کراچی میں پہلی بار دیکھا کہ خیر کے نام پرشر کیا جارہا تھا،شر پھیلانے والے لوگوں کے لئے پیغام ہے کہ وہ خیرکو خیر رہنے دیں اور شر کو شر سمجھیں؛ڈی جی رینجرز سندھ،کراچی میں اتنی پرامن حیران کن عیدقربان پہلی مرتبہ دیکھی ،سوشل میڈیا پر رینجرز کی جانب سے تشدد کے حوالے سے آج کل زیرگردش کلپ2005کا تھا ؛ میجر جنرل بلال اکبر

جمعہ 2 اکتوبر 2015 08:53

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2اکتوبر۔2015ء) ڈائریکٹر جنرل پاکستان رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے کہا ہے کہ کراچی میں پہلی بار دیکھا کہ خیر کے نام پرشر کیا جارہا تھا،شر پھیلانے والے لوگوں کے لئے پیغام ہے کہ وہ خیرکو خیر رہنے دیں اور شر کو شر سمجھیں، اتنی پرامن حیران کن عیدقربان پہلی مرتبہ دیکھی ،سوشل میڈیا پر رینجرز کی جانب سے تشدد کے حوالے سے آج کل زیر گردش کلپ2005کا تھااورپاکستان رینجرز نے اس کلپ کی 2005میں ہی تحقیقات کرکے ملوث سپاہیوں کو سزادی تھی،ہم اپنی فورس کو جھگڑالو قسم کا لشکر بننے نہیں دیں گے بلکہ اسکا نظم وضبط قائم رکھیں گے،پاکستان رینجرز کا یہ وطیرہ نہیں کہ وہ کسی پر ظلم یا جبر کرے،مجھے اس جھوٹے وڈیوکلپ پر افسوس ہے،اس وڈیوکلپ کے بارے میں اس وقت کی قومی اسمبلی میں باتیں ہوئیں اوراس کلپ کے خلاف یعنی رینجرز کے حق میں سب سے زیادہ ڈاکٹر فاروق ستار بولے تھے۔

(جاری ہے)

فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (فباٹی)کے سالانہ عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پاکستان رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے کہا کہ کر اچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا چاہے25سال بھی لگ جائیں،کراچی میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے کہ "سیٹنگ ہوگئی"تو بائی کوئی سیٹنگ نہیں ہوئی،ہم صرف اللہ کے ساتھ سیٹنگ چاہتے ہیں۔

ہم بہت سے معاملات افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبرنے کہا کہ اتنی پرامن حیران کن عیدقربان پہلی مرتبہ دیکھی ہے،اس لئے کہ عیداوراس سے منسلک کی خوشیاں پیچھے رہ گئی تھیں ،کچھ لو گوں کیلئے عید الاضحی کا مقصد صرف جانوروں کی زیادہ سے زیادہ کھالیں اور ریونیو جمع کرناتھی، گزشتہ سالوں میں اربوں روپے کی کھالیں ان لوگوں کے قابومیں آجاتی تھیں لیکن اس بار جب شائد 5سے7کروڑ روپے کی کھالیں ہاتھ آسکیں تو سوشل میڈیا پر 10سال پہلے کا وڈیوکلپ2015میں چلاکر دکھایا گیا,رینجرز دوسال سے آپریشن کررہی ہے اگر کچھ دکھانا ہی ہے تو اس آپریشن کے حوالے سے کچھ دکھایا جاتا،ہم غلط بات کا دفاع نہیں کریں گے اور اگر غلطی ہوئی تو اسے درست کریں گے، انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایک کلپ چلایا گیا جس میں دکھایا گیا کہ رینجرز کے جوان کچھ نوجوانوں کی بری طرح سے پٹائی کررہے ہیں،یہ کلپ صرف اس لئے دکھایا گیا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ عید امن سے گزر گئی،حقیقت یہ ہے کہ اس شہر میں اس بار سب سے زیادہ قربانی کے جانور فروخت ہوئے،قربانی کے جانوروں کی کم سے کم چھینا جھپٹی ہوئی اور کاروبار اچھا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم کے ایک رہنماآصف حسنین نے نجی چینل پرجذباتی انداز میں کہا کہ کراچی کے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر تشدد کیا جاتا ہے اور لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے،آنکھیں کاٹ دیں اور بھنویں کاٹ دیں،وغیرہ وغیرہ،،۔انہوں نے اپنی اس بات کو جذباتی رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی اور زور لگایا مگر رونا نہ آیا،میں تاجربرادری کے توسط سے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم90پر آپریشن کرنے گئے اور دو سے ڈھائی گھنٹے آپریشن کیا،وہاں سے124غیرقانونی ہتھیار برآمد کئے اور88افراد گرفتار کئے،ہمارے ایم کیوایم کے بھائی برآمدشدہ ہتھیاروں کے لائسنس دور سے ہمیں لہرا لہرا کر دکھاتے تھے،جتنے لوگ بھی اس وقت لائسنس دکھا رہے تھے ہم نے انہیں نہیں پکڑا،ہمیں124کے بجائے105لائسنس دیئے گئے جنکی ہم نے وزارت داخلہ سے تصدیق کرائی تو 105میں سے صرف51ہتھیاروں کے لائسنس کی تصدیق ہوئی اور باقی لائسنس کی تصدیق ہی نہ ہوسکی۔

تمام ہتھیار ممنوعہ بور کے تھے،خورشید بیگم میموریل ہال کی چھت پرکمرے کو کوت بنایا گیا تھا جیسے فوج یا پولیس کے کوت آرگنائز کئے جاتے تھے،اس طرز کے شیلف الماریوں میں بناکر بڑے بڑے ہتھیار رکھے گئے تھے،124 بھاری ہتھیار تھے جبکہ35 بھاری ہتھیار انکے ایم این اے اور ایم پی ایز کے نام پرجاری کئے گئے تھے،اسپیشل فورسز کے زریاستعمال ہتھیار انہوں نے اپنے نام کروارکھے تھے جبکہ ایک ایسی رائفل بھی خورشید بیگم ہال کی چھت سے نکلی جو1500میٹر پر فائرکرتی تھی اور اسکے ساتھ دوسرا فرد ٹیلی اسکوپ لگا کر دیکھتا تھا، آخرخورشید بیگم کی چھت سے1500میٹر پرکس کو گولی مارنی تھی۔

اس کے علاوہ اسپیشل فورسز کے زیراستعمال رائفلیں 5،انہیں لائسنس کیسے ملے، جرمن اسپیشل فورسز کی دور تک مار کرنے والی رائفلیں پانچ ایم پی ایز اور ایم این ایز کے نام پرتھیں تو سوال یہ ہے کہ انکے لائسنس انہیں کیسے ملے۔انکا کہنا تھا کہ کراچی کا ہرفرد امن چاہتا ہے،ہم آپریشن کراچی کے امن کیلئے اپنا فرض ادا کررہے ہیں،اگر آپریشن میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہوتو بزنس کمیونٹی ہمیں تجاویز دے،لوگوں کو چاہیئے کہ غلط کے خلاف بولیں،کراچی میں رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن ہے اور یہ کبھی کامیاب نہ ہوتااگر کراچی کے شہریوں میں سے کچھ لوگوں نے ہمارے ساتھ تعاون نہ کیا ہوتا۔

ڈی جی رینجرز نے کہا کہ لیگل ایڈ کمیٹی پر کھالوں سے حاصل ہونے والی رقم خرچ کی جائے گی تاکہ یہ عدالتوں سے مجرموں کو بچا سکیں اورجب کوئی انکے خلاف گواہی دینے کی کوشش کرے تو انہیں اور پراسیکیوٹر کو ماردیا جاتا ۔انہوں نے کہا کہ کیا یہ لوگ کراچی کے شہریوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں،کیا اس شہر کے لوگ یہ نہیں جانتے کہ پچھلے30سال میں انہوں نے عقوبت خانے بنارکھے تھے جہاں لوگوں کے جسم پر ڈرل سے سوراخ کئے جاتے تھے اور انہیں مار کر کہا جاتا کہ آج اتنی وکٹیں گرادیں،جب انکے کارکنوں کو پندرہ پندرہ سال سزا والے قیدیوں کو یہ جیل میں سپورٹ کرتے ہیں اور جب وہ انکے کام کا نہ رہے توان سے منہ موڑ لیا جاتااورکہا جاتا کہ وہ انکا کارکن نہیں ہے۔

قبل ازیں فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (فباٹی)کے سالانہ عشائیہ ٹی ڈی اے پی کے چیف ایگزیکٹوایس ایم منیر،بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی،فباٹی کے صدرجاوید غوری نے بھی خطاب کیا جبکہ ایڈیشنل آئی جی سندھ مشتاق مہر،عبدالحسیب خان،راشداحمدصدیقی،زاہد سعید اور دیگر بھی موجود تھے۔تقریب میں ڈی جی رینجرز کو شہر میں امن کے قیام پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا جو انہوں نے پولیس کے نام کرتے ہوئے مشاق مہر کو پیش کردیا۔