سپریم کورٹ نے تاسف ملک اغواء کیس میں انٹیلی جنس افسر میجر حیدر کو تفتیش کیلئے پولیس کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے دیا،تفتیش پولیس کا کام ہے بعد میں دیکھیں گے کہ مقدمہ کہاں چلائیں‘ عدالتی ریمارکس،میجر حیدر کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کیلئے تیار ہیں ‘ وزارت دفاع،سیکرٹری دفاع 10 مارچ کو تاسف ملک کی بازیابی کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کریں‘ جسٹس ناصرالملک،تفتیش کے نام پر کیس کو غیر ضروری طور پر طول دیا جارہا ہے‘ جسٹس عظمت

جمعرات 27 فروری 2014 06:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27فروری۔ 2014ء) سپریم کورٹ کو وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی کے رہائشی تاسف ملک کے اغواء میں مبینہ طور پر ملوث ملٹری انٹیلی جنس آفیسر میجر حیدر کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے تیار ہیں ان کیخلاف آرمی ایکٹ سیکشن 94 کے تحت کارروائی کی جائے گی‘ حکومت پنجاب نے بھی آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی استدعاء کررکھی ہے جس پر سپریم کورٹ نے حا ضر سروس میجر حیدر کو پولیس کے سامنے تفتیش کیلئے پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ تفتیش پولیس کا کام ہے بعد میں دیکھیں گے کہ ملزم کیخلاف کیس کہاں پر چلایا جائے جبکہ دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے کہا ہے کہ ٹرائل بھلے آرمی ہی کررہی ہو مگر پولیس سے تحقیقات کا حق واپس نہیں لیا جاسکتا۔

(جاری ہے)

کیوں نہ سیکرٹری داخلہ کو طلب کرکے تاخیر کی وجہ معلوم کریں‘ انہوں نے ایم آئی کے وکیل ابراہیم ستی کو آرڈر لکھوانے کے دوران بار بار مداخلت کرنے پر ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ معاملہ ایم آئی کا نہیں بلکہ وزارت دفاع کا ہے‘ سیکرٹری دفاع 10 مارچ کو ہمیں بتائیں گے کہ وہ تاسف ملک کی بازیابی کیلئے کیا کررہے ہیں کیونکہ پہلے لاپتہ شخص بازیاب ہوگا پھر ٹرائل کی بات آئے گی‘ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ تفتیش کے نام پر کیس کو غیر ضروری طور پر طول دیا جارہا ہے۔

اتنے عرصے سے معاملہ چل رہا ہے کیا اب بھی وزارت دفاع سے مزید ہدایات کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے جبکہ ڈاکٹر عابدہ ملک کے وکیل انعام الرحیم نے عدالت سے استدعاء کی ہے کہ چار فوجی افسران نے عدالت کو تاسف ملک کے حوالے سے غلط قسم کی معلومات فراہم کی ہیں اسلئے ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ بدھ کے روز سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور پیش ہوئے اور کہا کہ پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر پیش ہورہے تھے مگر اب وہ اسلام آباد ہائیکورٹ چلے گئے ہیں کیونکہ ان کی ڈیوٹی وہاں پر ہے۔

آرمی نے قانون کے مطابق تفیش کیلئے لکھ دیا ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ یہ وہ آدمی ہے کہ جس نے اس آدمی کو اٹھایا ہے۔ شاہ خاور نے کہا کہ یہ الزام ہے۔ 5 مارچ تک سیکرٹری دفاع بیرونی دورے سے واپس آئیں گے تب ہی کچھ بتا سکوں گا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اس وقت تک لاپتہ کے حوالے سے کیا ہوگا۔ تاسف ملک کو کہاں سے لائیں گے۔ سیکرٹری داخلہ اور دفاع سے بات کریں اگر یہ شخص آرمی یا ایم آئی کے پاس ہے تو وہی بتاسکتے ہیں۔

شاہ خاور نے کہا کہ سیکرٹری دفاع ملک سے باہر ہیں۔سما عت 7 مارچ تک ملتوی کردیں۔ اس وقت تک برابر ہدایات حاصل کرلوں گا۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ اتنے عرصے سے معاملہ چل رہا ہے کیا اب تک ہدایات نہیں مل سکی ہیں۔ انعام الرحیم نے آرمی افسران کو حکومت پنجاب کی جانب سے لکھا ہوا خط پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کرنے کی استدعاء کی تھی۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ خط لکھنے والے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اصل معاملہ ٹرائل کا نہیں تحقیقات کا ہے۔ سیکرٹری دفاع کی طرف سے کون پیش ہورہا ہے۔ شاہ خاور نے کہا کہ میں خود پیش ہورہا ہوں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ہائیکورٹ میں درخواست دی گئی تھی۔ پہلے الزام لگایا۔ 3 نومبر 2012ء کا واقعہ ہے۔ صادق آبات تھانے میں مقدمہ درج کرایا۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اب جبکہ اس افسر کا پتہ چل چکا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیخلاف تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ ٹرائل کا معاملہ اس سے علیحدہ ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ پولیس کو نہیں روکا‘ کمانڈنگ افسر سے رجوع کریں کہ وہ اس کا بیان لینا چاہتے ہیں۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اب یہ معاملہ ایم آئی کا نہیں بلکہ وزارت دفاع کا ہے۔

عدالت نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع کو 2 دسمبر 2013ء کو خط لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے تحقیقات اور ٹرائل کیلئے آرمی ایکٹ کے تحت کرانے کیلئے رابطہ کیا تھا۔ کورٹ مارشل و دیگر معاملات میں یہ دائرہ کار آتا ہے لیکن یہ معاملہ تفتیش کو کور نہیں کرتا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اس سے معاملات خراب ہوں گے‘ تحقیقات بھی آرمی خود کرے گی۔

اس پر عدالت نے کہا کہ آپ خاموش رہیں‘ آرڈر لکھوانے دیں۔ تاسف ملک کی بازیابی کیلئے شاہ خاور کو سیکرٹری دفاع سے رابطے کیلئے وقت درکار ہے کیونکہ اس وقت وہ ملک سے باہر ہیں۔ ان حالات میں تاسف ملک کا معاملہ 6 مارچ کو ہی اٹھایا جاسکتا ہے اسلئے اس کیس کو 10 مارچ 2014ء کو مقرر کیا جائے۔ شاہ خاور نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے ملزم کو ارمی ہی حراست میں لے سکتی ہے۔ انعام الرحیم نے کہا کہ چار فوجی افسران نے غدالت کو غلط معلومات فراہم کی ہیں اسلئے ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ عدالت نے کہا کہ اس کو اگلی سماعت پر دیکھیں گے۔

متعلقہ عنوان :