ہاکی چیمپئنزٹرافی کی تیاری کیلئے قومی ٹیم کا کیمپ جاری

Hockey Champions Trophy K Liye Quami Hockey Team Ka Camp Jari

طویل عرصے بعد سینئر کھلاڑیوں کو ٹیم میں واپس بلالیا گیا چیمپئنزٹرافی کی پاکستان سے منتقلی ،سپورٹس انتظامیہ کیلئے لمحہ فکریہ

بدھ 7 نومبر 2007

Hockey Champions Trophy K Liye Quami Hockey Team Ka Camp Jari
اعجاز وسیم باکھری: ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ایک زمانہ تھا جب ہاکی کی دنیا میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا اور ہر طرف قومی ٹیم کی کامیابیوں کی بازگشت سنائی دیتی تھی لیکن بدقسمتی سے ایک طویل عرصہ ہوچلا ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کوئی خاطر خواہ کارنامہ سرانجام دینے میں ناکام چلی آرہی ہے۔پاکستان نے ہاکی کی تاریخ میں چار ورلڈکپ جیتے اور پاکستان کو ہاکی کا پہلا ورلڈچیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہے۔

1994ء میں شہباز سینئر کی قیادت میں پاکستان نے چوتھی اور آخری بار ورلڈکپ جیتا تھا اس کے بعد قومی ٹیم کسی بھی بڑے ایونٹ میں وکٹری سٹینڈ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔اولمپکس ،چیمپئنزٹرافی اور ورلڈکپ جیسے اہم ایونٹ میں پاکستان نے گزشتہ 13سالوں میں کوارٹر فائنل کیلئے بھی کوالیفائی نہیں کیا جس سے پاکستانی قوم ہاکی ٹیم سے مایوس ہوگئی اورقومی ہاکی عوامی توجہ کھونے لگی ۔

(جاری ہے)

وقت کے ساتھ ساتھ کئی بار انتظامیہ میں بھی تبدیلیاں کی گئی اور ٹیم کے انتخاب میں بھی بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا گیا لیکن گنگا جوں کی توں الٹی ہی بہتی رہی۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم ہر بڑے اور چوٹے ایونٹ میں چھٹی یا پانچویں پوزیشن پر ہی اکتفا کررہی ہے اور یہ سلسلہ ایک طویل عرصے چلا آرہا ہے ۔بڑے ایونٹ تو دور کی بات ہے قومی ٹیم ایشیئن گیمز اور ایشیا کپ میں بھی وکٹری سٹینڈ تک نہ پہنچ سکی ۔

انتظامیہ نے ٹیم کی پے درپے ناکامیوں کے سلسلے کو روکنے کیلئے ٹیم میں موجود تمام سینئر کھلاڑیوں کی چھٹی کراکے ناتجریہ کار اور نوجوان ٹیم کو ایشیا کپ کیلئے دوہا روانہ کیا تھا جہاں پاکستان کو چین جیسی تیسرے درجے کی ٹیم کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرناپڑا اس تذلیل کے بعد بھی سینئر کھلاڑیوں کو واپس طلب کرینے کا فیصلہ نہ کیا گیا۔اذلان شاہ کپ بھی نوجوان کھلاڑیوں کی وجہ سے ہاتھ نکلا تو ایشیا کپ کیلئے ٹیم کے انتخاب میں کوئی بڑی تبدیل نہیں کی گئی ۔

ٹیم انتظامیہ کا شکوہ ہے کہ سینئر کھلاڑی بیرون ملک لیگ ہاکی کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں لہذا وہ قومی ٹیم میں واپسی کے اہل نہیں ہیں جبکہ کھلاڑیوں کا موقف ہے کہ مالی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انہیں ایسا کرنا پڑتا ہے اگر فیڈریشن ان کی مالی معاونت کرے اور انہیں مناسب سہولیات فراہم کرے تو وہ بیرون ملک لیگ ہاکی کھیلنے سے اجتناب کرینگے لیکن فیڈریشن اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی جس سے پاکستان ہاکی کا نقصان ہوتا رہا آخرکار چیمپئنزٹرافی 2007ء کیلئے جو پہلے لاہورمیں منعقد ہونا تھی آسٹریلوی ٹیم کے انکار کے بعد ملائیشیا منتقل ہوچکی ہے کیلئے کراچی میں کیمپ لگایا گیا اور سینئر کھلاڑیوں کو کیمپ میں مدعو کیا گیا ان میں غضنفر علی ،سہیل عباس اور محمد وسیم نے کیمپ میں شرکت کی جبکہ سابق کپتان محمد ثقلین کو دعوت دی گئی لیکن انہوں نے شروع میں تو انکار کردیا تاہم بعد میں انہوں نے میڈیاکے ذریعے کیمپ جوائن کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جواب میں فیڈریشن نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

چیمپئنزٹرافی کی تیاریوں کیلئے سینئر کھلاڑیوں کی واپسی پاکستان ہاکی کیلئے خوش آئند ہے اور اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ قومی ٹیم یکجا ہوکر کھیلے گئے اور اپنا روایتی کھیل پیش کرکے ناکامیوں کے سلسلے کو ختم کردے گی لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہے جب تمام کھلاڑی بھرپور محنت کرینگے اور فیڈریشن بھی کھلاڑیوں کے ساتھ مکمل تعاون کریگی۔قومی ٹیم کا ان دنوں کراچی میں کیمپ جاری ہے اورتمام کھلاڑی بھر پور محنت کررہے ہیں کیمپ کی نگرانی کوچ اصلاح الدین کررہے ہیں اور وہ کھلاڑیوں کی تیاری سے مکمل مطمئن نظر آرہے ہیں ۔

پاکستانی کھلاڑیوں کیلئے موجودہ چیمپئنزٹرافی کا ایونٹ ایک چیلنج کی حیثیت کا اختیار کرچکا ہے کیونکہ چیمپئنزٹرافی کی میزبانی پاکستان کے پاس تھی لیکن آسٹریلوی ٹیم اور بعض دوسرے فریقین نے ایک سازش کے تحت پاکستان سے چیمپئنزٹرافی کی ملائیشیا منتقلی میں اہم کردار ادا کیا ۔سیکورٹی خدشات کی بنا پر ایونٹ کی منتقلی پاکستان اور ہاکی کیلئے لمحہ فکریہ ہے اور اس سے قبل بھی آسٹریلوی ہاکی ٹیم آخری بار لاہور میں ہونے والی چیمپئنزٹرافی میں شرکت سے انکار کرچکی ہے ۔

یہ بات درست ہے کہ پاکستان ان دنوں بم دھماکوں کی لپیٹ میں ہے لیکن مہمان ٹیموں کویہاں زبردست سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے لیکن مسلسل دوسری بار ہاکی ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کیا جس سے فیڈریشن اور سپورٹس بورڈ کی عدم دلچسپی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ چیمپئنزٹرافی میں وکٹری سٹینڈ تک رسائی حاصل کرنا پاکستانی کھلاڑیوں پر ایک فرض کی حیثیت اختیا ر کرچکا ہے کیونکہ ایونٹ کی پاکستان سے منتقلی کے بعد پاکستان کے بارے میں ہرطرف سے انگلیاں اٹھی ہیں ایسے میں ناقدین کو منہ توڑ جواب دینے کا ایک ہی حل ہے کہ چیمپئنزٹرافی میں کامیابی حاصل کی جائے بصورت دیگر یہ سلسلہ ہمیشہ یوں ہی چلتا رہے گا.

مزید مضامین :