اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2025ء)وزیراعظم کے کوآرڈینیٹربرائے اطلاعات ونشریات و امور خیبرپختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ سانحہ سوات کے دلخراش واقعہ نے خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ابھی تک اس سانحہ پر ایک پریس کانفرنس تک نہیں کی، صوبائی حکومت کا مطمع نظر عوام نہیں اڈیالہ جیل کے قیدی کی رہائی ہے ، تعلیمی شعبہ تنزلی کا شکار ہے ، 24جامعات میں وائس چانسلرز ہی نہیں ہیں، دہشتگردی کے خلا ف وفاقی حکومت کی طرف سے ملنے والے اربوں روپے اپنی عیاشیوں پر خرچ کئے جارہے ہیں، فتنہ الخوارج کی مرمت اورمذمت نہیں کی گئی اورفنڈ نہ ملنے کا پروپیگنڈہ وفاق کے خلا ف کیا جاتا ہے، صوبائی حکومت ہم نہیں گرائیں گے اور نہ ہی وزیراعظم نے کسی کو ٹاسک دیا ہے،تحریک انصا ف کی اپنی دھڑے بندی ہی ان کی حکومت گرائیگی اور اگر حکومت گری تو ہم اپنا جمہوری کردار ادا کریں گے۔
(جاری ہے)
پیرکو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوات سانحہ پر صوبائی حکومت نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ حادثات پوری دنیا میں رونما ہوتے ہیں ، آتشزدگی، زلزلہ، سیلاب کے واقعات ، دھماکے،سڑک ، ریل حادثات اورفضائی حادثات بھی ہوجاتے ہیں لیکن پوری دنیا میں حادثات کے بعد وہاں کے حکمرانوں کا ردعمل اور رویہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن سوات میں جو کچھ ہوا اس میں انتہائی غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا، ڈیڑھ درجن سے زائد لوگ 2 گھنٹے سے زائد وقت تک مدد کے منتظر رہے ، آہ و بکا کرتے رہے، بچے اپنے والدین اور والدین اپنے بچوں کو دیکھ دیکھ کر تڑپتے رہے اور ایک ایک بندہ ڈوبتا گیا اور روتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سیلابی ریلا صرف ان افراد کہ بہا کر نہیں لے گیا بلکہ خیبرپختونخوا کی گورننس ،13 سالہ کارکردگی اور ریاست مدینہ کا نام لے کربنائی گئی حکومت کے نظام کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ انہوں نے کہا کہ پھرکہتا ہوں کے حادثات دنیا میں ہوتے ہیں تاہم اس پر مصنوعی ملمع کاری نہیں کی جاتی، یہ بزدلوں اور بنارسی ٹھگوں کا کام ہوتا ہے کہ اپ اے سی یا ڈی سی کو معطل کردیں حالانکہ اپ کے لیڈر یہ مثالیں دیا کرتے تھے کہ کوریا میں ایک کشتی الٹ گئی تو وہاں کے وزیراعظم نے استعفیٰ دیدیا، بھارت میں ایک ریل کا حادثہ ہوا تو وہاں کے وزیر نے استعفیٰ دیدیا، دریائے فرات کے کنارے پر ایک کتا بھی مرجائے تو اس حوالے سے حضرت عمرفاروق کے قول کی مثالیں دیا کرتے تھے۔
اختیار ولی نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ،اس سے قبل کالام میں بھی ایک واقعہ ہوا جس میں ایک کشتی الٹ گئی جس میں ایک درجن سے زائد لوگ سوار تھے ، ایک ڈیڑھ سال قبل کوہستان میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں ایک خاندان کے لوگ پانی میں پھنسے ہوئے تھے جن کو نکالنے کیلئے ہیلی کاپٹرنہیں بھیجا گیا جسے صوبائی حکومت چنگ چی اوراوبر کی طرح استعمال کرتی رہی، چترال میں علیمہ خان کوریسکیوکرنے کیلئے وفاقی حکومت نے ہیلی کاپٹر بھیجا۔
وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر نے کہا کہ سانحہ سوات کے متاثرین کی آواز انہیں اس لئے سنائی نہیں دی کیونکہ جہاں کا صوبائی وزیر25 سے 30کروڑ روپے دے کروزیر بنا ہو وہ خاک کام کرے گا، اس کی ترجیح اپنے پیسے ڈبل اور ٹرپل یا 10 گنا زیادہ کرناہے ،جو سیکرٹری پیسے دے کر اپنی پوسٹنگ کرا ئے وہ خاک کام کرے گا، ابھی تک یہ رویہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور نے اس واقعہ پر کوئی براہ راست پریس کانفرنس نہیں کی اور قوم کو اعتماد میں نہیں لیا۔
انہوں نے کہا کہ جب کے پی ہائوس اسلام آباد میں گزشتہ روز وزیراعلیٰ نمودار ہوئے تو مجھے لگا کہ شاید اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے وہ استعفیٰ دیں گے لیکن ان سے یہ توقع رکھنا فضول او ر دیوانے کا خواب ہی ہے، انہیں صرف اپنا مال بنانے اور گندی سیاست کرنے سے غرض ہے، من گھڑت الزامات لگانا، پراپیگنڈہ کرنا، تقسیم پیدا کرنا اور قوم میں دراڑیں ڈالنا ان کی سیاست اور گندا پیشہ ہے۔
اختیار ولی نے کہا کہ سانحہ سوات میں جاں بحق ہونے والے افراد کو ڈرون کی مدد سے لائف جیکٹس یا رسیاں پہنچا کر بچایا جا سکتا تھا لیکن اپ کی توجہ یہاں نہیں بلکہ قیدی804 پر تھی، کہتے ہیں 190 ملین پائونڈبھول جائیں،ہمارے قیدی کوچھوڑ دیں، تعلیمی ایمرجنسی لگانے کی بات کریں تو کہتے ہیں قیدی 804 کو رہا کریں اس کے علاوہ ان کا کوئی وژن نہیں ہے، سکیورٹی حالات پر کہتے ہیں ہمیں فنڈنہیں دیئے جاتے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے اپنے دو ر کے اورموجودہ حکومت کے دور کی دستاویزات موجود ہیں جن میں واضح فرق دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صوبائی بجٹ پیش کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس 157 ارب روپے کا فاضل بجٹ ہے اور اخراجات 1962ارب روپے ظاہر کرتے ہیں اور قابل وصول محاصل مجموعی طور پر 129ارب روپے ہیں جبکہ 1500ارب روپے سے زائد کا انحصاروفاق پر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا مجموعی انحصاروفاق کے قابل تقسیم محاصل پر ہے جو 1500ارب روپے سے زائد بنتے ہیں جس میں این ایف سی کا حصہ، نیٹ ہائیڈل پرافٹ، تیل وگیس کی رائلٹی،ونڈ فال آئل لیوی ہے،بجٹ میں 547ارب روپے کے اعدادوشمار بتائے گئے ہیں جس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کہاں سے آئیں گے،4500 ارب روپے ان اضلاع کیلئے رکھے ہیں جنہیں تین سال میں ایک پائی نہیں دی او ر یہ اب بھی انہیں ایک پیسہ نہیں دیا جائیگا۔
اختیار ولی خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا واحد صوبہ ہے جہاں ملمع کاری کے ذریعے لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے،کہتے ہیں کہ تعلیمی ایمرجنسی لگائی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ نئے سکول کہاں بنیں گے اور ہوائی باتیں کی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا کہ نئے سکول بنائیں کیونکہ اپ نے کئی برس سے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کررکھی ہے جس پر کہتے ہیں ہم نے 220 نئے سکول بنائے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ یہ سکول کب اورکہاں بنے ہیں اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
انہوں نے کہا کہ دعویٰ کیا گیا کہ 4 نئی یونیورسٹیاں بنائیں گے، ان یونیورسٹیوں کیلئے بجٹ میں صرف 5ہزار روپے رکھے گئے ہیں ، صوبے کی 34 یونیورسٹیوں میں سے اس وقت 24میں وائس چانسلرز تعینات نہیں ہیں اور18 یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں اور بند ہونے جارہی ہیں اور صوبائی حکومت ان کی جائیداد بیچنے کا اعلان بھی کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بڑا فراڈ کیا ہوگاکہ علی امین گنڈا پور نے 18-2013اور 22-2018 تک پرویز خٹک اورمحمود خان کے ادوار کی 310 سکیمیں بند کردیں اور810 نئی سکیموں کا اعلان کردیا، یہ ان کی مثالی کارکردگی ہے کہ سینکڑوں سکیمیں بند کردو اورہر سال سینکڑوں نئی سکیموں کا اعلان کردو، یہ کوئی ایک نیا ہسپتال نہیں بنا سکے، بانی پی ٹی ائی کہتے تھے ایک ارب درخت لگائے اور امریکا میں جا کر کہنے لگی2 ارب درخت لگا دیئے۔
انہوں نے کہا کہ اڑھائی سال سپیکراور صوبائی اسمبلی کمیٹی کے اراکین سے کہتا رہا کہ ہمیں آدھے ہی درخت دکھا دیں اور اس کے اوپر جو ظلم و زیادتی یہ ہے کہ دیر اور چترال میں بے دردی اور بے رحمی سے جنگلات کاٹے جارہے ہیں جس میں پوری صوبائی حکومت ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کہ جو اارکین کرائے کی گاڑی پر پہلے روز اسمبلی آئے تھے ان کے پاس اربوں روپے کے اثاثے کہاں سے آئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سے لے کر صوبائی وزیر تک کی نشستیں برائے فروخت ہیں صرف خریدار چاہئے ، ان کی اپنی جماعت کے اندر تین تین دھڑے بندیا ں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبہ میں بجٹ میں 9فیصد کمی کی گئی اور فاٹا اور پاٹا کے حوالے سے 10فیصد سیلز ٹیکس وفاق کو ادا کرنے کو تیار نہیں جبکہ خود 2023 سے ٹیکس وصول کررہے ہیں ، صوبے میں شرح خواندگی جو پنجاب سے بھی زیادہ تھی اب کم ہوکر 51فیصد پر اگئی ہے، وزیر خزانہ کو سندھ سے درآمد کیا گیا ہے، کوہستان سے 200ارب روپے جعلی چیکوں کے ذریعے نکالے گئے ہیں اور سپیکر صوبائی اسمبلی کہتے ہیں کہ 20ارب روپے برآمد کرلئے گئے ہیں ، باقی 180ارب روپے کہاں گئے،یہ مثالی گورننس کی ایک اور مثال ہے۔
انہوں نے نواز شریف کے دورحکومت اور بانی پی ٹی آئی کے دور حکومت کے بجٹ اعدادوشمار پیش کئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت عوامی فلاح وبہبود، عارضی طور پر بے گھر افراد کی بحالی سمیت تمام شعبوں میں صوبے کوزیادہ فنڈز دیئے اورحال ہی میں بھی موجودہ وفاقی حکومت نے تازہ ترین فنڈ جاری کئے ہیں جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 273ارب روپے اور اس کے علاوہ 869ارب روپے جاری کئے ہیں، ضم شدہ اضلاع کیلئے 63ارب روپے ابھی جاری کئے ہیں جبکہ چھوٹی گرانٹس کے پیسے اس کے علاوہ ہیں لیکن کوئی ہسپتال تو دور کی بات کوئی ڈی ایچ کیوہسپتال بھی نہیں بنا۔
انہوں نے صوبے کی جیلوں کی سکیورٹی اورصوبے کی مجموعی سکیورٹی صورتحال پربھی تشویش کا اظہا ر کیا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں اور نہ ہی فتنہ الخوارج کی مذمت کی جارہی ہے اور نہ ہی مرمت۔ انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈا پور ہم اپ کی حکومت نہیں گرا رہے بلکہ آپ کی کرسی تین ٹانگوں پر کھڑی ہے، آپ خود تھوڑا سا ہلیں گے تو آپ گر جائیں گے، اپ کی مخالفت آپ کی اپنی جماعت کے دھڑے کررہے ہیں اور وہی آپ کو گرائیں گے اور جب حکومت گریگی تو ہم انپا جمہوری کردار ادا کریں گے۔