پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا 2006 ء میں زلزلہ کے لینڈ سلائیڈنگ فنڈز سے 24 لاکھ کی برآمد شدہ گاڑی خریدنے ا ور وزارت پٹرولیم سے 36 کروڑ 45لاکھ کی خطیر رقم برائے تربیت ملازمین کا ریکارڈ نہ ہونے پر برہمی کا اظہار ، تفصیلات طلب، مختلف آئی پی پیز اور واپڈا سے 97 ارب وزارت کو واجب الادا ہیں،کمیٹی کو بریفنگ

جمعرات 27 فروری 2014 06:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27فروری۔ 2014ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی )کی ذیلی کمیٹی نے 2006 ء میں زلزلہ کے دوران لینڈ سلائیڈنگ فنڈز میں سے چوبیس لاکھ روپے کی برآمد شدہ گاڑی کے خریدنے جبکہ وزارت پٹرولیم سے چھتیس کروڑ پینتالیس لاکھ روپے کی خطیر رقم برائے تربیت ملازمین کا ریکارڈ نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریکارڈ کی تفصیلات طلب کرلیں اور کمیٹی کو بتایا گیا کہ مختلف آئی پی پیز اور واپڈا سے 97 ارب وزارت کو واجب الادا ہیں۔

ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پٹرولیم نے کمیٹی کو بتایا کہ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی کمپنیوں میں سرفہرست ہیں۔ وزارت کے ایک اور افسر رفیع نے کمیٹی کو بتایا کہ او جی ڈی سی ایل نے 36.9 ارب روپے ٹیکس کی ادائیگی کی ہے جبکہ اس کا مجموعی منافع 67 ارب روپے تھا ۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس سردار عاشق گوپانگ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کا آڈٹ اعتراضات برائے سال 2009-10 ء کا جائزہ لیا گیا۔

آڈٹ حکام نے کمیٹی کو مطلع کیا کہ وزارت نے معدنی تیل گیس اور پٹرولیم کی تلاش کے حوالے سے کام کرنے والے ملازمین کی تربیت پر خرچ ہونے والی 36 کروڑ 45 لاکھ روپے کی خطیر رقم کا کوئی حساب نہیں رکھا اور نہ ہی کوئی ریکارڈ فراہم کیا گیا، انہوں نے اس حوالے سے بھاری مالی بے قاعدگیوں کا خدشہ ظاہر کیا جس پر پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی نے متعلقہ وزارت کو دو ماہ کے اندر آڈٹ کروانے کی ہدایت کی۔

کمیٹی نے متعلقہ ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ کمیٹی نے پاکستان جیولوجیکل سروے کی جانب سے 2006 ء میں زلزلہ سے متاثرہ علاقے ہٹیاں بالا میں لینڈ سلائیڈنگ کے حوالے سروے کے ضمن میں واپڈا سے ساٹھ لاکھ روپے کے فنڈز میں سے خلاف ضابطہ چوبیس لاکھ روپے کی رقم‘ برآمد شدہ گاڑی کے خریدے جانے پر استعمال کئے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزارت کے اعلیٰ حکام کو سرزنش کی۔

کمیٹی نے وزارت پٹرولیم سے مالی لین دین کے حوالے سے بھی تفصیلات طلب کرلیں اس حوالے سے بحث کرتے ہوئے آڈٹ حکام نے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے پاس حساب کتاب کا ریکارڈ رکھنے کیلئے کوئی باقاعدہ نظام نہیں ۔ہے کنونیئر کمیٹی سردار عاشق گوپانگ نے اس موقع پر وزارت پٹرولیم کے حکام سے وزارت کی جانب سے دیگر اداروں اور محکموں کی طرف سے واجب الادا رقم کی تفصیلات بھی دریافت کیں جس پر آڈٹ حکا م نے بتایا کہ وزارت پٹرولیم کو ادائیگیوں کے حوالے سے کوئی آئیڈیا نہیں ہے تاہم اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پٹرولیم نے کمیٹی کو معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے مہلت طلب کی۔

کمیٹی نے وزارت پٹرولیم کی جانب سے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت کیسز کے برسوں بعد بھی فیصلے نہ ہونے پر شدید تنقید کی جس پر متعلقہ حکام نے بتایا کہ وزارت پٹرولیم کے پاس ہائی کورٹ کے کیسز نمٹانے کیلئے وکلاء موجود ہیں تاہم سپریم کورٹ کے حوالے سے زیر سماعت کیسز میں وکلاء کی خدمات مستعار لی جاتی ہیں۔ رکن کمیٹی روحیل اصغر نے کہا کہ وزارت کے کیسز سالوں سے کورٹ میں پھنسے ہوئے ہیں جن پر وزارت بھاری رقوم خرچ کررہی ہے۔

اگر آپ کے پینل میں اہل وکلاء موجود نہیں ہیں تو انہیں تبدیل کریں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر وزارت پٹرولیم مسعود احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت نے مختلف 78 ارب روپے کی ادائیگیاں ایکسپلورر کمپنیوں کو کرنی ہیں جبکہ مختلف آئی پی پیز اور واپڈا سے 97 ارب وزارت کو واجب الادا ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پٹرولیم نے کمیٹی کو بتایا کہ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی کمپنیوں میں سرفہرست ہیں وزارت کے ایک اور افسر رفیع نے کمیٹی کو بتایا کہ او جی ڈی سی ایل نے 36.9 ارب روپے ٹیکس کی ادائیگی کی ہے جبکہ اس کا مجموعی منافع 67 ارب روپے تھا ۔

متعلقہ عنوان :