اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2025ء)قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ برائے مالی سال 26-2025 کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا جبکہ اپوزیشن کی کٹوتی کی تمام تحاریک کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں جس میں وزیراعظم شہباز شریف بھی شریک ہوئے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں کاربن لیوی سے متعلق اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں جبکہ وزیر خزانہ کی ترامیم منظور کر لی گئیں۔
قومی اسمبلی میں بجٹ کی شق وار منظوری سے قبل قومی اسمبلی، سینیٹ میں بجٹ پر ارکان نے کئی دن تک تفصیلی بحث کی تھی، جس کے بعد وفاقی کابینہ نے فنانس بل کی منظوری دی۔قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیر خزانہ کی کسٹمز ایکٹ سے متعلق ترامیم منظور کرلی گئیں، 201 اراکین نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، اپوزیشن کی تمام ترامیم کثرت رائے مسترد کردی گئیں۔
(جاری ہے)
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے سیلز ٹیکس 1990 میں ترامیم ایوان میں کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ کی ٹیکس فراڈ میں ملوث تاجروں کی گرفتاری کے اختیارات کمیٹی کو دینے کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی، جس کے مطابق کمیٹی پانچ کروڑ سے زائد کے ٹیکس فراڈ میں ملوث تاجر کی گرفتاری کے اجازت دینے کی مجاز ہو گی۔وفاقی حکومت نے اس سے قبل ٹیکس کمشنر کو گرفتاری کے اختیارات دینے کی ترمیم تجویز کی تھی۔
ترمیم کے تحت تحقیقات کے مرحلے میں ایف بی آر کے پاس گرفتاری کا اختیار نہیں ہو گا، دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے سیلز ٹیکس ایکٹ میں متعارف کردہ تمام ترامیم کثرتِ رائے سے مسترد کردی گئیں۔قومی اسمبلی نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں وزیر خزانہ کی پیش کردہ ترامیم منظور کرلیں جبکہ اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔ترامیم کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت 107 اداروں کو ٹیکس چھوٹ دے دی گئی، ان اداروں میں پاکستان بار کونسل سمیت صوبائی بار کونسلز، فوجی فانڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، فانڈیشن یونیورسٹی، شوکت خانم، ایدھی فانڈیشن، الشفا ٹرسٹ، شفا ٹرسٹ آئی ہسپتال شامل ہے۔
فارمن کرسچن کالج، لمز، غلام اسحاق خان یونیورسٹی کو بھی ٹیکس استثنی دے دیا گیا، جبکہ تخفیف غربت فنڈ، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام، نینشل انڈومنٹ اسکالرشپ کو بھی ٹیکس چھوٹ کی منظوری دے دی گئی۔علاوہ ازیں ایف بی آر فائونڈیشن، پاکستان زرعی ریسرچ کونسل، آڈٹ اوورسائٹ بورڈ سابقہ صدور اوران کی بیواں کی پنشن، پریم کورٹ دیامیر بھاشا و مہمند ڈیم فنڈ کو بھی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان کی جانب سے ترامیم پیش کرنے کا عمل بھی جاری رہا، اس دوران حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ارکان کی پیش کی جانے والی ترامیم سے متعلق حمایت یا مخالفت میں اپنی رائے پیش کی۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر نے وزیر خزانہ کو مشورہ دیا کہ مائیک نیچے کرلیں بار بار اٹھیں گے تو کمر میں درد ہوگا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مسکراتے ہوئے مائیک نیچے کرلیا۔
قومی اسمبلی میں سیلریز اینڈ الانس ایکٹ میں ترمیم پیش کی گئی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی ترمیم کی حمایت کی گئی، جس کے مطابق وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت اراکین کے برابر تنخواہ لیں گے، سیلریز اینڈ الانس ایکٹ 1975 میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی گئی۔قبل ازیں قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا، تو وزیر خزانہ اورنگزیب نے مالی بل 2025 قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی، اپوزیشن کی جانب سے تحریک کی مخالفت کی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے کہا کہ اپوزیشن نے اس تحریک کی مخالفت کی ہے، ہمیں اس تحریک پر بات کرنے کی اجازت دی جائے، اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک پر اپوزیشن کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔سنی اتحاد کونسل کے محمد مبین عارف اور جمعیت علمائے اسلام ف کی عالیہ کامران نے فنانس بل کو رائے عامہ کے لیے عام کرنے کی تحریک پیش کی، سنی اتحاد کونسل کے محمد مبین عارف، جمیعت علمائے اسلام ف کی عالیہ کامران کی تحاریک کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر اسی طرح بجٹ پاس کریں گے تو بھکاری ہی رہ جائیں گے، سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام ہوگاچیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اس بجٹ میں 64 فیصد خسارہ ہے، موجودہ بجٹ ملک اور قوم کے لیے گھاٹے کا بجٹ ہے، اللہ نہ کرے سری لنکا کا سلسلہ چل نکلے، حکومت نے ریفارمز لانے کے لیے اقدامات نہیں کیے، پچھلے بجٹ میں 313 ارب روپے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)کے ذریعے تقسیم کیے گئے ، اگر منصفانہ تقسیم ہوتی تو بہاولپور میں ایک خاتون کی موت نہ ہوتی۔
جنید اکبر نے کہا کہ جن کا مینڈیٹ نہ ہو، وہ عوام کا خیال نہیں رکھتے، جو ان کو لے کر آئے یہ ان کا خیال رکھتے ہیں، فاٹا، پاٹا کے ساتھ حکومت کا وعدہ پورا نہیں ہوا ، ہر سال ایک سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، دس سال تک سیلز ٹیکس سے استثنی کی بات کی گئی تھی، پہلے فاٹا کے عوام کو ٹیکس دینے کے قابل تو بنائیں، فاٹا پر ٹیکس کی ایوان کے اندر اور باہر مخالفت کریں گے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئندہ مالی سال کے لیے مالی تجاویز کو روبہ عمل لانے اور بعض قوانین میں ترمیم کی تحریک پیش کی، تو اپوزیشن نے شور شرابہ اور سخت احتجاج کیا۔عاطف خان نے کہا کہ حکومت کے دعوں کے مطابق حالات بہتر ہوتے تو ہمارے نوجوان ملک سے باہر کیوں بھاگتی ۔ ہر روز ہم سنتے ہیں کہ کشتی کے حادثات میں سیکڑوں پاکستانی جان سے چلے گئے، لوگ قرضے مانگ کر اور چیزیں بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں، لوگوں کی اتنی آمدن نہیں جتنے ان کے بجلی کے بل آرہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے پاس جتنے اختیارات ہیں، دنیا میں شاید کسی ادارے کے پاس اتنے اختیارات نہیں، جائزہ لیا جائے کہ جب سے نیب بنا ہے پاکستان میں کرپشن زیادہ ہوئی ہے یا اس میں کمی آئی ہے۔اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ گزشتہ روز چیئرمین نیب پارلیمنٹ آئے تھے، انہوں نے نیب کی کارکردگی کے حوالے سے بریف کیا ہے وہ آپ پڑھیے گا، عاطف صاحب آپ کو وہ بریف دلچسپ لگے گا۔
رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران نے کہا کہ پاور ڈسٹری بیوشن ایکٹ میں بھی حکومت ترمیم کر رہی ہے اور نزلہ عوام پر گرایا جا رہا ہے، دنیا بھر میں پاور کنزمبشن ترقی کا پیمانہ ہے، ہمارے یہاں توانائی مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے، حکومت روش بنا لی ہے کہ جو بل سینٹ سے پاس نہیں ہوسکتے، انہیں فائنانس بل میں پاس کروا لیا جاتا ہے۔ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ عوام کا نہیں بلکہ عالمی مالیاتی بجٹ (آئی ایم ایف)کا بجٹ ہے، زراعت کا شعبہ بری طرح تنزلی کا شکار ہے، لوگوں کو یقین ہوگیا کہ یہ زراعت دشمن حکومت ہے، زرعی آلات پر اٹھارہ فیصد ٹیکس ختم کیا جائے، ہم نے کسانوں کو بجلی پر اٹھارہ روپے فی یونٹ سبسڈی دی تھی، آپ ایف بی آر کو اختیار دے حکومت جب چاہے 90 روپے پیٹرولیم پر لیوی لگا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے، تحریک انصاف بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نظریئے پر قائم ہے، یہ ناکام ترین حکومت ہے ان کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔زرتاج گل نے کہا کہ بجٹ میں نوجوانوں اور خواتین سے متعلق کچھ نہیں ہے، بجٹ میں کلائمیٹ چینج پر توجہ نہیں دی گئی، ہم چھ فیصد پر جی ڈی پی چھوڑ کر گئے، اب ایک فیصد جی ڈی پی پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔
شاہدہ اختر علی نے کہا کہ ایف بی آر آج نیب کے نقش قدم پر چل رہا ہے، اسپیکر صاحب آپ نے کہا ہے کہ آپ کے پاس نیب کی دلچسپ رپورٹ آئی ہے، ہو سکتا ہے اگلے سال اپ کہیں کہ میرے پاس ایف بی ار کی دلچسپ رپورٹ آئی ہے، ڈھائی روپے کاربن لیوی لگانے سے پٹرول مہنگا ہوگا اور ہر چیز کی قیمت بڑھے گی، ہائیڈرو کاربن میں ایک ہائیڈروجن ہے، جب سب پہ ٹیکس لگایا ہے تو ہائیڈروجن کی مد میں بھی ٹیکس لگا دیں، اگر ہر چیز کا انتظام عوام نے خود کرنا ہے تو پھر ریاست ٹیکس لے کر عوام کے لیے کیا کر رہی ہے۔
ڈاکٹر نثار جٹ نے کہا کہ میں اس بجٹ کو مسترد کرتا ہوں، ہمارے ملک میں آئین قانون رول آف لا جیسی کوئی چیز نہیں، ووٹ کے تحفظ کو آئین کہتے ہیں، نہ ہمارے ووٹ کو عزت ملی نہ تحفظ ملا، زراعت انڈسٹری پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، بزنس مین پیسہ ملک سے باہر لے جانا چاہتا ہے، کاربن لیوی بزنس مین کو متاثر کرے گی، یہ سیاستدانوں کا بنایا ہوا بجٹ نہیں ہے۔
رکن قومی اسمبلی عثمان بادینی نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ سے کسی بھی شعبے کے عوام خوش نہیں، بلوچستان میں بارڈر ٹریڈ کو کھولا جائے، بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار کی ضرورت نہیں، بلوچستان کے نوجوان کاروبار کرنا چاہتے ہیں انہیں مواقع فراہم کیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور کراچی کے بجلی کے نرخ بلوچستان کے غریب عوام پر بھی نافذ کیے گئے ہیں، ملک کے غریب عوام کو ٹیکسز کے بوجھ کے باعث زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے، بلوچستان میں واشک ،بسیمہ اور خاران شاہراہیں بہت اہم ہیں، ان شاہراں کے لیے صرف 50 لاکھ روپے رکھے گئے جو افسوسناک ہے۔بعدازاں فنانس بل کی منظوری کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔