتے۔

سمجھتے ہیں ،نیب کا قانون کالا قانون ہے اور نیب کو بند کرنا چاہیے ،بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف جو کیسز تھے وہ 100 فیصد کیسز ہم نے عدالتوں میں جیتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ عدالتی فیصلے سننے کے لیے آج محترمہ بینظیر بھٹو خود موجود نہیں ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے شیخ رشید سے متعلق سوال پر کہا کہ گٹر کی باتیں گٹر میں چھوڑیں، شیخ رشید ہر سلیکٹڈ حکومت میں آتے ہیں، وہ ہمیشہ سلیکٹڈ وزیر رہیں گے، حیرانی کی بات ہے شیخ رشید ابھی تک وفاقی وزیر ہیں، گزشتہ دور میں حادثے پر عمران خان وزیر ریلوے کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے تھے، یہ سلیکٹڈ کی آخری باری ہے، ان سلیکٹڈ کے ساتھ جو ہوگا آپ سب کو بہت مزہ آئے گا۔

دوسرے وزیر پورٹ اینڈ شپنگ کے ہیں جو ماننے ہی کو تیار ہی نہیں کہ پورٹ پر کوئی ایسا جہاز آیا جس سے لوگوں کا جانی نقصان ہوا،یہ آخری بار ہے کہ اس ملک کے عوام کسی سلیکٹڈ حکومت کو دیکھ رہے ہیں، ملک امپائر کی انگلی سے نہیں بلکہ عوام کی مرضی سے چلنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں اور نواز شریف کے دور میں جو ڈو مور کی باتیں کی گئیں تو اس کا مقصد تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو زیادہ پکڑنا ہے مگر اب گول پوسٹ تبدیل ہوگئے ہیں اور سراج حقانی نیو یارک ٹائمز میں اداریے بھی لکھ رہے ہیں،دعا گو ہیں کہ افغانوں میں آپس میں مذاکرات امن کے لیے ہوں ٹرمپ کے الیکشن کے لیے نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب کے دورے بہت قیمتی پڑ رہے ہیں جب میں پنجاب کا کوئی دورہ کرتا ہوں تو میرے وکیلوں کی ٹیم میں کوئی نہ کوئی اضافہ کرنا پڑتا ہے تاہم ہم قانون کے مطابق نیب کا مقابلہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کا ادارہ کہہ رہا ہے نیب سیاسی انتقام کا کام کر رہا ہے، چیئرمین نیب کو شرم ہوتی تو یورپی یونین کی رپورٹ پر استعفیٰ دے دیتے ۔

سیاسی مخالفوں کے اہل خانہ کو گرفتار کیا جاتا ہے،اس حکومت کے انتقام کا یہ عالم ہے کہ مرحومین کو نوٹس جاری کیے جاتے ہیں،راجہ پرویز اشرف کی کردار کشی کی گئی،سیاسی انتقام کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے،ریکوڈیک کیس میں اتنا جرمانہ عالمی عدالت میں ہوا جتنا پاکستان پر قرض ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم انصاف کا ایسا نظام چاہتے ہیں جو شفاف اور انصاف پر مبنی ہے،عام شہری،جج ،جنرل اور سیاستدان کو اداروں کے سامنے پیش ہونا چاہیے،اگر عدالتیں آزاد ہوں تو لوگوں کا اعتماد بحال ہو گا۔

،،بھٹو کے عدالتی قتل کے کیس کا بھی انصاف ہونا چاہیے،آصف زرداری نے بھٹو قتل پر پٹیشن دی میں بھی اس کا حصہ ہوں،ہمیں امید ہے کہ انصاف کے ادارے انصاف کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم ہر دور کی طرح جمہوریت کیلئے آواز بلند کرنا چاہتے ہیں،سیاسی انتقام عروج پر ہے ،حکومت کا بیانیہ پہلے دن سے ناکارہ تھا ،کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ نواز شریف جیل میں ہے یالندن میں ہے ،یہی وجہ ہے آج تک پیپلزپارٹی کے رہنما جیل میں ہیں ، خورشید شاہ جیل میں ہیں ۔

انہوںنے کہاکہ میاں محمد سومرو کو انتخابات میںہرا کر سلیکشن میں شکست کھانے والے اعجاز جکھرانی کو نیب تنگ کر رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں احتساب کا ایسا نظام بنانا ہے جس میں سب کا برابر احتساب ہو ،ایسا ادارہ جس میں سیاستدان ، بیوروکریٹس ، ججز اور جرنیلز کا بھی احتساب ہو ۔اگر محترمہ اور بھٹو کو انصاف نہیں ملتا تو عام آدمی کو کہاں ملتا ہوگا ،جس عام آدمی کا نانا اور ماں قتل ہوں ان کو کون انصاف دے گا۔

انہوں نے کہا کہ سب چور ڈاکو نہیں ہمارا ٹیکس کا نظام کرپٹ ہے جس میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے،لوگوں کو کم ٹیکس رکھ کر اعتماد دیں تاکہ وہ نظام سے حصہ بنیں ،سندھ میں ہم نے ایک مثال بنا کر دکھایا ہے ،سندھ حکومت نے باقی صوبوں سے سیلز ٹیکس کم رکھا اعتماد بڑھا کر ٹیکس اثرات بڑھائے ،ہم سب سے زیادہ ٹیکس بڑھاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی آئی ایم ایف ڈیل کو نہیں مانتے ،جائیں واپس جاکر مذاکرات کریں عوام کے حق میں ڈیل کریں ،نہیں کر سکتے تو گھر چلے جائیں ،ہم آکر دوبارہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کریں گے ۔

انہوںنے کہا کہ جو معاہدہ ہوا اسے افغان لیڈر شپ اور عوام نے خوش آمدید کہا ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کے لئے امن معاہدہ ہونا چاہیے ،ایسا امن عمل جو افغانستان کو ہو اور افغانستان جس کی قیادت کرے ،میںمثبت رہنا چاہتا ہوں مگر تنازعات اپنی جگہ کھڑے ہیں ،ابھی چائے اور ہونٹوں کے درمیان بہت فاصلہ ہے ،اگر آپ امن کی بنیاد واقعی امن اور افغان عوام کے مفاد میں کر رہے ہو تو ٹھیک ہے ،افغان عوام خواتین شہریوں کے حقوق کا سوچ کر کے عمل شروع کریں تو اس کا نتیجہ امن ہوگا ،مگر اگر ایک عمل جو جو امریکی صدر کے ٹویٹ سے شروع ہو تو پر اس پر شک ہے ،عوام اور پارلیمنٹرینز شامل نہ ہوں تو شک ہے کہ کہیں یہ چل نہ سکے ،اس معاہدے پر تحفظات ہیں مگر اسے ویلکم کرتا ہوں ۔

ا نہوں نے کہا کہ عمران خان کو اس معاملے کا نہ کل پتا تھا نہ آج پتا تھا نہ آنے والے کل پتا ہوگا ،بھٹو کا سوشلزم ایک راستہ تھا ہم اس کو حقیقت میں بنا رہے تھے ،ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں سوشل ڈیموکریٹک نظام دینا ہوگا جہاں عوام کے حقوق کی ذمہ داری ریاست ہو ،آج اپوزیشن کی کچھ جماعتیں اور حکومت ٹرکل ڈائون اکانومی پر یقین رکھتے ہیں ،ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے نچلے طبقے پر خرچ کریں تو وہ پیسہ پوری معیشت میں آئے گا ،ٹرکل ڈائون فارمولا میں استحصال ہوتا ہے سرمایہ دار خود کو بناتا ہے ،انشا اللہ ہمیں موقعہ ملے گا تو اپنی معاشی پالیسی نافذ کر کے معیشت کو بہتر بنائیں گے ۔

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اپنی سیاست کرتا ہوں ، آپ مجھے سب سے لڑنے کی سیاست کیوں کروانا چاہتے ہیں ،میں کسی کو برا بھلا کہہ کر نہیں اپنا نظریہ عوام میں لے جانے کی سیاست کرتا ہوں ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے بتائیں کہ عمران خان کا اس پیس پراسیس میں کیا کردار ہے ،مگر گول پول تبدیل ہوا ہے ہمارے دور میں حقانی برے تھے ،ڈو مور کا مطالبہ کر کے کہا جاتا تھا کہ حقانی کو پکڑو ،اب تو سراج حقانی نیویارک ٹائمز میں آرٹیکل لکھ رہا ہے ،اگر سارے اسٹیک ہولڈرز کا یہ کام ہے کہ ٹرمپ کا الیکشن لڑیں اور اگر ایسا ہوگا تو پھر آگے جاکر آپ دیکھیں گے کیا ہوتا ہے ،دعا کریں امن عمل افغان عوام کیلئے ہو کسی کے انتخابات کیلئے نہ ہو ۔

انہوں نے کہا کہ اگر پنجاب اور خیبرپختونخواہ حکومت سنجیدہ ہیں تو جتنے ڈیمز ہم نے بنائے وہ بنائیں ،بڑے ڈیمز کی باتیں وہ کرتے ہیں جو سنجیدہ نہیں ہیں ،پنجاب کا نام پنج دریا ہے تین دریا ایک آمر نے دشمن کو بیچ دئیے ،دوسرے آمر نے دریائوں کا کنٹرول دشمن کو دے دیا ،ہمارے پاس پانی ہے نہیں ،پیسہ ہے نہیں ڈیم کہاں سے بنائیں گے ۔