شفٹوں میں کام سے دماغ کند ہو جاتا ہے: رپورٹ،غیرسماجی شفٹوں میں کام کرنے کے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی مضر اثرات سامنے آئے ہیں، ایک عشرے تک شفٹوں میں کام کرنے سے دماغ چھ سال سے زیادہ عمررسیدہ ہو جاتا ہے،اگر لوگ ان غیرسماجی شفٹوں میں کام کرنا چھوڑ دیں تو ان کا دماغ واپس نارمل حالت میں واپس آ جاتا ہے، البتہ اس میں پانچ سال لگ جاتے ہیں،سائنسدان

جمعرات 6 نومبر 2014 09:16

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6نومبر۔2014ء)سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ’غیرسماجی‘ شفٹوں میں کام کرنے سے دماغی صلاحیت کند ہو جاتی ہے۔یہ تحقیق جریدے آکیوپیشنل اینڈ انوائرنمنٹل میڈیسن میں شائع ہوئی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ایک عشرے تک شفٹوں میں کام کرنے سے دماغ چھ سال سے زیادہ عمررسیدہ ہو جاتا ہے۔اگر لوگ ان غیرسماجی شفٹوں میں کام کرنا چھوڑ دیں تو ان کا دماغ واپس نارمل حالت میں واپس آ جاتا ہے، البتہ اس میں پانچ سال لگ جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ڈیمینشیا کے علاج میں معاون ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ اس مرض کے بیشتر مریضوں کی نیند شفٹوں میں کام کرنے والوں کی طرح ادھوری ہوتی ہے۔جسم کے اندر ایک حیاتیاتی گھڑی ہوتی ہے جس کا مقصد ہمیں دن کے وقت فعال رکھنا اور راتوں کو سکون کی نیند سلانا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن اگر اس جسمانی گھڑی کے خلاف کام کیا جائے تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، جن میں چھاتی کا سرطان اور موٹاپا شامل ہیں۔

لیکن اب یونیورسٹی آف سوانسی اور یونیورسٹی آف تولوز کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اس کے اثرات دماغ پر بھی پڑتے ہیں۔فرانس میں تین ہزار لوگوں کی یادداشت، سوچ کی رفتار، اور دیگر ذہنی صلاحیتوں کا امتحان لیا گیا۔دماغ وقت کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر زوال پذیر ہوتا ہے، لیکن سائنس دانوں نے کہا ہے کہ غیرسماجی شفٹوں میں کام کرنے سے یہ عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔

جو لوگ دس سال سے زیادہ عرصے تک شفٹوں میں کام کیا کرتے تھے، تجربے کے دوران ان کے دماغ ساڑھے چھ سال زیادہ عمررسیدہ پائے گئے۔اچھی خبر یہ کہ شفٹوں میں کام کرنا چھوڑنے کے بعد دماغ کے انحطاط میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ تاہم اس کام میں پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ڈاکٹر فلپ ٹکر نے سوانسی سے تحقیق میں حصہ لیا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ ذہنی فعالیت میں بہت نمایاں کمی ہے۔

بہت ممکن ہے کہ جب لوگ مشکل دماغی کام کر رہے ہوں تو وہ زیادہ غلطیاں کر سکتے ہیں، سو میں سے ممکنہ طور پر ایک بڑی غلطی رونما ہو سکتی ہے، جس کے بہت برے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اگر ’میرے بس میں ہو تو میں کبھی بھی رات کی شفٹ میں کام نہ کروں،‘ تاہم یہ ایک ضروری برائی ہے جس کے بغیر معاشرہ نہیں چل سکتا۔انھوں نے مزید کہا: ’اس کے اثرات کم کرنے کے طریقے موجود ہیں، جن میں شفٹوں کا شیڈیول اور باقاعدہ طبی معائنہ، جس میں ذہنی کارکردگی کے ٹیسٹ بھی کیے جائیں، شامل ہیں۔

برطانیہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل کے ڈاکٹر مائیکل ہیسٹنگز نے بی بی سی کو بتایا: ’شفٹوں کے بعد دماغ کا واپس پرانی حالت میں آنا بہت عمدہ دریافت ہے کیوں کہ یہ اس سے پہلے یہ بات کسی تحقیق میں ظاہر نہیں ہوئی تھی۔