Live Updates

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا اتحاد کامیاب رہے گا؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 2 جون 2022 17:00

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا اتحاد کامیاب رہے گا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جون 2022ء) پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ماضی میں بھی شریک اقتدار رہ چکی ہیں لیکن ایم کیو ایم روایتی طور پر بلدیاتی حوالے سے کسی کو بھی اپنے اقتدار میں شریک نہیں کرنا چاہتی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی میں تین مرتبہ میئر کا عہدہ رکھنے والی ایم کیوایم کراچی کے شہریوں کی وہ خدمت نہیں کر سکی، جو ان کی حریف جماعت اسلامی نے دو مرتبہ شہر کی میئر شپ کے دوران کی تھی۔

اس بار تو ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے علاوہ تحریک انصاف سے بھی مقابلہ کرنا ہے۔

’فیصلہ کارکردگی پر ہو گا‘

معروف تجزیہ نگار ہما بقائی نے اس معاملے پر ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مرکز ہو یا صوبہ پی ٹی آئی ایک حقیقت بن چکی ہے اور کراچی میں بھی اس کی حمایت اچھی خاصی ہے خصوصاﹰ نوجوان روایتی سیاسی جماعتوں کی بجائے تحریک انصاف کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا، ''ایم کیوایم نے پیپلز پارٹی سے جو شراکت اقتدار کیا ہے لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ملکی سیاست کی طرح کراچی میں بھی سیاست اور اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتا ہے لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس بار فیصلہ کارکردگی پر ہو گا کیونکہ یہ 1990 نہیں بلکہ 2022 ہے۔‘‘

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل پیپلز پارٹی کراچی کی میئر شپ حاصل کرنے کے لیے انتظامی طور پر پورا ہوم ورک کر چکی تھی۔

مثال کے طور پر شہر کو مزید تقسیم کرکے اضلاع کی تعداد 5 سے 7 کر دی گئی ہے جبکہ بلدیاتی قانون میں متعارف کرائی گئی ترمیم میں اضلاع کی بجائے شہری علاقوں کے لیے ٹاؤنز اور دیہی علاقوں کے لیے تعلقے بنائے جائیں گے۔ کراچی کو 25 ٹاؤنز میں تقسیم کیا جائے گا اور قوی امکان ہے کہ حد بندی ایسی کی جائے کہ ٹاؤن کا چیئرمین پیپلز پارٹی سے ہو۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ تمام کوششیں اس لیے کی جا رہی ہیں تاکہ پیپلز پارٹی کراچی کی مئیر شپ حاصل کرنے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کر سکے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کیی جانب سے بلدیاتی قانون پر بات شروع ہونے پر پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت خوش دکھائی نہیں دیتی۔

بلدیاتی انتخابات طے شدہ منصوبے کے مطابق ہونے چاہییں

عمران حکومت کے خاتمے سے سیاسی جماعتوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں عام انتخابات کی آڑ لے کر پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات کو التوا میں نہ ڈال دیں۔

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی مردم شماری کے بغیر عام انتخابات کسی صورت قبول نہیں کیے جائیں گے، ''بلدیاتی انتخابات شیڈول کے مطابق 24 جولائی کو ہی ہونے چاہییں۔ صوبائی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار نہیں کرنے دیں گے۔ سندھ حکومت فوری جماعت اسلامی سے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرے اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں۔

‘‘

مبصرین کی رائے میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کو تحریک انصاف سے زیادہ پاک سرزمین پارٹی کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ایک طرف جماعت اسلامی سالوں سے 'حق دو کراچی کو‘ کے ذریعے شہری مسائل کو نا صرف بہتر انداز میں اجاگر کر رہی ہے بلکہ دیگر جماعتیں بھی ان کی کوششوں کا اعتراف کرتی ہیں۔

’جماعت اسلامی اور پی ایس پی کا اتحاد ممکن ہے‘

سینیئر صحافی کے آر ٖفاروقی کہتے ہیں کہ جب بلدیاتی قانون میں ترمیم کے خلاف جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے سامنے سرد موسم کے باوجود ایک ماہ تک دھرنا دیا تو مصطفی کمال سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما بھی وہاں اظہار یکجہتی کے لیے گئے اور پھر سندھ حکومت اس پرامن دھرنے کے نیتجے میں بلدیاتی قانون میں مزید ترمیم کے لیے راضی ہوئی۔

اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ جماعت اسلامی اور پاک سرزمین پارٹی اتحاد کی صورت میں بلدیاتی انتخاب لڑیں یا پھر انتخابات کے بعد ان میں کوئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو جائے۔

کراچی، حیدر آباد کے میئر بااختیار ہوں گے

ایم کیو ایم رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بلدیاتی قانون میں ترامیم کے لیے ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی سے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور ترمیمی قانون جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا، ''تحریک انصاف نے کراچی کے حوالے سے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، کراچی کے لیے شہباز حکومت سے صرف حقوق ماںگے ہیں، اس بار پیپلز پارٹی کا رویہ انتہائی مثبت ہے، کراچی اور حیدرآباد کے میئر انشااللہ بااختیار ہوں گے۔‘‘

’’کراچی میں لسانی آگ بھڑک سکتی ہے‘‘

ایم کیو ایم کے معاہدوں کی تاریخ

صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدوں کی ایک تاریخ رہی ہے۔

پہلا معاہد سن 1997 میں نواز شریف کی حکومت سے کیا گیا مگرحکیم سعید کے قتل اور سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد یہ معاہدہ صرف ایک سال میں ختم ہوگیا۔

جنرل پرویز مشرف سے سن 2002 میں ہونے والا معاہدہ سب سے طویل مدتی تھا اس معاہدے میں شہری علاقوں کراچی، حیدرآباد کے معاملات کی نگرانی گورنر عشرت العباد دیکھتے تھے جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں کے معاملات وزیراعلیٰ سندھ کے پاس تھے۔

سن 2008 میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے آصف زرداری کے اختلافات کے بعد ایم کیو ایم ایم پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدہ ہوا جس کی ایم کیو ایم کے اندرونی حلقوں میں مخالفت تھی مگر الطاف حسین کے سامنے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ سن 2018 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے حکومت بنانے کے لیے 9 نکاتی معاہد کیا مگر سابق وزیراعظم کی حکومت نے اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا۔

اب ایک مرتبہ پھر سابق صدر آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کو سندھ اور کراچی کے حوالے سے ایک معاہدے کے لیے آمادہ کیا ہے۔ یہ دوسرا اعلانیہ معاہدہ ہے جس سے ابھی تک ایم کیو ایم مطمئن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے سندھ لوکل باڈیز اور کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جو وعدے کیے ہیں وہ ضرور پورے ہونگے۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات