باکسنگ رنگ کے ”کنگ خان“کی کامیابیوں کا سفرجاری

Boxing Ring K King Khan Ki Kamyabiyoon Ka Silsala Jari

عامر خان مارکس میڈاناکو سخت مقابلے کے بعد ہراکر مسلسل تیسری بار ورلڈٹائٹل کا دفاع کرنے میں سرخرو پاکستانی نژاد برطانوی باکسر کیرئیر کی 25میں سے 24فائٹ میں فاتح رہے ،محمد علی کا مداح محمد علی بننے کیلئے محمد علی کے نقش قدم پر

بدھ 15 دسمبر 2010

Boxing Ring K King Khan Ki Kamyabiyoon Ka Silsala Jari
اعجازوسیم باکھری: پاکستانی نڑاد برطانوی باکسر عامر خان کی کامیابیاں کا سلسلہ جاری ہے اور وہ تیزی سے باکسنگ کے افق پر چھارہے ہیں۔24سالہ نوجوان باکسرنے گزشتے ہفتے ارجنٹائن کے مارکس میڈانا کو عالمی ویلٹر ویٹ چیمپیئن شپ کے میچ میں شکست دے کر تیسری مرتبہ اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کر کے ایک بارپھر خود کو عصرحاضر کا نمبرون نوجوان باکسر قرار دیا ۔

امریکی شہر لاس ویگاس میں ہونے والی 140پاؤنڈ ویٹ چیمپین شپ میں عامر خان نے اپنے حریف کو جارحانہ کھیل پیش کرتے ہوئے پہلے راؤنڈ کے اختتام سے 10 سیکنڈ قبل ہی گرادیا۔ پانچویں راؤنڈ میں ریفری نے میڈانا کے پوائنٹس کاٹے کیونکہ میڈانا نے اشتعال میں آکر کہنی سے وار کرنے کی کوشش کی تھی تاہم دسویں راؤنڈ میں میڈانا نے شاندار دفاع کرکے عامرپربرتری حاصل کرنے کی کوشش لیکن کنگ خان نے نام سے رنگ میں اترنے والے جوشیلے نوجوان کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے میڈانا کا دفاع بھی کمزور پڑ گیا اورعامرخان کو شاندار کارکردگی کا مظاہرہ اورڈسپلن پرعمل کرنے پر ججز اور ریفری نے 114پوائنٹس دیکر فاتح قرار دیا۔

(جاری ہے)

عامرکو اس مقابلے میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے سخت محنت کرنا پڑی اور گزشتہ دو کامیابی دفاعی فائٹ کے مقابلے میں اس بار عامر کے حریف نے سخت مزاحمت کی تاہم پوائنٹس پر وہ اپنا تاج محفوظ رکھنے میں سرخرو ہوئے۔ عامرنے اپنے کیرئیر میں اب تک 25 فائٹ لڑی ہیں جہاں انہیں صرف ایک مقابلے میں 2008ء میں کولمبیا کے پریسکوٹ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

دو سال قبل کنگ خان مقابلے کے پہلے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ ہوگئے تھے جس کے بعد انہوں نے نئے سرے سے اپنی تیاری کی اور حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے دوبارہ کامیابیوں کے سفر پر نکل پڑے ہیں۔ آٹھ دسمبر1986کو مانچسٹربولٹن میں پیدا ہونیوالے نوجوان باکسرعامراقبال خان کے والدین کا تعلق پاکستان کے شہرراولپنڈی سے ہے ۔ کنگ خان ،دی پرائیڈ آف بولٹن اور لائٹنگ خان کے عرفیت سے پکارے جانیوالے عامر خان نسیم حامد اور حربی ہیدی کے بعد وہ برطانیہ کے تیسرے سب سے کم عمر ورلڈ چمپئن ہیں۔

عامرخان کی طرح نسیم حامد اور حربی ہیدی بھی غیر انگلش باکسر ہیں ، نسیم حامد کے والدین کا تعلق یمن سے ہے جبکہ حربی ہید ی خاندان نائیجریا سے ہے تاہم ان دونوں نے بھی باکسنگ رنگ میں اعزازات برطانیہ کی جانب سے حاصل کیے ۔عامرخان کے دادا راولپنڈی کے قریب ایک گاوٴں مٹوری سے 1950 کی دہائی میں برطانیہ آئے ۔ عامر کی د و بہنیں ہیں جبکہ چھوٹے بھائی ہارون خان بھی باکسر ہیں اور ہارون نے حال ہی میں کامن ویلتھ میں پاکستان کی جانب سے برونز میڈل جیتا حالانکہ برطانوی سلیکٹر نے انہیں کامن ویلتھ ٹیم میں شامل سے انکار کردیا تھا جس کے بعد وہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے برونز میڈل جیتنے میں سرخرو رہے جبکہ ہارون خان لندن میں ہونیوالے 2012ء کے اولمپکس گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔

عامرخان کے کزن ساجد محمود انگلش ٹیسٹ کرکٹر ہیں اور وہ پاکستان کیخلاف بھی کھیل چکے ہیں۔ عامرنے گیارہ سال کی عمر سے باکسنگ کھیلنا شروع کی اور انگلش سکول ، جونئیر اے بی اے ٹائٹلز کے علاوہ 2003 میں جونیئر اولمپکس کے مقابلے میں گولڈ میڈل حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ ایک سال بعد عامر نے یورپین سٹوڈنٹ چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ جیتا۔

عامر کو اصل شہرت 2004ء کے ایتھنز اولمپکس میں ملی جہاں وہ 1976 میں کولن جونز کے بعد محض سترہ سال کی عمر میں اولمپکس گیمز میں برطانیہ کیلئے چاندی کا میڈل حاصل سب سے کم عمر اولمپک باکسر بنے ۔اس کامیابی نے نہ صرف عامر کو پہچان دی بلکہ اُس کی کارکردگی میں بھی نکھار بھی آیا اور ان کیلئے امیچور سے پروفیشنل باکسر کا خطاب حاصل کرنے کا سفربھی آسان ہوگیا۔

عامرخان نے2005 میں باقاعدہ پروفیشنل باکسنگ کی دنیا میں قدم رکھا اور بولٹن ارینا میں ڈیوڈ برلے کے خلاف اپنے پہلے پروفیشنل میچ میں کامیابی حاصل کی۔ کنگ خان بعد ازاں لائٹ ویٹ سے ویلٹر ویٹ باکسنگ کے میدان میں قدم رکھااور2006 میں رچرڈ ڈرلڈینے کے خلاف دس راوٴنڈ کے سخت میچ کے بعد میدان مارا۔ 2007 میں اپنی 21ویں سالگرہ کے موقع پر کامن ویلتھ گیمز میں لائٹ ویٹ ٹائٹل کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے عامر ایک بار پھر یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ آج کے دور کے بھی محمد علی ہیں اور مستقبل کے محمدعلی بننے کیلئے بھی وہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

ایک سال بعد”پرائیڈ آف بولٹن “ ڈبلیو بی او ورلڈ لائٹ ویٹ مقابلے کے ساتویں راوٴنڈ میں کرسٹجین سین کو شکست دے کر لائیٹ ویٹ باکسنگ میں نمبر دو کی پوزیشن پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔ اسی سال جون میں عامر آئرش باکسر مائیکل گومیز کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے جس کو انہوں نے اپنے کیریئر کا ’ریورس گیر’ قرار دیکر اپنے حریفوں کیخلاف ایک طرح کی چال کھیلی کہ وہ عامر کیخلاف رنگ میں اترنے سے پہلے کوئی خاص حکمت عملی نہ اپنائیں اور جب رنگ میں عامر ان کے سامنے خطرناک روپ اختیار کرے تو وہ دفاعی تدبیروں کی الجھن میں ناک آؤٹ ہوجائیں ، ماضی میں یہ ہتھیار محمد علی اپنایا کرتے تھے تاہم محمد علی نے جب پوری دنیا پر راج کرلیا تو ہر مقابلے سے قبل وہ بیان بازی سے حریف باکسر کو پہلے ہی منٹ میں چت کرنے کے دعویٰ کرتے تھے جس کو بعد ازاں وہ سچ بھی ثابت کردیا کرتے تھے۔

عامر کا ”ریورس گیر“ہتھیار بھی کارآمد ثابت ہوا اور دسمبر 2008 میں اوئسن فیگن کو شکست دے کر ڈبلیو بی اے انٹرنیشنل لائٹ ویٹ ٹائٹل جیت کر عامرعالمی باکسنگ میں دوبارہ چھاگئے ۔ان کی کامیابیوں کا سلسلہ اگلے سال بھی جاری رہا اور 2009 میں انہوں نے ویلٹر لائٹ ویٹ کا ورلڈٹائٹل جیت کر محض 22 سال کی عمر میں یہ اعزاز حاصل کرنے والے برطانیہ کے تیسرے سب سے کم عمر چیمپئن بن کر سب کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔

مانچسٹر ارینا میں ہونے والے ورلڈ ٹائٹل مقابلے میں عامر خان نے یوکرین کے 34 سالہ اینڈرسن کوئنٹک کو 12 راوٴنڈ پر مشتمل فائٹ میں عامر خان نے آخری راؤنڈ میں سنسنی خیزمرحلے کے بعد112کے مقابلے میں 117 پوائنٹس سے کامیابی حاصل کی، 45منٹ کی اس فائٹ میں مانچسٹر ایرینا نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا اور جب عامر خان کو فاتح قرار دیا گیا تواس کے حمایتی خوشی سے دیوانے ہوگئے اور انہیں ایک بڑے جلوس کی شکل میں مانچسٹر سے بولٹن لایا گیا ۔

اُسی سال کنگ خان نے پندرہ مئی کو امریکہ میں میڈیسن سکوائر میں پولی میلگناگی کو گیارہویں راوٴنڈمیں شکست دے کر اپنے ورلڈٹائٹل کا شاندار طریقے سے دفاع کیا۔عامر خان کے کیرئیر کی سب سے یاد گار فائٹ دوسری مرتبہ عالمی چیمپئن شپ کے مقابلے میں اپنا اعزاز کا کامیاب دفا ع ہے ۔برطانوی شہر نیو کاسل میں ہونے والے اس مقابلے میں عامر خان کو فتح حاصل کرنے میں صرف 76 سیکنڈ لگے ۔

امریکہ کے دمیتری سالیتا کو پہلے ہی راوٴنڈ میں ناک آوٴٹ کر کے عامر نے ایک بار پھر اپنی برتری ثابت کی ،کنگ خان نے مقابلہ شروع ہوتے دسویں سیکنڈ میں دمیتری کو لگاتار دائیں مکے کا نشانہ بنایا جس سے وہ رنگ میں گر گئے ۔ کاوٴنٹ ڈاوٴن کے دوران دمیتری ایک مرتبہ اٹھنے میں کامیاب تو ہوئے لیکن ان کی ٹانگوں نے ان کا ساتھ دیا اور وہ لڑکھڑا کر گر گئے اس پر ریفری نے مقابلہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عامر خان کو فاتح قرار دے دیااور اب گزشتہ ہفتے مسلسل تیسری بار عامر نے میڈانا کیخلاف کامیابی حاصل کرکے اپنے ٹائٹل کا کامیاب دفاع کیا ، شکست کے بعد میڈانا نے عامر کو ری میچ کیلئے چیلنج کیا تاہم عامر نے ابھی تک چیلنج قبول نہیں کیا ۔

عامر خان پروفیشنل باکسنگ کے ساتھ چیرٹی ورک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں وہ زلزلے اور سیلاب کی تباہی سے متاثرہ پاکستانی بہن بھائیوں کیلئے دو بار امداد لیکر پاکستان آچکے ہیں جبکہ گزشتہ برس وہ کراچی میں ہونیوالی بینظیر انٹرنیشنل باکسنگ چیمپئن شپ میں بھی بطور مہمان خصوصی شرکت کرچکے ہیں۔عامرخان کی کامیابیوں پر پاکستانی شائقین کو بے حد خوشی ہوتی ہے کیونکہ عامرگوکہ برطانیہ کی جانب سے رنگ میں اترتے ہیں تاہم ان کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے اور خود عامر رنگ میں اترتے وقت بھی اپنے آپ کو نصف برطانوی اورنصف پاکستانی سمجھتے ہیں۔

76سیکنڈمیں اپنے اعزاز کے دفاع کے موقع پر عامر کی کیٹ کی ایک سائیڈ پر برطانیہ اوردوسری جانب پاکستان کا جھنڈا بنا ہوا تھا جس سے اس کی پاکستان سے وابستگی کا واضح ثبوت ہے۔ اپنے کیرئیر کی 25میں سے 24فائٹ میں فاتح رہنے والا محمد علی کا مداح محمد علی بننے کیلئے محمد علی کے نقش قدم پرچل رہا ہے اور ہم دعا گو ہیں کہ وہ مستقبل کا محمد علی بنے۔

مزید مضامین :