سینیٹ اجلاس: اپوزیشن کا گیس کی قیمتوں پر حکومت پر تنقید،حفیظ بزدار کے اہلخانہ پر تشدد کیخلاف ایوان سے واک آئوٹ،ہارون اختر شامل نے ساتھ نہ دیا

حکومت نے رات کے اندھیرے میںفیصلہ کیا، شیری رحمن: حکومت کی پالیسی میں کنفوژن نظر آرہی ہے، عبدالقیوم:بہترین معاشی ٹیم کا سارا زور گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے میں لگی ہیں، جاوید عباسی پچھلی حکومت کے پانچ سالوں میں سب کچھ غلط ہونے کا تاثر درست نہیں،ہارون اختر:آئی ایم ایف کے ساتھ بیک ڈور کیا ڈیل ہو رہی ہی مصطفی نواز کھوکھر ودیگر حکومت کو معیشت بُری حالت میں ملی، پچھلی حکومت کو گیس کی قیمتوں میں گاہے بگاہے اضافہ کرتے رہنا چاہیے تھا،سیاسی مفادات کیلئے قیمتوں کو برقرار رکھا گیا،سینیٹر شبلی فراز پاکستان کے لوگ پہلے سے ہی مسائل کا شکار 55لاکھ مہاجرین کو شہریت دینا ٹھیک نہیں، کبیر شاہی :شہریت دینا کونسا گناہ ہے،محسن عزیز:خوش آئند ہیں،ستارہ ایاز،اعظم موسی خیل کا ایوان میں اظہار خیال

منگل 18 ستمبر 2018 17:37

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 ستمبر2018ء) سینیٹ میں اپوزیشن نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی قیمتوں میں اضافے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اپوزیشن نے حکومت کو فی الفور فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کردیا،حزب اختلاف کے سینیٹرز نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے سارے شعبے متاثر ہوں گے، اس اضافے کابوجھ عام آدمی کو برداشت کرنا پڑے گا،20 فیصد اضافہ کہ کر 143 فیصد اضافہ کردیا گیا،حکومت کی کشکول توڑنے کی دعوے ہوا میں اڑ گئے،حکومت اور آئی ایف کے درمیان بیک ڈور ہونے والی بات چیت کی تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں،حکومت واضح کریں کہ آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں یا نہیں سینیٹ کااجلاس منگل کو چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا۔

اجلاس کے موقع پر نو منتخب سینیٹر سرفراز بگٹی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

(جاری ہے)

ایوان بالا کے اجلاس میں مفاد عامہ کے موضوع پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق اپوزیشن لیڈر سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں143 فیصد اضافہ سراسر ناانصافی ہے،پارلیمان سے پوچھ کر فیصلے کرنے کے دعوے کرنے والوں راتوں رات گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا،حکومت پچھلی حکومت پر تنقید کرتی تھی آج خود انہوں نے وہی راستہ اختیار کیا۔

شیری رحمن نے کہا کہ منی بجٹ کا کوئی جواز نہیں تھا،کمیٹیوں میں اس پر بحث ہونی چاہیے تھیں،یہ تو صرف سودن سو لطیفے والی بات ہیں۔سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ حکومت بتائیں آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں آئی ایم ایف سے نو بلین ڈالر قرضوں کی بات چل رہی ہے،حکومت نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ حکومت کی تین چار ہفتوں کی پالیسی میں کنفوژن نظر آرہی ہے،یہ معیشت کیلئے تباہ کن ہو گی،وزیراعظم ہائوس کا ایک ایک کمرہ دکھایاجارہا ہے جو کہ سکیورٹی رسک ہے،وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کی شخصیت کے نہیں ریاستی ادارے ہیں،اجھونپڑی میں بیٹھ کر بھی شاہ خرچیاں کی جاسکتی ہے اور وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر بھی سادگی اپنائی جا سکتی ہے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ حکومت میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی والے صبح و شام کینیٹنرز پر چڑھ کر دعوے کیا کرتے تھے کہ ہمارے پاس بہترین معاشی ٹیم ہیں،گیس کی قیمیتوں میں اضافہ کرکے حکومت نے عوام پر مہنگائی کا بم گرایا ہے،10 فیصد اضافے کا نام دے کر 143فیصد اضافہ کردیا گیا،اگر پارلیمنٹ پر یقین ہوتے تو رات کے اندھیرے میں فیصلے نہیں کیے جاتے،بہترین معاشی ٹیم کا سارا زور وزیراعظم ہائوس کی گاڑیاں اور بھینسوں کو بیچنے پر لگی ہیں،وزیراعظم ہیلی کاپٹر سے جائیں یا دو گاڑیوں کے ساتھ عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،عوام کو گیس کی قیمتوںمیں اضافے سے ضرور فرق پڑے گا،حکومت فنانس بل کو فوری طور پر واپس لیں، پانی اہم مسئلہ ہے ،نواز شریف کی حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم کیلئی100ارب دے کر زمین خریدیں،عوام کو ٹرک کے بتی کے پیچھے لگادیا ہے،بیرون ملک سے ڈیم کے لیے جمع ہونے والی رقوم کی تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں۔

سینیٹر ہارون اختر نے کہا کہ پچھلی حکومت کے پانچ سالوں میں سب کچھ غلط ہونے کا تاثر درست نہیں،ہمارے دور میں مہنگائی میں نمایاں کمی اور جی ڈی پی میں اضافہ ہوا،مانیٹری کنٹرکشن سے مہنگائی کا طوفان آئے گا،حکومت گیس کے بعد بجلی کی ٹیرف بڑھانے کا سوچ رہی ہے،تین چار سیاستدانوں کا پیچھا ضرور کریں مگر اس کی آڑ میں پوری بزنس کمیونٹی کو تنگ نہ کیا جائے،ایوان کو گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بل کو مسترد کرنا چاہیے،ایمنستی سکیم کے ذریعے سوا سو ارب ٹیکس جمع ہوا۔

قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت کو معیشت بُری حالت میں ملی،1.3بلین کا گردشی قرضہ ہے،پچھلی حکومت کو گیس کی قیمتوں میں گاہے بگاہے اضافہ کرتے رہنا چاہیے تھا،سیاسی مفادات کیلئے قیمتوں کو برقرار رکھا گیا، عوام سے حقائق چھپائے گئے، اب عوام کو پورا سچ بتایا جائے گا،گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عام صارفین متاثر نہیں ہوں گے،صرف کاروباری اداروں کیلئے جائز اضافہ کیا گیا ہے،ہمیں بھی اس اضافے پر تحفظات ہیں مگر یہ کڑوگھونت پینا پڑے گا۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ لطیفے آج کے نہیں پہلے کے ہیں ،اب صرف پڑھا جارہا ہے،پچھلی حکومت نے اوگرا اور او جی ڈی سیل کی سفارشات کے باوجود قیمتیں نہیں بڑھائیں، صدر وزیراعظم کی سکیورٹی میں کمی نہیں غیر ضروری پروٹوکول میں کمی کی جارہی ہے،جو پاکستان آئے ہوئے عرصہ ہو گئے ہیں ان کو شہریت دینا کونسا گناہ ہیں۔سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ نئے پاکستان کے دعویداروں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے مدمقابل الیکشن لڑنے والے حفیظ بلوچ بزدار کے باپ اور بھائی کو گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں پولیس کے ذریعے گرفتار کروایا، کیا یہ نیا پاکستان ہی اپنے مخالفوں کے ساتھ ایسے رویے افسوناک ہے،ایوان کو اس پر آواز اٹھانا ہوگا۔

انہوں نے اس موقع پر چیئرمین کو اس واقع پر تصویر بھی دکھائیں۔سینیٹر اعظم موسی خیل نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے افغانوں اور دیگر قومیتوں کے لوگوں کو شہریت دینے کا اعلان خوش آئند ہے، اگر اس فیصلے پر عملد درآمد ہوا تو اس پر ہم انہیں شاباش دیں گے،پاکستان کی ترقی میں افغانوں کا کلیدی کردار ہیں،ہم اگرسوچ سمجھ کر فیصلے کرتے تو افغانوں کو ہماری زمین میں پناہ لینے کی ضرورت نہ پڑتی،بچوں کے بچے بھی ہوئے ہیں مگر ان کو شہریت نہیں ملی،یہ نانصافی ہے۔

سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ افغانوں سمیت دیگر اقوام کے لوگوں کو شہریت دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے، اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں،کالا باغ ڈیم پر تین صوبوں کی اسمبلیوں نے متفقہ قراردا پاس کرائیں ہیں اس پر ہمیں خود بحث نہیں کرنی چاہیے،اس کے متبادل ڈیمز تعمیر کیے جائیں۔سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ پاکستان کے اپنے لوگوں کو پانی ،رہائش اور صحت کی سہولیات کی کمی ہے، اس صورتحال میں 55لاکھ مہاجرین کو شہریت دینا ٹھیک نہیں،حکومت ان لوگوں کو باعزت اپنے وطن بھیجنے کیلئے اقدامات کریں، 35 سال تک ہم نے میزبانی کا حق ادا کیا اب ان کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے، روزانہ 25 ہزار افراد افغان سرحد کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، اس صورتحال میں دہشتگردی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں پانی 15 سو فٹ نیچ چلا گیا ہے،پہاڑی علاقے کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں،بلوچستان کیلئے پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے صرف پانچ سو ارب درکار ہیں،چیف جسٹس بلوچستان کے بھی چیف جسٹس ہیں تو اس صوبے میں پانی کے مسائل کو بھی مدنظر رکھیں،کالا باغ ڈیم پر تین صوبے اختلاف رکھتے ہیں، اس پر بحث ہی نہیں ہونی چاہیے،قومی وسائل کو بچانے کی بات کرنا غداری ہے تو یہ غداری کرتے رہیں گے،غداری کے القابات دینا ترک کرنا ہوگا، انگریزوں نے بھی ہمیں غدار کہا، وفاقی اکائیوں کا احترام کرنا ہوگا۔

اجلاس میںحکومت نے مالیاتی ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کردیں، وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے بل پیش کی۔حفیظ بلوچ بزدار کے والد اور بھائی پر تشدد کے واقعہ کی رپورٹ بھی طلب کر لی

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں