کرکٹ کی کپتانی،راجہ رانی کی کہانی

Cricket Ki Kaptani Raja Rani Ki Kahani

پی سی بی نے روز روز کی لڑا ئی سے تنگ آکر تجر بہ کا رکر کٹر ز پر پا بند ی کو فیصلہ کر لیا ان کی آپس کی لڑائیاں ایک دوسرے پر الزا مات د یکھ کر کر کٹ کے حلقے خو د حیرا ن ہیں

پیر 15 مارچ 2010

Cricket Ki Kaptani Raja Rani Ki Kahani
عینی نیازی: ایک راجہ کی کی تین رانیا ں تھیں ، راجہ ان تینو ں سے بہت محبت کرتا تھا ، ان تینوں میں ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا تھا ، تینوں ایک دوسر ے سے بڑھ کر خوبصورت بھی تھیں ،اس لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششو ں میں لگی رہتی تھیں ،وہ ایک دوسرے کی برائیوں اور سازشو ں کے ذریعے راجا کو بدگمان کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتیں تھیں ۔را جا ان کی با تیں ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ،انھیں اپنے راجا بننے میں بڑا گھمنڈ تھا ، وہ اپنی اسی سیاسی سازش لڑا واور حکومت کرومیں خودکو محفوظ سمجھتے تھے ، ایک دفعہ راجا صاحب کھانا کھا رہے تھے گلاس میں پانی نہیں تھا ، انھوں نے قریب بیٹھی رانی کو گلاس میں پانی لانے کو کہا، رانی نے اس کام کو اپنے لیے توہین سمجھا کہ وہ کیوں کوئی کام کریں ،اس نے دوسری رانی کو پا نی لانے کا کہہ دیا ، دوسری نے، تیسر ی کو، اس پر راجہ نے غصے سے گلاس زمین پر پٹخ دیا اورکہا ”میں رانی تو رانی کون بھرے پانی“ یہ کہانی ایک ضرب الا مثل بن گئی اور آج یہ ضرب الامثل مجھے اپنی کرکٹ ٹیم کی حالت دیکھ کر یادآگئی۔

(جاری ہے)

پی سی بی نے روز روز کی لڑا ئی سے تنگ آکر تجربہ کار کرکٹرز پر پابندی کو فیصلہ کرلیا ان کی آپس کی لڑائیاں ایک دوسرے پر الزامات دیکھ کر کر کٹ کے حلقے خود حیران ہیں کہ یوسف کو خودیونس خان نے آسٹریلیا بلایا پھردو نوں رانی مطلب ہے دونو ں کھلاڑیوں کے درمیاں ناچاقی نے کہاں سے جنم لے لیا ،مگر بعد کے معاملات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اتناسادہ معاملہ نہ تھا ، ذرائع کہتے ہیں کہ محمدیوسف نے بورڈ سے کہاکہ یونس کی چھٹی کر کے ا نھیں کپتان مقررکردیاجائے وہ شائد اس با ت کو بھول گئے کہ کرکٹ کے شا ئقین ان کے آئی سی ایل جانے کے فیصلے سے کافی نالاں تھے بعد کے حالا ت نے انھیں یہ باور بھی کرادیا ، کہ ان کا یہ فیصلہ ملک وقوم کے وقار کے منافی تھا خودان کی ذات کے لیے بھی کافی نقصان دہ تھا مگر واپسی کا راستہ یو نس خان نے ہموار کیا ، بعد کے حالات میں اپنی پوزیشن پر واپس آنے کے بعد یوسف کے مطالبے پر یقینا یونس دل بر داشتہ ہوئے ہوں گے، اس طرح ان کی آپس کی دوستی میں میل آیا۔

اسکے بعد یوسف کپتان بن گئے بعد میں ایک اور سنیئر کھلاڑی شعیب ملک بھی شامل ہو گئےہیں تینوں سینئر کھلاڑی کپتان بننے کے چکر میں ٹیم کی پرفارمنس کو خراب کر رہے تھے ۔ ہماری ٹیم کے تینوں سینئرکھلاڑی کہانی کی رانیوں کی طرح اپنی حیثیت منوانے کےلیے ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوئے، ہمارے کرکٹ بو رڈ کے چیئرمین (را جہ جی)اس صورتحال سے تنگ آگئے ہیں ،کہ ایک کو کپتان بنادو تو دوسرا خراب پرفارم کرتا ہے دوسرے کو قیادت سونپو تو پہلا آف پرفارم ہوجاتا ہے ، یہ تو کرکٹ کے عام شائقین کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ بولنگ ، بیٹنگ اور فیلڈنگ کے دوران کھلاڑیو ں کا موڈ اور پرفارمنس کے کیا ایکشن ہے ، شعیب ملک کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کپتانی کے عہدے سے ہٹنے کے بعد وہ ٹیم کے لئے نہیں کھیل رہے جب کبھی ٹیم سے باہر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے وہ اچھا اسکو رکر کے اپنی جگہ ٹیم میں بنا لیتے ہیں مگر پھر پرانی ڈگر پر آجاتے ہیں ، میرے خیال میں تو ہمارے زیادہ تر کھلا ڑی اسی اندازسے کھیلتے ہیں ایک میچ میں کھلاڑی نے اچھی کارکردگی دکھائی باقی سیر یز میں آرام ہی آرام ۔

ہمارے کھلاڑی جو مراعات اور رقم ان کھیلوں سے حاصل کر تے ہیں اس میں ایسی کرپشن تو ہونا ہی ہے ۔ پہلے کھلاڑی ملک کے لیے کھیلتے تھے ان کے پاس کھیلنے کا سامان ، یورنیفا رم تک ڈھنگ سے نہ ہوتا تھا وہ پھٹے ہو ئے جوتے اور اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے اسٹیڈیم تک پہنچتے تھے ان میں ایک پر خلو ص جذبہ وطن کی محبت کا ہوتا تھا ،ان کو اگر لاکھوں روپے کی پیش کش کی جاتی تو بھی وہ دوسرے ملک کے لیے کھیلنے پر راضی نہ ہوتے ۔

مگر آج اس کھیل کو اس قدر کمرشلا ئز کر دیا گیا ہے کہ اس کھیل کے چارم ، پیسوں کی فراوانی ، سہولتو ں نے کھلاڑیوں کے دماغ ساتویں آسماں پر پہنچا دیے ہیں ،آج وہ ملک کے لیئے نہیں بلکہ پیسوں کےلیے کھیلتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کھیل میں سازش ، اقربا پروری ، اور خود پسند ی نے لے لی ہے ۔ آج ایک ایک کھلا ڑی کے پا س ہزاروں گز پر بنگلے ، قیمتی گاڑیاں ، فارم ہاوسزز موجودہیں۔

بعض کھلاڑی اپنا سامان (کٹ بیگ ) تک خودنہیں اٹھاتے ملا زم پہنچاتا ہے ۔ان کی زندگی بڑ ے شاہانہ انداز سے گزر رہی ہے ایسے حالات میں یہ لاپروا ہوتے چلے گئے ، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیم کی قیا دت اوربورڈ کو مفادپرستوں سے دور رکھا جا ئے ۔پا کستان ایک ایساملک بن گیا ہے جہاں کہیں بھی کچھ بھی ہوجائے کوئی بعید نہیں ۔کرکٹ بو رڈ کے کھلاڑیوں پر پابند ی کے حوالے سے وزیر کھیل اعجا زجاکھرا نی نے کہا ہے کہ انھیں اس فیصلے کی بابت کو ئی خبر نہیں نہ انھیں اعتمادمیں لیا گیا ۔

یہ ٹھیک ہے کہ کھلاڑیو ں کی غلطیاں ہیں مگر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کے لاکھوں روپے ان سلیکٹرز ، بورڈ اہلکاروں اورمنیجرز تنخواہوں اور سہولتو ں کی مد میں دیے جاتے ہیں ،انھوں نے ان مسائل کو اسی وقت ختم کرنے کی کوشش کیوں نہ کی ، اگر ایک میچ میں کر کٹرزکی کارکردگی خراب تھی تو انھوں نے اس خرابی کو دور کرنے کیلئے اقدامات کیوں نہ کیے انھیں اسکا فو را احساس کیوں نہ ہوا میرے خیال سے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ اس بحران کی ذمہ داری بورڈ پر بھی عائد ہوتی ہے ، سزا کے حق دار یہ بھی ہیں کہ لاکھوں رو پے مشاہرے لیتے رہے اس وقت ٹیم کے ساتھ بورڈ بھی کئی محازوں پر پاکستان کی سبکی کرا چکی ہے ،مگر شر مندہ نظر نہیں آتی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مفادپرستو ں کو فارغ کیا جائے کھلاڑی اپنی رنجشیں اور کدورتیں ختم کریں صر ف ملک کی خاطر کھیلیں ،کپتان بننے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو جاتا ، کھیل کے میدان میں صر ف یہ دیکھا جاتا کس نے اچھا کھیل پیش کیا ،اگر ہر ایک کپتان بننے کی خواہش رکھے گا تو گلا س میں پانی کون بھرے گا ؟۔

مزید مضامین :