اسلام آباد بھرکے رہائشی علاقوں میں واقع 2075مکانا ت کوکمرشل بنیادوں پر استعمال کیاجارہاہے، ناروے ،ڈنمارک ،کویت اور سوڈان کے سفارت خانے بھی رہائشی علاقے میں ہیں ،سی ڈ ی اے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش، عدالت نے مکمل معلومات کی عدم دستیابی پر سی ڈی اے حکام کوڈانٹ پلادی،ذہنی طورپر محکوم لوگوں کے سجدے طویل ہوتے ہیں ، رہائشی علاقوں میں غیر ملکی سفارت خانوں کی موجودگی کس قانون اور ضابطے کے تحت ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ،رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں کی قانون اجازت نہیں دیتا،جسٹس دوست محمد،باضابطہ کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہ دینے سے اربوں روپے کاریونیوضائع ہورہا ہے، جسٹس قاضی فائزعیسٰی کے ریمارکس

جمعرات 18 دسمبر 2014 08:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18دسمبر۔2014ء )وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے )نے اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں اور تجاوزات بارے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کراتے ہوئے کہاہے کہ اسلام آباد بھرکے رہائشی علاقوں میں واقع 2075مکانا ت کوکمرشل بنیادوں پر استعمال کیاجارہاہے ناورے ،ڈنمارک ،کویت اور سوڈان کے سفارت خانے بھی رہائشی علاقے میں ہیں ،اسلام آباد میں392سکولز، 174گیسٹ ہاؤسز،141ہوٹلز،19سرکاری دفاتراور 771نجی دفاترقائم ہیں۔

یہ رپورٹ بدھ کے رو ز چیئرمین سی ڈی اے کی جانب سے ان کے وکیل نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے روبروجمع کروائی ہے جبکہ عدالت نے مکمل معلومات کی عدم دستیابی پر سی ڈی اے حکام کوڈانٹ پلادی ،جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ذہنی طورپر محکوم لوگوں کے سجدے طویل ہوتے ہیں ،لگتاہے سی ڈی اے اپنے قواعدوضوابط پر نہیں انگریز بہادرکے قانون پر عمل پیراہے ،رہائشی علاقوں میں ہوٹلز بنے ہوئے ہیں، رہائشی علاقوں میں غیر ملکی سفارت خانوں کی موجودگی کس قانون اور ضابطے کے تحت ہے۔

(جاری ہے)

2075مکانات میں تجارتی سرگرمیاں کب سے کی جارہی ہیں اور ان کی کس نے اجازت دی ہے؟ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ون ونڈوکے تحت لوگوں کی درخواستیں وصول کی جاتی ہوں اور ان کا ریکارڈ نہ رکھاجاتاہو،کیاسی ڈی اے نے کوئی بابورکھاہواہے جوون ونڈوکی سہولت توفراہم کرتاہے مگر اس کاکوئی ریکارڈنہیں رکھتا،جسٹس دوست محمدخان نے ریمارکس دیے کہ کیاہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی ہے یاحکمرانی کاقانون ہے ،رہائشی علاقوں میں کمرشل اور کمرشل علاقوں میں رہائشی سرگرمیوں کی قانون اجازت نہیں دیتاپھر یہ سب اسلام آباد میں کیسے ہورہاہے؟ جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ سی ڈی اے کی جانب سے باضابطہ کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہ دینے سے اربوں روپے کاریونیوضائع ہورہاہے۔

انھوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روزدیے ہیں ،سماعت شروع ہوئی توجسٹس جواد ایس خواجہ نے سی ڈی اے کی جانب سے پیش ہو نے والے ڈپٹی ڈائریکٹر بلڈنگ کنٹرول سے پوچھاکہ اب تک اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں قائم تجاوزات بارے کتنی درخواستیں آئی ہیں اس پر مذکورہ افسر کاکہناتھاکہ انھیں درخواستوں کی صحیح تعداد اس وقت یاد نہیں ہے ون ونڈوآپریشن کے تحت درخواستیں وصول کی جاتی ہیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ برہم ہوگئے اور کہاکہ کیاکوئی بابورکھاہواہے جودرخواستیں وصول کرتاہے مگر ریکارڈ نہیں رکھتاایساتوہوہی نہیں سکتاکہ درخواستیں وصول کی جاتی ہوں اوران کاریکارڈنہ رکھاجاتاہوآپ کوآدھاگھنٹہ دیاجاتاہے آپ جائیں اورتمام تر تفصیلات لے کرعدالت میں پیش کریں ہمارے تمام سوالات کے جوابات بھی دیناہوں گے بعدازاں دوبارہ سماعت کے دوران عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی اور بتایاگیاکہ بعض گلیوں کوپولیس نے سیکورٹی کی وجہ سے بند کررکھاہے جس میں میریٹ ہوٹل سمیت دیگر دفاتر اور ہوٹلز بھی شامل ہیں بعض سرکاری اداروں کی حساسیت کی وجہ سے بھی سیکورٹی کی وجہ سے رکاوٹیں رکھی گئی ہیں تاہم اس حوالے سے بھی کوشش کی گئی ہے کہ عام لوگوں کو کم سے کم تکلیف کاسامناکرناپڑے ،سی ڈی اے کے وکیل حافظ حفظ الرحمان نے عدالت کوبتایاکہ رہائشی علاقوں میں سفارت خانون کی جانب سے کی گئی کمرشل سرگرمیوں یاتجاوزات بارے ہم توکچھ نہیں کرسکتے ہم شکایات دفتر خارجہ کوارسال کردیتے ہیں ،بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت سولہ جنوری 2015تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست کوہدایت کی ہے کہ وہ سی ڈی اے کی رپورٹ کی روشنی میں اپناجواب سپریم کورٹ میں داخل کریں۔