پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک اور ذلت آمیز شکست،آسٹریلیا نے سیریز3-0سے جیت لی

Pakistan Lose Test Series

خوفزدہ چہرے،سست باڈی لینگوج ،جذبہ سے عاری ہماری ٹیم کی ناقابل معاف غیر ذمہ دارانہ کارکردگی ایسی بدترین شکستوں سے قوموں کے سرجھک جاتے ہیں ، آج پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنی قوم کا بھی سرشرم سے جھکا دیا

پیر 18 جنوری 2010

Pakistan Lose Test Series
اعجازوسیم باکھری: پاکستان کرکٹ کے مستقبل اور شائقین کرکٹ کیلئے ایک اور بری خبر کہ آسٹریلوی ٹیم نے پاکستان کوتین ٹیسٹ میچزکی سیریز میں3-0سے شکست دیکر ایک اور کلین سوئپ کردیا ہے۔ہوبارٹ میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو 231رنز کے وسیع مارجن سے شکست دیکر پاکستان کرکٹ کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دیدیا ہے۔ آسٹریلوی ٹیم کو داد دینا ہوگی کہ انہوں نے انتہائی پروفیشنل انداز میں کرکٹ کھیلی اور نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم نے کسی بھی موقع پر یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اپنے سپرسٹارکھلاڑیوں کے غیر موجودگی میں پاکستان سے نبردآزما ہیں۔

سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان کی حادثاتی شکست کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ شاید پاکستانی ٹیم ہوبارٹ ٹیسٹ میں کم بیک کرے لیکن آخری ٹیسٹ میں تو نہ صرف پاکستان کے بیٹسمینوں نے غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ کی بلکہ باؤلرز نے بھی یہاں مایوس کیا۔

(جاری ہے)

آسٹریلوی کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم میں موجود بڑے ناموں کو نہ صرف کھل کرکھیلنے سے روکے رکھا بلکہ وہ سیریز میں کامیابی حاصل کرکے اپنا مقصدبھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

پاکستانی ٹیم کی بدقسمتی کہ اس ٹیم میں لمبی اننگز کھیلنے کی صلاحیت کے حامل بیٹسمین تو موجود تھے لیکن اس سیریز میں کسی ایک بلے باز نے بھی ذمہ داری سے بیٹنگ نہیں کی اور نہ ہی کسی نے وکٹ پر ٹھہرنا ضروری سمجھا۔تمام پاکستانی بیٹسمینوں نے اپنی وکٹیں آسٹریلوی باؤلرز کو تحفوں میں پیش کیں اور بلاوجہ حریف باؤلرز کا خوف اپنے اوپر سوار کیے رکھا ۔

سڈنی ٹیسٹ کے بعد ہوبارٹ ٹیسٹ میں بھی پاکستانی ٹیم نے کھیل کے آغاز ہی میں دفاعی حکمت عملی اپنائی جو کہ ایک اور شکست کا سبب بنی،انتہائی افسوسناک امر ہے کہ قومی ٹیم نے ایک بار پھر انتہائی بزدلانہ کرکٹ کھیلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ملکی کرکٹ کو زندہ کرنے کا ایک اور موقع گنوا دیا۔ آج صبح چار بجے جب پاکستان نے آخری روز کا کھیل شروع کیا تو خرم منظور اور شعیب ملک بیٹنگ کیلئے وکٹ پر پہنچے تو اُن کی باڈی لینگوج سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ خوفزد ہ ہوں،شعیب ملک آج صبح ہونیوالی 13ویں بال پر وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے حالانکہ وہ بال آف سٹمپ سے باہر تھی لیکن سابق کپتان نے شاید محسوس کرلیا ہے کہ وہ اتنی جلدی ٹیم سے نہیں نکالے جائیں گے اور وہ اب اپنی جگہ پکی کرچکے ہیں لہذا انہوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے لہذا آخر میں جس حد تک ہوسکتی ہے مزاحمت کی جائے تاکہ دیکھنے والے محسوس کریں کہ میں کوشش کررہا ہوں۔ لیکن چونکہ یہ پاکستانی کرکٹرز کی روایت ہے کہ مضبوط حریف کے سامنے صرف تھوڑی سی مزاحمت کرکے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم نے اپنی طرف سے بھر پور محنت کی لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

شعیب ملک کا بھی یہی حال ہے ،اگر اُسے ٹیم کی کامیابی اور ملک کی عزت مقصود ہوتی ہے تو اس طرح اناڑیوں کی طرح نہ کھیلتے۔یہی سب کچھ یوسف کی بیٹنگ میں نظرآیا،عمران فرحت بھی اناڑیوں کی طرح کھیلے اورنجانے عمراکمل کو کس کی نظرلگ گئی ہے وہ بھی لگاتار دوسری اننگز میں ناکام ہوئے۔سلمان بٹ نے وہی روایتی انداز میں سنچری تو بناڈالی لیکن ٹیم کیلئے کچھ نہیں کیا صرف اپنی جگہ مضبوط کی ۔

سرفراز احمد بھی کوئی تیر نہ مار سکے اور نہ ہی ٹیم کیلئے تارے توڑ کر لاسکے۔کامران اکمل کو نکالنے اور سرفراز احمد کو شامل کرنے کیلئے جس طرح ایک مخصوص شہر کے صحافیوں نے وا ویلا مچایا ہوا تھا اُس وقت تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کامران اکمل ہی پاکستان کی ناکامیوں کا ذمہ دار ہے اور اُس کے نکلتے اور سرفراز کے شامل ہوتے ہی پاکستان جیت کے راستے پر گامزن ہوجائیگالیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

نہ تو سرفراز نے کامران اکمل سے اچھا کھیل پیش کیا اور نہ ہی پاکستان خو دکو شکست سے بچاسکا ،امید ہے ٹیم مینجمنٹ اور بورڈ کے بڑوں کو اپنی جلد بازی کا اندازہ ہوگیا ہوگا لیکن چونکہ پی سی بی کے عہدیدار سوچنے سے عاری ہیں اور آسٹریلیا میں اس وقت جو ٹیم مینجمنٹ موجود ہے اُن میں صرف وقاریونس ہی ایسے شخص ہیں جو اپنا کام خلوص نیت سے کررہے ہیں ورنہ انتخاب عالم اور عاقب جاوید وہاں پر جو محنت کررہے ہیں اُس پر تو افسوس ہی ہوتا ہے۔

کرکٹ دلیری اور حوصلہ مندی کا کھیل ہے اور کرکٹ میں ہمیشہ وہی ٹیم فاتح بن کر لوٹتی ہے جس میں اتحاد ہو اورجس ٹیم کا کپتان صرف جیت پر یقین رکھتا ہو۔آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں محمدیوسف نے متاثر کن کپتانی نہیں کی اور یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یوسف ٹیم میں سینئر کھلاڑی کے طور پر توکپتانی کرنے کے حق رکھتے ہیں مگر اُن میں ایک فائٹر اور جنگجو کپتان والی صلاحیت نہیں ہیں۔

پوری سیریز میں وہ بالکل آف کلر نظر آئے اور یوں لگا کہ جیسے وہ فرینڈلی انداز میں کپتانی کررہے ہوں۔یوسف بطور کپتان گراؤنڈ میں پرفارمنس تو نہ دکھا سکے لیکن گراؤنڈ سے باہر بھی وہ بے اختیار کپتان کے طور پر ٹیم میں ہونیوالی تبدیلیوں پر کچھ نہ خاموش تماشائی کا کردار نبھاتے رہے۔کامران اکمل کو ڈ راپ کرنے اور سرفراز کو کھلانے کے حوالے سے بھی یوسف کچھ نہ کرسکے ،وہ عمران نذیر کو ون ڈے سکواڈ میں شامل کرانا چاہتے تھے لیکن بورڈ نے اُن کی یہ بات نہیں مانی ،یوسف نے فواد عالم کو ٹیم سے ڈراپ کرنے کی سفارش کی تھی لیکن بورڈ نے اُسے دوبارہ آسٹریلیا بھیج دیا،یوسف نے محمد سمیع کو دوسرے ٹیسٹ میں شامل کرایا جہاں سمیع نے شاندار بولنگ کرکے پاکستان کو جیت کی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ،لیکن اس کے بعد نہ صرف سمیع کو تیسرے ٹیسٹ سے ڈراپ کردیا گیا بلکہ اُسے ون ڈے سیریز اور ٹونٹی ٹونٹی میچ کے سکواڈ میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔

ان تمام فیصلوں سے واضع ہوگیا ہے کہ یوسف ایک بے بس کپتان کے طور پر اس وقت ٹیم کی قیادت کررہے ہیں اور ممکن ہے کہ دورہ آسٹریلیا کے بعد یوسف کو کپتانی سے ہٹاد یا جائے ۔لیکن بورڈ اگر یوسف کو کپتانی سے ہٹانے بھی جارہا ہے تو خد ا کیلئے یونس خان کو کپتان نہ بنایا جائے کیونکہ خان صاحب کی ذاتی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ انہیں ٹیم میں شامل کیا جائے،کپتان بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔

پاکستان ٹیم کی بار بار ناکامیوں کے بعد اب کرکٹ بورڈ کیلئے ضرور ی ہوگیا ہے کہ ایمانداری سے اورصرف اور صرف پاکستان کرکٹ کے مفاد کو مدنظررکھ کر فیصلے کیے جائیں تاکہ پاکستان کرکٹ کی کشتی ڈوبنے سے بچائی جاسکے ۔اب وقت آگیا ہے کہ کرکٹ بورڈ دل بڑا کرے اور ناکام ترین کھلاڑیوں سے نجات حاصل کرے،فیصل اقبال ، خرم منظور،مصباح الحق ، شعیب ملک اورفواد عالم سے فوری طور پر نجات حاصل کی جائے ،رہی بات سلمان بٹ اور عمران فرحت کی تو انہیں آخری موقع کے طو رپر ون ڈے سیریز میں آزمایا جائے اور اگر یہ وہاں بھی ناکام رہے تو دونوں کو فار غ کردینا چاہئے کیونکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کسی کی جاگیر نہیں ہے کہ وہ ایک بار ٹیم میں آگیا تومالک بن گیا ۔

قومی ٹیم سے عوام کی جذباتی وابستگی ہے اور قوم اس طرح بار بار اپنی ٹیم اور اپنے ملک کی بے عزتی ہوتے ہوئے برداشت نہیں کرسکتی۔جو کھلاڑی قوم کے جذبات کی قدراور ملک کی عزت کی پاسداری نہیں کرسکتا اُسے ٹیم میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ہوبارٹ ٹیسٹ میں 231رنز سے شکست اور سیریز میں 3-0کی کلین سوئپ ناکامی کے باوجود بھی پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ کوئی بھی شخص مستعفی نہیں ہوگا کیونکہ اُن کیلئے یہ معمولی سی بات ہے کیونکہ کھلاڑیوں سمیت سب کا ایک ہی ٹارگٹ ہے کہ پیسے کمائے جائیں ،لہذا اب ہماری یعنی قوم کی ذمہ داری ہے کہ ان نااہل اور پاکستان کرکٹ کے نام پر پیسے کمانے اور ملک کی عزت کوہرجگہ خاک میں ملانے والے مفاد پرست لوگوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی تاکہ پاکستان کرکٹ کو چلانے کیلئے صحیح لوگ آگے آسکیں اور پاکستانی ٹیم ہرا گلی سیریز میں شکست کھانے کے بھنور سے نکل آئے ۔

قارئین:شکست کھانے کے بعد انداز ہوتے ہیں ،ٹیسٹ میچ میں231رنز سے ناکامی ذلت آمیز شکست تصور کی جاتی ہے اورجبکہ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو سیریز میں3-0سے کلین سوئپ جیسی ناقابل برادشت شکست ہوئی ہے اور ایسی بدترین شکستوں سے قوموں کے سرجھک جاتے ہیں اور آج پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنی قوم کا بھی سرشرم سے جھکا دیا ہے۔

مزید مضامین :