پاکستان کے 14ویں صدر کا تعارف

آصف زرداری 26جولائی 1955کو نوابشاہ کے معروف بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئے، والد حاکم زرداری بزنس مین اور سیاستدان تھے، بطور چائلڈ سٹار اداکاری بھی کی، کئی مقدمات میں جیلیں کاٹیں

ہفتہ 9 مارچ 2024 20:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 مارچ2024ء) پاکستان کی14ویںصدر مملکت منتخب ہونے والے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینزکے صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری 26جولائی1955ء کو نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے معروف بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئے،ان کے والد حاکم زرداری سابق بزنس مین اور سیاست دان تھے جو 24مئی 2011ء میں اپنی وفات تک اپنے قبیلے کے سردار بھی رہے۔

آصف علی زرداری نے پرائمری تعلیم کراچی کے گرائمر سکول سے حاصل کی جس کے بعد وہ ہائی سکول کی تعلیم کیلئے کیڈٹ کالج پٹارو میں داخل ہوئے،مختصر عرصے کیلئے وہ کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول میں بھی رہے اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن چلے گئے۔کہا جاتا ہے کہ بعد میں انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی ادارے میں بھی داخلہ لیا تھا۔

(جاری ہے)

1968ء میں کمسن آصف نے فلمساز سجاد کی اردو فلم منزل دور نہیں میں چائلڈ سٹار کے طور پر بھی اداکاری کی،18دسمبر 1987میں آصف زرداری کی بینظیر بھٹو سے شادی ہوئی، وہ روایتی شادی کی یادگار تقریب تھی۔آصف زرداری کی دو بیٹیاں بھی ہیں، جن کے نام آصفہ اور بختاور بھٹو ہیں۔آصف زرداری نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا۔ انہوں نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخاب میں حصہ لیا مگر اس میں ناکام رہے، 1990ء میں کراچی سے رکن قومی اسمبلی بنے، ان کی اہلیہ بینظیر بھٹو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاب بنیں۔

1990ء میں انہیں اغوا برائے تاوان کے ایک مقدمے میں ملوث کیا گیا،ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک کاروباری شخصیت کو اغوا کرنے کے بعد اس کی پنڈلی پر بم باندھ کر بینک سے تاوان کی رقم نکلوانے کیلئے بھیجا تھا تاہم یہ الزام درست ثابت نہ ہو سکا اور وہ تین سال بعد جیل سے رہا کردیئے گئے۔بعد ازاں 1993 میں آصف زرداری نوابشاہ سے رکن قومی اسمبلی بنے اور بینظیر بھٹو نے اپنی کابینہ میں وزیر سرمایہ کار مقرر کیا۔

بینظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کے دوران وہ وفاقی وزیر رہے، پہلے دور میں وہ ماحولیات جبکہ دوسرے میں سرمایہ کاری کے وزیر تھے۔بعد ازاں1996ء میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد زرداری ایک بار پھر گرفتار ہوئے،ان پر متعدد الزامات عائد کیے گئے، جن میں سے ایک اپنی اہلیہ کے بڑے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل کا مقدمہ بھی تھا، وہ 8سال تک جیل میں رہے، انہیں 2004ء میں ضمانت پر رہائی ملی۔

رہائی کے بعد وہ بیرونِ ملک چلے گئے اور پس منظر میں زندگی بسر کرنے لگے تاہم دسمبر 2007ء میں اپنی اہلیہ اور پی پی پی کی چیئر پرسن بینظیر کی شہادت کے بعد پاکستان واپس لوٹے۔دسمبر 2007میں بینظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل کے بعد زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، یہ وہ وقت تھا کہ جب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سندھ میں علیحدگی پسند بینظیر بھٹو کے قتل پر مشتعل ہوسکتے ہیں۔

ایک سینئر رکن پارلیمنٹ نے ایک بار کہا تھا کہ زرداری کے ذہن کو سمجھنے کیلئے سیاسی چالبازی کے ہنر کا ماہر ہونا ضروری ہے، مشکل صورتحال سے نمٹنے کی کمال مہارت کی وجہ سے لوگوں کو ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔وہ زرداری ہی تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نواز شریف کو اس وعدے کے ساتھ قائل کیا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دیں گے، 2008 میں نواز شریف اور ان کے درمیان مری معاہدہ بھی ہوا۔

2008میں، ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو وفاق میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں، مخلوط حکومت بنانے کا موقع ملا۔چند مہینوں کے بعد صدارتی انتخابات ہوئے جس میں آصف علی زرداری، جنرل (ریٹائرڈ)پرویز مشرف کی جگہ ملک کے نئے صدر منتخب ہوئے۔بطور صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا۔

اس سکیم کو کئی وجوہات کی بنا پر تنقید کا سامنا رہا، ایک وجہ منصوبے کا نہایت جلدی میں شروع کیا جانا تو دوسرا یہ کہ مستحق غریب خاندانوں کو ایک ہزار روپے کی مالی معاونت، غربت اور مہنگائی کے لحاظ سے نہایت قلیل تھی۔آصف زرداری کے عہد صدارت میں کشیدگی کے شکار بلوچستان کے لیے آغازِ حقوق بلوچستان پیکیج پیش کیا گیا اور ساتواں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)ایوارڈ منظور ہوا۔

مزیدِ برآں اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت انہوں نے بطور صدر اسمبلیاں توڑنے کا صوابدیدی اختیار پارلیمنٹ کو واپس کردیا۔دسمبر 2011 میں صدر زرداری نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ دو مسودہ قانون پر دستخط کیے، جس کے نتیجے میں خواتین کے خلاف متعدد جرائم قابلِ سزا جرم بن گئے۔پہلے مسودہ قانون کے تحت مختلف روایتی رسم و رواج کے تحت لڑکیوں کی جبرا شادی نہ کرنا اور وراثت میں سے انہیں حصہ نہ دینا قابلِ سزا جرم بن چکے۔

دوسرا مسودہ قانون خواتین پر تیزاب پھینکنے سے متعلق تھا، جو اس قانون کے تحت نہایت کڑی سزا کا حامل جرم بن چکا۔بعد ازاں 2018 میں وہ این اے 213 شہید بینظیر آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔2024 کے عام انتخابات میں زرداری این اے 207 بینظیر آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے پشتونخوا مل عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے مقابلے میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور پاکستان کے 14ویں صدر منتخب ہوئے۔

الزامات میں گھرے آصف علی زرداری کو کئی تنازعات کے ساتھ ساتھ بدستور بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا رہا ۔انہوں نے مختلف الزامات کے باعث کئی سال جیل میں بھی گزارے، ان کی (مبینہ)بدعنوانی پر مبنی قصوں کو قومی ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے پر مشتہر کیا جاتا رہا۔بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ان پر منصوبوں سے کمیشن لینے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگے ۔

بینطیر بھٹو کی شہادت تک وہ قومی سیاست اور سن 2008 کی انتخابی مہم سے دور رہے، جس کی وجہ ان کا منفی عوامی تاثر خیال کیا جاتا ہے،ان کے خلاف سب سے معروف الزام سوئز کمپنی سے کمیشن لینے کا تھا جس پر ایک عدالت نے 1999 میں انہیں دو سال قید کی سزا دی تاہم سپریم کورٹ نے بعد میں عدالتی فیصلے کو سیاسی بنیاد پر قرار دے کر، پاکستان میں ازسرِ نو سماعت کا حکم دیا لیکن سن2003 میں ایک سوئز عدالت نے زرداری اور بینظیر کو منی لانڈرنگ اور رشوت لینے کا قصور وار قرار دے دیا۔

2007 میں آصف زرداری اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے صدر پرویز مشرف نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یعنی این آر او جاری کیا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے این آر او کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ اسے ایسا معاہدہ سمجھا جائے جو کبھی تھا ہی نہیں،اس فیصلے سے پی پی پی اور زرداری کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔طویل عرصے تک تنازع کا سبب رہنے والے سوئز کیس کے حوالے سے سوئٹزر لینڈ کی انتظامیہ نے کہا کہ وہ قانونی بنیاد پر صدر زرداری کے خلاف دائر مقدمے کو دوبارہ نہیں کھولنے سے قاصر ہیں۔

صدر زرداری کو اپنے دو عہدوں سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے الزام میں توہین عدالت کے کیس کا بھی سامنا رہا تاہم پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ان کے خلاف یہ کیس ختم کر دیا گیا۔زرداری کی صدارت اور پی پی پی کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر 18 ویں ترمیم کی حمایت میں ووٹ دیاجس سے صدر کے اہم اختیارات میں کمی ہوئی اور منتخب حکومتیں تحلیل کرنے کا صدارتی اختیار واپس لے لیا گیا، ترمیم کے تحت کئی وزارتوں کو صوبوں تک منتقل کر دیا گیا، جس سے مرکز کی طاقت میں کمی ہوئی اور اکائیوں کو مزید اختیار ملا۔