دہشت گردوں کی ہر منٹ میں 90 ٹویٹس کرتے ہیں،سروے، جنگجو گروپوں کی جانب سے ہر روز 129600 ٹویٹس پوسٹ کی جارہی تھیں، دہشت گردوں کے پانچ سو اکاوٴنٹس کو غیر فعال کردیا گیا ہے، عبدالمنعم المشاوہ

جمعرات 6 نومبر 2014 09:35

ریاض(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6نومبر۔2014ء)دہشت گرد مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ہر ایک منٹ میں اوسطاً نوے ٹویٹس کرتے ہیں۔اس بات کا انکشاف سعودی عرب میں قائم سکینہ آگہی مہم نے ایک سروے میں کیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق سکینہ آگہی مہم نے اکتوبر کے دوران مختلف جنگجو گروپوں کے ٹویٹس کا ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق شام اور عراق میں برسرپیکار گروپ شامی اسلامی لبریشن فرنٹ ،دولت اسلامی عراق وشام(داعش) اور النصرة محاذ ایک وقت میں تو خاموش تھے لیکن مشرق وسطیٰ میں حالیہ اتھل پتھل کے دوران وہ اپنے پیغامات کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے اب سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں۔

اس مہم کے سربراہ عبدالمنعم المشاوہ کا کہنا ہے کہ ان جنگجو گروپوں کی جانب سے ہر روز 129600 ٹویٹس پوسٹ کی جارہی تھیں اور دہشت گردوں کے پانچ سو اکاوٴنٹس کو غیر فعال کردیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

مشاوہ نے سعودی عرب میں قومی انٹلیکچوئل سنسرشپ کمیٹی کے قیام کی ضرورت پر زوردیا ہے جو انتہاپسندی اور دہشت گردی کی نوعیت کی حامل ٹویٹس کا سراغ لگائے،ان کا تجزیہ کرے اور اس کے بعد رہ نمائی کرے۔

انھوں نے کہا کہ ''کسی انتہا پسند کی نوعیت کا اس کی پوسٹس ،اس کے سماجی سرکل کی شناخت کے تجزیے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس کے داخلی محرکات اور تاریخ کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ ''جب ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ ٹویٹ کرنے والا شخص انتہا پسند ہے تو پھر ہم ڈائیلاگ کا ایک مناسب طریق کار اختیار کرتے ہیں اور یہ عمل طویل اور پیچیدہ ہوسکتا ہے۔

سکینہ مہم کی ویب سائٹ کو عام لوگ ملاحظہ کرسکتے ہیں اور وہ دہشت گردوں کی پوسٹس اور ان کے مہم میں کردار کے بارے میں جان سکتے ہیں۔یہ مہم سائنسی تحقیق کی بھی معاونت کرتی ہے اور وہ رابطہ کرنے والے محققین کو ڈیٹا بھی فراہم کرتی ہے۔عبدالمنعم مشاوہ کا کہنا تھا کہ ''عام لوگوں کو دہشت گردوں کی کارروائیوں سے بچانا صرف سرکاری اداروں اور حکام ہی کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ یہ میڈیا ،مساجد اور تعلیمی اداروں کا بھی فریضہ ہے۔عوامی آگہی اور رہ نمائی مہم کی اولین ترجیح ہے اور لوگوں کو یہ رہ نمائی دینا اہمیت کا حامل ہے کہ وہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کرنے کے بجائے درپیش مسئلے سے کیسے نمٹ سکتے ہیں''۔