بیلجیئم کی پارلیمان نے مہلک بیماریوں میں مبتلاء بچوں کو مرنے کا حق دیدیا ، بل پر بادشاہ کے دستخط کے بعد بیلجیئم دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا جو کسی بھی عمر کے بچوں کے لیے ’یوتھونیزیا‘ کہلانے والے اس طریقہ کار پر عمل درآمد کرے گا

ہفتہ 15 فروری 2014 07:27

بر سلز (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔15فروری۔2014ء) بیلجیئم کی پارلیمان نے مہلک بیماریوں کے باعث ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلاء بچوں کو آسان موت دیے جانے کے بل کی منظوری دے دی ہے۔ غیر ملکی خبر رسا ں ادارے کے مطا بق اس بل پر بادشاہ کے دستخط کے بعد بیلجیئم دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا جو کسی بھی عمر کے بچوں کے لیے ’یوتھونیزیا‘ کہلانے والے اس طریقہ کار پر عمل درآمد کرے گا۔

اس کے مطابق کسی بھی عمر کے مہلک مرض میں مبتلا بیمار بچے جو شدید تکلیف سے گزر رہے ہوں اپنے والدین کی رضا مندی کے ساتھ موت دیے جانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔اس بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ بچے اس قدر مشکل فیصلہ خود نہیں کر سکتے۔بیلجیم کی ہمسایہ ریاست ہالینڈر میں یوتھونیزیا 12 برس سے زیادہ کے بچوں کے لیے قانونی ہے لیکن اس کے لیے ان کے والدین کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔

(جاری ہے)

نیدرلینڈز میں یوتھونیزیا کے لیے مریض کی درخواست پر معالج اس وقت غور کرتا ہے جب یہ مکمل سوچ بچار کے ساتھ رضاکارانہ طور کی گئی ہو اور مریض کی تکلیف درحقیقت ناقابلِ برداشت ہو جائے اور اس میں بہتری کی کوئی امید نہ ہو۔ خبر رساں ادارے کے مطابق جب پارلیمان میں یہ بل منظور کیا گیا تو عوامی گیلری سے ایک شخص نے فرانسیسی زبان میں چلا کر کہا ’قاتل‘۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس قانون کے حمایتیوں کا موقف ہے کہ اس سے انتہائی کم بچے متاثر ہوں گے جن میں زیادہ تر نوجوان ہوں گے۔ ادھر بیلجیئم کے چرچ کے رہنماوٴں نے بھی اس قانون کو غیر اخلاقی قرار دیا ہے۔گذشتہ ہفتے دعائیہ تقریب میں کیتھولک چرچ کے سربراہ آرچ بشپ اینڈر جوزف لیونارڈ نے کہا ’قانون کہتا ہے کہ نوجوان بچے معاشی یا جذباتی مسائل میں اہم فیصلے کرنے کے اہل نہیں ہوتے، لیکن اچانک وہ اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی سے کہیں کہ کوئی انہیں موت دے دے۔

‘بعض ماہرین امراض اطفال نے خبردار کیا ہے کہ اس قانون سے کزور بچوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیا واقعی ایک بچیح سے ایک انتہائی مشکل چناوٴ کی توقع کی جا رہی ہے۔گذشتہ ہفتے 160 ماہرینِ امراض اطفال نے اس قانون کے خلاف کھلے خط پر دستخط کیے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کی کوئی فوری ضرورت نہیں ہے کیونکہ جدید ادویات سے درد میں کمی ممکن ہے۔لیکن رائے عامہ کے جائزے میں اس قانون کے لیے بڑے پیمانے پر حمایت دیکھنے میں آئی جن سے سے اکثریت کیتھولک افراد کی تھی۔

متعلقہ عنوان :