امریکہ نے شام میں فوجیں اتارنے کا اعلان کردیا

ہفتہ 31 اکتوبر 2015 08:53

واشنگٹن (نمائندہ اردوپوائنٹ ۔ اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔31اکتوبر۔2015ء)امریکا حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ صدر باراک اوباما نے شامی تنازعے کے آغاز کے بعد سے پہلی بار بحران زدہ ملک شام کے شمالی حصے میں واشنگٹن کے فوجی دستوں کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔واشنگٹن سے رپورٹوں کے مطابق ان امریکی فوجیوں کی تعداد 50 سے کم ہو گی اور ان کا تعلق اسپیشل آپریشنز کرنے والی امریکی فورسز سے ہو گا۔

یہ امریکی فوجی شمالی شام میں پہلے سے موجود شامی باغیوں کی ان مقامی گراوٴنڈ فورسز کے ساتھ مل کر کام کریں گے، جو دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔ اوباما انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ، جسے داعش بھی کہا جاتا ہے، کو عسکری سطح پر ناکام بنانے کے لیے صدر باراک اوباما نے یہ اجازت بھی دے دی ہے کہ ترکی میں اِنچیرلِک کے فضائی اڈے پر واشنگٹن کے A-10 اور F-15 جنگی طیارے بھی تعینات کر دیے جائیں۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ امریکی صدر نے یہ اجازت بھی دے دی ہے کہ اردن اور لبنان کو دی جانے والی فوجی امداد میں بھی اضافہ کر دیا جائے اور ساتھ ہی عراق میں وزیر اعظم حیدر العبادی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں بھی تیزی اور وسعت لائی جائے تاکہ دولت اسلامیہ کے رہنماوٴں اور ان کے نیٹ ورک کو بہتر طور پر عسکری کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا سکے۔عہدیدار نے بتایا کہ امریکی فوجی اہلکار شمالی شام میں سرگرم مقامی باغی دستوں اور داعش کے خلاف عالمی اتحاد کی کارروائیوں کے درمیان رابطے اور ان کارروائیوں کا مزید موثر بنانے کے فرائض انجام دیں گے۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق 'وہائٹ ہاؤس' کی جانب سے خصوصی کارروائیوں کے ماہر امریکی فوجی دستے کی شمالی شام میں تعیناتی کا فیصلہ شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جاری کوششوں کا حصہ ہے۔شام میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران یہ پہلا موقع ہوگا کہ امریکی فوجی دستہ کسی چھاپہ مار مہم یا مخصوص مشن کے بجائے باقاعدہ اعلانیہ طور پر وہاں تعینات کیا جائے گا۔

اوباما انتظامیہ کے عہدیدار نے مزید بتایا ہے کہ امریکی صدر نے داعش کے رہنماؤں اور نیٹ ورک کو ہدف بنانے کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ایک اسپیشل آپریشن ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز بھی منظور کرلی ہے اور امریکی حکام کو اس معاملے پر عراقی رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کرنے کی ہدایت کی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد کی داعش کے خلاف حکمتِ عملی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور شام میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا فیصلہ اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔

عہدیدار کے بقول وہائٹ ہاؤس داعش کے خلاف جاری کارروائیوں میں شدت لانے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کر رہا ہے اور پہلے سے اپنائی گئی حکمتِ عملی کے ان پہلووں پر مزید توجہ دی جارہی ہے جو بار آور ثابت ہورہے ہیں۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکہ کی شام اور عراق میں وہ تمام کارروائیاں نتائج کے اعتبار سے زیادہ بہتر ثابت ہوئی ہیں جو برسرِ زمین موجود مقامی گروہوں کے تعاون سے کی گئیں۔

عہدیدار کے بقول اس تجربے کے بعد امریکہ نے مقامی گروہوں کے ساتھ تعاون کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور اب اسے بطور حکمتِ عملی اختیار کیا جارہا ہے۔اوباما انتظامیہ کی جانب سے شام میں فوجی دستے کی تعیناتی فیصلے کو روس کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کا ردِ عمل بھی قرار دیا جاسکتا ہے جو وہاں رواں ماہ کے آغاز سے صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں حکومت مخالف باغیوں اور داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی روس کی ان کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ناقابلِ قبول قرار دے چکے ہیں۔ امریکی حکام کا موقف ہے کہ روس کے ان فضائی حملوں کا زیادہ تر نشانہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے مخالف وہ باغی بن رہے ہیں جنہیں امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی تربیت اور معاونت فراہم کرتے رہے ہیں۔امریکی حکام نے واضح کیا ہے کہ داعش کے خلاف فوجی کارروائیوں میں اضافے کے باوجود امریکہ شام کے بحران کے سفارتی حل کی کوششوں میں بھی تیزی لارہا ہے تاکہ وہاں جاری خانہ جنگی کو پرامن اور سیاسی انداز میں ختم کیا جاسکے۔

ادھر ویانا سے، جہاں شامی تنازعے کے بارے میں آج ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی ہے، کے بارے میں مبصرین نے تبصرہ کیا ہے کہ باراک اوباما نے جو اجازت دی ہے، وہ شام میں محدود تعداد میں ہی سہی، لیکن مقابلتا دیرپا بنیادوں پر ایسے امریکی زمینی دستوں کی تعیناتی کا پہلا حکم ہے، جو وہاں جہادیوں کے خلاف لڑنے والی مسلح قوتوں کے ہاتھ مضبوط بنائیں گے۔

متعلقہ عنوان :