Live Updates

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق کا دوسرے صوبوں میں منصوبے بنانے کیلیے سندھ حکومت پراعتماد

منگل 20 مئی 2025 23:20

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاق کا دوسرے صوبوں میں منصوبے بنانے کیلیے ..
Jکراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2025ء)وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبائی سرکاری اداروں کی شاندار کارکردگی کے پیش نظر ان کی حکومت کو 9 ارب روپے جاری کیے ہیں،یہ رقم رحیم یار خان اور راولپنڈی میں ایس آئی یو ٹی کے قیام، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی تعمیر نو اور ایس زیڈ اے بی آئی ایس ٹی اور آئی بی اے جیسے اداروں کے قیام کے لیے دی گئی ہے جن کے قیام کے بارے میں فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ نے یہ بات وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس میں صوبائی وزرا، مشیران، خصوصی معاونین، چیف سیکریٹری اور متعلقہ سیکریٹریز نے شرکت کی۔کابینہ نے رحیم یار خان اور تحصیل گوجر خان، راولپنڈی میں دو ایس آئی یو ٹی (گردے کے ہسپتال)مراکز کے قیام کی تجویز کی منظوری دے دی۔

(جاری ہے)

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ اقدام پاکستان بھر میں صحتِ عامہ کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے جس میں خاص طور پر پنجاب اور سندھ و بلوچستان کے ہمسایہ علاقوں کے عوام کو فائدہ پہنچانے پر توجہ دی گئی ہے۔

اس منصوبے کے لیے صوبائی کابینہ نے ایس آئی یو ٹی رحیم یار خان کے لیے 2 ارب روپے اور ایس آئی یو ٹی راولپنڈی کے لیے 1 ارب روپے کی منظوری دی ہے جبکہ سالانہ آپریٹنگ اخراجات کے لیے اضافی 50 کروڑ روپے بھی مختص کیے گئے ہیں۔فنڈز کے مثر اور شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ایک شفاف مانیٹرنگ فریم ورک نافذ کیا جائے گا جس میں سہ ماہی پیشرفت رپورٹس، تھرڈ پارٹی آڈٹس اور سندھ حکومت کے حکام کی جانب سے سائٹ وزٹس شامل ہوں گے۔

وزیراعلی مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ منصوبہ سندھ کی قومی سطح پر مثبت تاثر کو نمایاں طور پر بہتر بنائے گا، صوبے کے برابری پر مبنی ترقی کے عزم اور قومی یکجہتی و دریا دلی کو ظاہر کرے گا۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کابینہ کو بتایا کہ وفاقی حکومت کے 9 ارب روپے کے فنڈز کے تحت بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں صحبت پور، جعفر آباد اور ڈیرہ مراد جمالی میں گھروں کی تعمیر نو کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے 1 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وزیراعلی نے کہا کہ یہ فنڈز ہاسنگ کیش گرانٹس میں اضافے کی تجویز کے ساتھ دیے جا رہے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں میں تعمیراتی سامان اور نقل و حمل کی بڑھتی ہوئی لاگت کو مدِنظر رکھا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت اس بات کا عزم رکھتی ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں متاثرہ کمیونٹیز کو گھروں کی بحالی میں مکمل تعاون فراہم کیا جائے تاکہ وہ سیلاب کے بعد بحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔

اس منصوبے کے نفاذ کے لیے نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر سی پی) کو شراکت دار کے طور پر منتخب کیا گیا ہے کیونکہ یہ ادارہ تمام صوبوں میں کام کر رہا ہے اور فوری طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔کابینہ اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ مختص فنڈز کو ترقیاتی یا غیر ترقیاتی بجٹ کے ذریعے کیسے استعمال کیا جائے اور آیا اس کے لیے باقاعدہ منظوری کا عمل ضروری ہے یا نہیں۔

محکمہ بلدیات نے کابینہ سے دو اہم منصوبوں کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری کی درخواست کی۔ پہلا منصوبہ علامہ رشید ترابی روڈ پر سڑکوں کی تعمیر و بہتری، پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے نظام کی بہتری سے متعلق ہے جس کے لیے 53 کروڑ 23 لاکھ 10 ہزار روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی۔ دوسرا منصوبہ کریم آباد میں ایک دو پلس دو (2+2) لین انڈر پاس کی تعمیر کا ہے جس کے لیے 1 ارب روپے کی منظوری طلب کی گئی۔

وزیراعلی مراد علی شاہ نے ان دونوں منصوبوں کے لیے درکار فنڈز کی منظوری دے دی اور ساتھ ہی محکمہ بلدیات کو ہدایت کی کہ وہ اپنی موجودہ فنڈز کی تقسیم کا جائزہ لیں اور ان منصوبوں میں سست روی کے شکار فنڈز کو دوبارہ مختص کرنے پر غور کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ باہمی حکمتِ عملی عوامی انفرااسٹرکچر کے ان اہم منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے اپنائی جا رہی ہے۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایات پر کابینہ نے سندھ میں گاڑیوں سے متعلق قوانین میں بعض ترامیم کی اصولی منظوری دے دی ہے جن کا مقصد سڑکوں کی حفاظت کو بہتر بنانا اور ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔اب بھاری گاڑیوں پر ان کی انوائس ویلیو کی بنیاد پر 0.50 فیصد رجسٹریشن فیس عائد ہوگی جبکہ سالانہ ٹیکس 1,000 روپے اور ٹرانسفر فیس 2,000 روپے مقرر کی گئی ہے جس میں اسمارٹ کارڈ اور نمبر پلیٹ کی لاگت شامل ہے۔

سندھ میں چلنے والی تمام کمرشل گاڑیوں کے لیے فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے خلاف ورزی پر 10,000 روپے جرمانہ ہوگا۔ مزید برآں پرانی گاڑیوں کے لیے پرمٹ کے اجرا پر نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جس کے تحت 20 سال سے زائد پرانی گاڑیاں بین الصوبائی روٹس اور 25 سال سے زائد پرانی گاڑیاں بین الاضلاعی سڑکوں پر چلانے پر پابندی ہوگی۔

خلاف ورزی کی صورت میں ہر مرتبہ جرمانہ بڑھایا جائے گا۔ غیر معیاری رکشاں اور لوڈرز پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے تاکہ سڑکیں محفوظ بنائی جا سکیں۔انجن اور چیسیس کی تیاری یا اسمبلنگ کے لیے لائسنس لینا لازمی قرار دیا گیا ہے جس کی سالانہ فیس 30 لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔ لائسنس کی تجدید کی صورت میں 10 لاکھ روپے سالانہ ادا کرنے ہوں گے۔ اگر کوئی غیرقانونی طور پر اسمبلنگ یا مینوفیکچرنگ کرتا ہے تو اسے 10 لاکھ روپے جرمانہ بھرنا ہوگا۔

ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے ٹریفک پولیس، ایکسائز پولیس اور دیگر ادارے نگرانی کریں گے۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے تمام جرمانے صرف ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ایپ کے ذریعے آن لائن جمع کروانا لازمی ہوگا۔ٹریفک قوانین میں مزید بہتری کے تحت اب بڑی گاڑیوں ( ایچ ٹی وی) کے ڈرائیورز کے لیے کم از کم 30 گھنٹے کی سرکاری تسلیم شدہ ادارے سے پیشگی تربیت لازمی قرار دی گئی ہے۔

ایچ ٹی وی لائسنس حاصل کرنے کی عمر 24 سال سے کم کر کے 22 سال کر دی گئی ہے بشرطیکہ امیدوار کو ایک سال کا چھوٹی گاڑی ( ایل ٹی وی ) تجربہ ہو۔خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے خودکار نگرانی کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے۔ مثلا اگر کوئی گاڑی نو پارکنگ زون میں کھڑی ہو تو اسے فوری طور پر فکسڈ پینلٹی نوٹس جاری کیا جائے گا جو گاڑی پر چسپاں کیا جائے گا یا موجودگی کی صورت میں ڈرائیور کو دیا جائے گا۔

غیر قانونی گاڑیوں کی خصوصیات جیسے کہ کالے شیشے وغیرہ پر بھی سخت جرمانے ہوں گے جن کی رقم بار بار خلاف ورزی کی صورت میں 3 لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔حکومت نے ان خلاف ورزیوں کی مثر نگرانی کے لیے خصوصی ٹریفک عدالتیں بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایسے مقدمات تیزی سے نمٹائے جا سکیں۔وزیراعلی نے ایکسائز و ٹیکسیشن کے وزیر اور وزیر قانون و داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ ان اقدامات پر سندھ اسمبلی کو اعتماد میں لیں تاکہ روڈ سیفٹی سے متعلق حکومتی اقدامات کی مثر نمائندگی کی جا سکے۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ سندھ میں منشیات کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک سنگین مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب تک 9,676 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ 7,769 کیسز صرف کراچی ڈویژن میں زیر التوا ہیں۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کابینہ میں خصوصی عدالتوں کے قیام کی تجویز پیش کی گئی۔ تجویز کے مطابق صرف کراچی میں تین خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی جبکہ دیگر ڈویژنز یعنی حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور میرپور خاص میں ایک ایک عدالت قائم کی جائے گی۔

اس اقدام کا مقصد عدالتی کارروائی کو تیز کرنا اور بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ کابینہ نے اس تجویز کی منظوری دے دی ہے۔سندھ کابینہ نے وزیراعظم کے خواتین بااختیاری پیکج میں شرکت کے لیے اصولی منظوری دے دی ہے۔ اس اقدام کے تحت ہر سال "صنفی برابری رپورٹ " قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اس ہدایت پر مثر عمل درآمد کے لیے محکمہ ترقی نسواں کو موجودہ قواعد میں ترامیم کرنے کا پابند بنایا گیا ہے تاکہ یہ رپورٹ سندھ اسمبلی میں باقاعدہ طور پر پیش کرنا قانونی تقاضہ بن جائے۔یہ اقدام خواتین کے حقوق، مساوات، اور بااختیار بنانے کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔انکلوسیو سٹی وزیر اعلی سندھ کا ایک انقلابی منصوبہ ہے جو معذور افراد کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔

کابینہ اس منصوبے کی منظوری پہلے ہی دے چکی ہے جس کے تحت ایک ایسا شہر تعمیر کیا جائے گا جہاں معذور افراد کے لیے خصوصی کلینیکل اور بحالی کی سہولیات، تعلیمی ادارے اور سبزہ زار دستیاب ہوں گے۔وزیر اعلی نے اس مقصد کے لیے ضلع کورنگی میں 75 ایکڑ زمین مختص کی ہے جس میں مزید 13.38 ایکڑ شامل کر کے کل رقبہ 88.38 ایکڑ کر دیا گیا ہے۔ اس اراضی پر محکمہ معذور افراد کے اختیارات کے دفاتر کے ساتھ ساتھ شجر کاری کے منصوبے بھی شامل ہوں گے۔

اس عظیم منصوبے کے لیے مالی سال 2024-25 کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ایک اہم پیش رفت کے طور پر انکلوسیو سٹی بورڈ نے اس منصوبے کی تیزی سے تکمیل کے لیے سپرا قوانین سے استثنی کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت براہ راست ایم ایس شاہد عبداللہ کے ساتھ معاہدہ کیا جائے گا۔ وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ ٹیکنیکل کمیٹی کو معاہدے کو حتمی شکل دینے کے مکمل اختیارات دے دیے گئے ہیں، جو اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی جانب اہم قدم ہے۔

سندھ حکومت کے منظور کردہ ای-رجسٹریشن سسٹم کا آغاز فروری 2024 میں کیا گیا تھا، جو اس وقت 89 میں سے 51 سب رجسٹرار دفاتر میں فعال ہے۔ یہ نظام نادرا کے ساتھ بایومیٹرک تصدیق کے لیے منسلک ہے اور ساتھ ہی ای-اسٹامپنگ سسٹم اور ایف بی آر سے بھی مربوط ہے۔ اگرچہ مکمل نفاذ کا انحصار انفراسٹرکچر کی تیاری پر ہے تاہم ای-میوٹیشن کا عمل جاری ہے۔ہر بایومیٹرک تصدیق پر 10 روپے، بمعہ لاگو ٹیکسز، لاگت آتی ہے۔

کابینہ نے اس سروس کے لیے متعدد دستاویزات کے نرخوں کی منظوری دے دی ہے جن میں نادرا کے ساتھ ایک اسٹینڈرڈ ماسٹر ایگریمنٹ بھی شامل ہے تاکہ مطلوبہ سہولیات حاصل کی جا سکیں۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو میٹھے پانی کی فراہمی میں توسیع کی اسکیم تھر کے لیے ایک اہم منصوبہ ہے جس کا مقصد عمرکوٹ اور تھرپارکر کی مقامی آبادی کو پینے کے صاف پانی کی سہولت فراہم کرنا ہے۔

اس منصوبے کا بجٹ 7,622.305 ملین روپے رکھا گیا ہے جو موجودہ آبادی 169,650 افراد کی ضروریات کو پورا کرے گا جب کہ آئندہ برسوں میں یہ آبادی تقریبا 3,58,000 تک پہنچنے کا امکان ہے۔وزیر اعلی نے منصوبے کے نفاذ کی منظوری دیتے ہوئے مقامی نہری نظام کی سالمیت برقرار رکھنے پر زور دیا۔ یہ مشترکہ کوشش اس عزم کو اجاگر کرتی ہے کہ مقامی آبادی کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کے معیارِ زندگی میں بہتری لائی جائے۔

کابینہ نے اس اسکیم کی توثیق کر دی۔سندھ کابینہ نے مشاورت کے بعد اروڑ یونیورسٹی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔ ان ترامیم کے تحت یونیورسٹی کو فنون، تعمیرات، ڈیزائن، ورثہ، سائنسز اور انجینئرنگ سمیت مختلف شعبہ جات میں کلاسز لینے اور ڈگریاں جاری کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔یونیورسٹی اپنی حدود میں واقع کیمپسز اور سندھ کے مخصوص علاقوں میں کام کر سکے گی۔

چیف اکانٹنٹ ایک مستقل افسر ہوگا جس کی تقرری سلیکشن بورڈ کی سفارشات پر سنڈیکیٹ کرے گا۔ علاوہ ازیں ورثہ اور آثارِ قدیمہ کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی ایک ممتاز شخصیت کو وزیر اعلی نامزد کریں گے۔ان ترامیم کے تحت مختلف فیکلٹیز قائم کی گئی ہیں جن میں آرکیٹیکچر، پرفارمنگ آرٹس اور ایمرجنگ سائنسز شامل ہیں۔ یہ تجاویز سندھ حکومت کے قواعد و ضوابط 1986 کے رول 45 کے تحت غور و منظوری کے لیے پیش کی گئی ہیں۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات