مرلی دھرن اور مینڈس کا جادوچل پڑا ،دوسرا ون ڈے جیت کر سری لنکا نے سیریز برابر کردی

Murli Or Mendas Ka Jadu Chal Giya

پاکستانی ٹیم نے اگلے روز شکست کھانے کی روایت برقرار رکھی ،قومی سٹار ز جیت کے نشے سے نکلنے سے قبل ہی زیرو بن گئے تیسرا ون ڈے فیصلہ کن معرکہ آرائی کی شکل اختیار کرگیا ،پنڈی ایکسپریس کا ایندھن ختم ،یونس ،آفریدی اور مصباح کی غیر ذمہ داری عروج پر

جمعرات 22 جنوری 2009

Murli Or Mendas Ka Jadu Chal Giya
اعجازو سیم باکھری : سری لنکا نے پاکستان کو دوسرے ایک روزہ میچ میں شکست دیکر تین میچز کی سیریز ایک ایک سے برابر کردی ہے۔کراچی میں کھیلے گئے میچ میں قومی ٹیم نے ماضی کی غلطیاں دہراتے ہوئے مہمان ٹیم کی جھولی میں آسان فتح پھینک دی ۔سری لنکن ٹیم کی کامیابی میں سٹار باؤلر مرلی دھرن اور اجنتامینڈس نے کلیدی کردار ادا کیا،دونوں نے اپنی نپی تلی بولنگ سے میزبان بیٹسمینوں کا وکٹ پر ٹھہرنا دوبھر کردیا ۔

مرلی اور مینڈس نے بالترتیب تین تین وکٹیں حاصل کرکے شعیب ملک اور انتخاب عالم کے تمام دعوؤں کی کلی کھول دی۔ پاکستان اور سری لنکا کے مابین دوسراایک روز میچ قومی ٹیم کی ناکامیوں کی داستان سے بھراپڑا ہے ۔گوکہ پہلے میچ میں پاکستان نے مہمان ٹیم کے خلاف بیٹنگ اور بولنگ میں عمدہ کھیل کی بدولت فتح حاصل کی لیکن روایت کے مطابق اگلے ہی میچ میں قومی ٹیم بری طرح پٹ گئی ۔

(جاری ہے)

پا کستان کرکٹ کے بارے میں یہ روایت توعام ہے کہ یہ ٹیم اتوار کو کچھ ہوتی ہے اور پھر محض ایک دن کے وقفے کے بعد منگل کو دیکھنے والوں کو حیران کردیتی ہے اور ناقدین کو عجیب کشمکش میں مبتلا کردیتی ہے کہ اتوار کے روز اپنے حریف کو روندھنے والی ٹیم پاکستانی تھی یا منگل کو کھیل کے تمام شعبوں میں اپ سیٹ شکست کھانے والی ٹیم پاکستانی ہے؟۔یہ غیر یقینی کی صورتحال گزشتہ کئی سال سے پاکستانی ٹیم کے ماتھے کا جھومر بنی چلی آرہی ہے۔

ہمیشہ کی طرح سری لنکا کے خلاف پہلے ون ڈے میں کامیابی کے بعد قومی کرکٹرز نجانے کن ہواؤں میں اڑنے لگے تھے اور اگلے روز سٹیڈ یم پہنچ کر ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔شعیب ملک نے ٹاس جیت کرپہلے فیلڈنگ کرنے کافیصلہ کیا جوکہ انتہائی شرمندگی کا باعث بنا ۔شعیب اختر کوپہلا اوور دیا گیا تو موصوف کو ابتدائی دو اوورز میں 22رنز کھانے کے انعام میں تھرڈ مین پر کھڑا کردیا گیا اور دنیا کا تیز ترین باؤلر مایوسی اور احساس ندامت کے عالم میں کھڑا اپنے ساتھی باؤلرز کے سری لنکن بیٹسمینوں کے ہاتھوں درگت بنتی دیکھتا رہا۔

جب حالات کنٹرول سے باہر ہوگئے تو شعیب ملک نے ایک بار پھر شعیب اختر کو آزمانے کافیصلہ کیا لیکن اس وقت تک پنڈی ایکسپریس کا ایندھن ختم ہوچکا تھا، شعیب اختر کے دوسرے سپیل کے4 اوورز میں مہمان بیٹسمینوں نے 23رنزلوٹے ۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ شعیب اختر دوسرے ون ڈے میں مکمل فٹ نہیں تھے جس کااعتراف کپتان شعیب ملک نے پریس کانفرنس میں بھی کیا ۔

شعیب ملک نے دبے لفظوں میں کہاکہ سپیڈمرچنٹ کو ٹیم تیسرے میچ میں تجربہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرفارمنس کی بنا پر گراؤنڈ میں اتار ا جائیگا جس کا واضح اشارہ اس جانب ہے کہ شعیب اختر کو قذافی سٹیڈیم میں نہیں کھیلا یا جائیگا تاہم یہ پاکستان ہے یہاں آخری وقت پر کچھ بھی ممکن ہے ۔ مجھے ہمیشہ یہ بات پریشان کرتی ہے کہ ہم لوگ خود کو پیش آنیوالے مسائل کا شور تو مچاتے ہیں لیکن ان کے حل میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔

پاکستان کرکٹ بورڈ اس وقت سابق نامور سٹارز سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو باب وولمر کی فلاسفی ،لاسن کی گہری سوچ اور نسیم اشرف کے فیصلوں کے سب سے بڑے ناقد تھے اور شاید انہیں آج اُسی بے جا تنقید کا ثمر ملا ہے کہ یہ لوگ بورڈ کے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں ۔اوپننگ جوڑی کا مسئلہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے دیرینہ مسئلہ ہے ۔پی سی بی کے آج کے کرتا دھرتا ہمیشہ یہ راگ الپاتے رہے کہ سلیکٹرز مستند اوپننگ جوڑی کی تلاش میں ناکام چلے آرہے ہیں اور سفارشی لڑکوں کو نوازا جارہا ہے ۔

آج اگر قومی ٹیم کے اوپنرز پر نظر دوڑائی جائے تو سلمان بٹ واحد ایسا بیٹسمین ہے جس پر ناچاہتے ہوئے بھی انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیشہ کسی ایسے نکمے اوپنر کو نتھی کردیا جاتا ہے جو پہلی اننگز اس قدر سست روی سے کھیلتا ہے کہ جیسے شاید اسے ڈر ہوکہ اگلے میچ سے ڈراپ نہ کردیا جاؤں اور اگلے میچ میں وہ واقعی گھبراہٹ کے عالم میں ڈبل فیگر میں داخل ہوئے بغیر پویلین لوٹ جاتا ہے ۔

یہ سلسلہ آج کا نہیں بلکہ گزشتہ 10سال سے پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناکامیوں کی بنیادی وجہ کے طور پر نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔قومی ٹیم کی بدقسمتی کی انتہا تو دیکھیں کہ گزشتہ چار سال میں اب تک پاکستان 22نئی جوڑیوں کے ساتھ میدان میں اترا چکاہے لیکن آج ان الفاظ کی تحریر تک کوئی بھی مستند جوڑی وجود میں نہیں آسکی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل کے ناقد اور آج کے حاکم کیونکر اس مسئلے کے حل کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں ۔

سلمان بٹ کے ساتھ خرم منظور کو بطور اوپنر کھلا یا جارہا جس کے بارے میں تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ خرم منظور کی بیٹنگ دیکھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ پاکستان کا آخری باصلاحیت اور ٹیلنٹ سے مزین اوپنر ہے ،موصوف بیٹنگ کرتے وقت اس قدر گھبرائے ہوتے ہیں کہ حریف باؤلر اسے آؤٹ کرنے میں اپنی شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور اسے مزید کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔

کیا پاکستان میں اوپنرز کھیپ ختم ہوگئی ہے ۔خرم منظورجیسے کاہل کھلاڑی پر انحصار کرنے سے قبل سلیکشن کمیٹی کو ایک نظر ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ پرفارمرزپر بھی ڈال لینا چاہیے تھی شاید اس سے کوئی بہتر اوپنر مل جاتا جسے کم از کم یہ خوف تو نہ ہوتا کہ شایداسے ڈراپ ہونے کے بعد دوبارہ جگہ ملتی بھی ہے یا نہیں ۔ان تمام سوالوں کا جواب کس لیا جائے ،کیونکہ اعجاز بٹ نے کمال مہارت سے تمام فیصلے کرنے کے بعد احتساب کے ڈر سے عہدیداروں کی میڈیا سے بات چیت پر پابندی عائد کررکھی ہے محض چیف آپریٹنگ آفیسر سلیم الطاف کو بولنے کا حق حاصل ہے لیکن وہ مذکورہ سوال کا جواب دینے کی بجائے کوئی نئی خبر سنا دیتے ہیں جس سے سانپ بھی مر جاتا ہے لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔

پاکستان اور سری لنکا کے مابین سیریز اس وقت ایک ایک سے برابر ہوچکی ہے اور فیصلہ کن معرکہ آرائی 24جنوری کو قذافی سٹیڈیم میں ہوگی ۔دوسرے میچ میں سری لنکا کی کامیابی کے پیش نظر یو ں محسوس ہورہا ہے کہ مہمان ٹیم( اپنے گراؤنڈ میں )پاکستان کوباآسانی شکست دیکر سیریز جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی۔میں قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ ورلڈکپ 1996ء میں کامیابی کے بعد سری لنکن ٹیم قذافی سٹیڈیم کو اپنا ہوم گراؤنڈ سمجھتی ہے ۔

شعیب ملک الیون کو مینڈس اور مرلی دھرن کی جادوگری سے بچنے کیلئے نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے میچ میں پاکستان نے دونوں سپنرز کو اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہونے دیا تھا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سری لنکا نے پاکستان کو جیت کیلئے ایک آسان ہدف دیا تھا لیکن دوسرے میچ میں دونوں باؤلر ز نے اپنی مرضی سے پاکستانی بیٹسمینوں کو واپسی کی راہ دکھائی اور ایک ایک کرکے تمام کھلاڑی آؤٹ ہوتے رہے اور پوری پاکستانی ٹیم 161کے قلیل سکور پر ڈھیر ہوگئی ۔

129رنز کی کامیابی کے بعد سری لنکن ٹیم کا مورال اپنے عروج کو چھورہا ہے او ر پاکستانی کرکٹرز اب ”اگلی مصیبت “سے نجاتے حاصل کرنے کیلئے پریشان دکھائی دے رہے ہیں اگر صورتحال ایسے ہی رہی اور ناقص حکمت عملی کا تسلسل برقرار رکھا گیا تو نہ صرف ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا بلکہ قومی کرکٹ ٹیم کی تاریخ میں ایک اور ناکام اور مایوس کن سیریز کا اضافہ ہوجائیگا۔

مزید مضامین :