پاکستان بمقابلہ سری لنکا ، آخری ٹیسٹ آج سے شروع بمقابلہ

Pakistan Sri Lanka 3rd Test Starts Today

سیریز ہارنے کے بعد ساکھ بچانے کیلئے قومی ٹیم کے پاس نادر موقع ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے گروپ بندی کی سخت تردید ،جاوید میاندا د نے گروپ بندی اور عمران خان نے پلیئرز پاور کی دا غ بیل ڈالی

پیر 20 جولائی 2009

Pakistan Sri Lanka 3rd Test Starts Today
اعجازوسیم باکھری: پاکستان اور سری لنکا کے مابین تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کا آخری ٹیسٹ میچ آج سے کولمبومیں شروع ہورہا ہے ، میزبان ٹیم سیریز کے ابتدائی دومیچز جیت کر ٹرافی اپنے نام کرچکی ہے اور یہ پہلا موقع ہے جب سری لنکا نے اپنی سرزمین پر پاکستان کو کسی ٹیسٹ سیریز میں شکست دی ہے۔فیصلہ کن میچ کیلئے دونوں ٹیموں میں تبدیلیوں کا امکان ہے بالخصوص سری لنکن ٹیم میں آخری ٹیسٹ کیلئے فاسٹ باؤلر چمنداواس کو طلب کیا گیا ہے اور اُن کی میچ میں شرکت کے 90فیصد چانس ہیں جبکہ پاکستان کی جانب سے تیسرے ٹیسٹ میں فیصل اقبال اورعبدالرزاق کو موقع دیا جاسکتا ہے کیونکہ لگاتار دونوں ٹیسٹ میچز میں پاکستانی بیٹنگ لائن اپ ایک دم فلاپ ہوئی اور پاکستان نے جیتے ہوئے میچز میزبان ٹیم کی جھولی میں ڈال دئیے ، بیٹنگ لائن اپ کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے آج کے میچ میں شعیب ملک یا مصباح الحق میں سے کسی ایک کو ڈراپ کرکے فیصل اقبال کو موقع دیا جاسکتا ہے جبکہ بولنگ میں عبدالرؤف کی جگہ رزاق کو لایا جاسکتا ہے اور ممکن ہے دانش کنیریا کو بھی گراؤنڈ میں اتارجائے کیونکہ وہ گزشتہ دونوں ٹیسٹ میچز میں ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے تاہم یہ سب ٹیم مینجمنٹ پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مینجمنٹ کو ٹیم میں ہرصورت تبدیلی لانا ہوگی کیونکہ گزشتہ دو میچز کی چاروں اننگز میں قومی ٹیم کے بڑے بڑے نامکمل طورپر ناکام ثابت ہوئے جس کا خمیازہ پاکستان کو سیریز سے ہاتھ دھونے کی صورت میں بھگتناپڑا۔

(جاری ہے)

آج سے سیریز کا آخری معرکہ شروع ہورہا ہے اس کے بعد پانچ ون ڈے میچز کی سیریز ہونی ہے جہاں میزبان سری لنکن ٹیم ایک بار پھر پاکستان کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے البتہ شارٹ اوور کی کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کا ریکارڈ قدرے بہتر ہے لیکن یونس خان الیون کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ٹیم میں تسلسل کی کمی ہے ، ایک اننگز میں بیٹنگ کامیاب ہوتی ہے تو باؤلرز ساتھ نہیں دیتے اگر باؤلرز حریف ٹیم کو کم سکور تک محدود رکھتے ہیں تو بیٹنگ فلاپ ہوجاتی ہے اور اگر ایک میچ میں پاکستان کامیاب ہوجاتاہے تو اگلے میچ میں تاریخ کی بری ترین شکست ہماری منتظرہوتی ہے۔

اسی غیریقینی صورتحال اور تسلسل کی کمی نے پاکستانی ٹیم کو ناقابل اعتبار بنا دیا ہے حالانکہ پاکستان کو ہمیشہ سے اچھے فاسٹ باؤلرز کا ساتھ حاصل رہا ہے اور بیٹنگ میں بھی وکٹ پر قیام کرنے والے بلے باز میسر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری ٹیم کارکردگی میں تسلسل پیدا کرنے میں ناکام چلی آرہی ہے اور کوئی بھی کپتان یا چیئرمین اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکا اور یہ سلسلہ تاحال جارہی ہے جس کے پیش نظر اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان تیسرا ٹیسٹ ہارے گا یا جیتے گا کیونکہ پہلے دونوں ٹیسٹ میچز میں پاکستان ایک اچھی پوزیشن پر آنے کے باوجود میچ ہار گیا اور تیسرے ٹیسٹ میں بھی ممکن ہے وہی غلطیاں دہرائی جائیں لیکن اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہ ٹیم کسی بھی وقت کھیل پر اپنی گرفت مضبوط کرکے حریف ٹیم کیلئے مشکلات پیدا کردیتی ہے اسی لیے آخری ٹیسٹ میچ کیلئے کوئی بھی پیشگوئی کرنا غلط ہوگا البتہ ہاں تاریخ میں پہلی بار سری لنکن سرزمین پر ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد پاکستان کیلئے اپنی ساکھ اور اعتماد کی بحالی کیلئے یہ نادر موقع ہے کہ آخری ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی جائے۔

اگرپاکستان آخری ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو اس سے ون ڈے سیریز سے قبل نہ صرف ٹیم میں جان پڑ جائے گی بلکہ پاکستانی ٹیم کے بارے میں یہ قائم ہونیوالی رائے کہ یہ ٹیم صرف ٹونٹی ٹونٹی اور ون ڈے کرکٹ میں ہی فتوحات حاصل کرسکتی ہے کافی حد تک تبدیل ہوجائے گی لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوگا جب ہمارے بیٹسمین ذمہ داری اور ایمانداری سے کھیلیں گے کیونکہ اس وقت ہرطرف یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ ٹیم میں گروپ بندی ہورہی ہے اور کھلاڑی دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں تاہم ٹیم مینجمنٹ نے اس طرح کی تمام خبروں کی سختی سے تردید کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی گروپنگ کی سرسراہٹ سنائی دے رہی ہے۔

گروپ بندی اور پلیئرز پاور پاکستانی ٹیم کا ہمیشہ سے حصہ رہے ہیں۔ماضی میں عمران خان اور جاوید میانداد کی ناچاکی نے گروپ بندی کو سب سے زیادہ ہوا دی اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی تھی کہ ایک ٹولا دوسرے ٹولے نیچا دیکھنے کیلئے گراؤنڈ میں بری سے بری کارکردگی پیش کرتا تھا تاہم اس دور میں بورڈز کے چیئرمین اتنے مضبوط نہیں ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے پلیئرز پاور کو فروغ ملا اور حالات اس حد تک بگڑجاتے تھے کہ بھاری ٹولا جس کی ہمیشہ سے عمران خان قیادت کرتے تھے اپنی من مانی کرتا تھا اور کمزور ٹولے کو سائیڈ لائن پر بٹھا دیا جاتاتھا ، عمران خان جب اپنی مرضی کی ٹیم سلیکٹ کرکے گراؤنڈ میں اترتے تو وہ مخالفین کے منہ بندکرنے کیلئے ہرمیچ میں جیت سے کم کسی بھی چیز پر اکتفا نہیں کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ماضی میں بے شمار فتوحات حاصل کیں اور ہر بڑی ٹیم کو اُس کی سرزمین پر مات دی۔

آج کے دور میں بھی پاکستانی ٹیم میں گروپ بندی عروج پر ہے البتہ پچھلے کچھ عرصے سے پلیئرز پاور بہت کم دیکھنے کوملی ہے کیونکہ پی سی بی نے انضمام الحق کی آمریت کے بعد شعیب ملک جیسے ”جی سر“کھلاڑی کو کپتان مقرر کرکے پلیئرز پاور کی پاور کو ختم کردیا مگر یونس خان کے کپتان بننے کے بعد ایک بار پھر جہاں یونس خان کے خلاف گروپ بندی ہورہی ہے وہیں یونس خان نے پلیئرز پاور کے زور پر اپنی مرضی سے کھلاڑی منتخب کرنا شروع کردئیے ہیں یوں ایک بارپھر پاکستانی ٹیم گراؤنڈ میں اچھا کھیل پیش کرنے میں ناکام ہورہی ہے ۔

بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ پاکستان نے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیت لیا ہے لہذا گروپ بندی کی باتیں غیر سنجیدہ ہیں لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ سلمان بٹ ، شعیب ملک اور مصباح الحق ایک گروپ کی شکل اختیار کرچکے ہیں جس نے ٹیم پر منفی اثرات مرتب کرنا شروع کردئیے ہیں ، محمد یوسف کے ٹیم میں آنے سے بیٹنگ لائن اپ تو کافی مضبوط ہوئی ہے لیکن شعیب ملک اور یوسف کا ایک ساتھ کھیلنا گروپ بندی کو ہوا دے رہا ہے ،گوکہ یہ بات تسلیم کرلینے میں کوئی قباحت نہیں کہ یونس خان گروپ بندی کا حصہ نہیں ہیں لیکن جب اُن پر کسی کھلاڑی کو ڈراپ کرنے کا پریشر پڑتا ہے یا کوئی کھلاڑی ناکام ہوتا ہے تو یونس خان پلیئرز پاور کے بل بوتے اُس کھلاڑی کو ٹیم سے ڈراپ نہیں کرتے اگر وہ جوکھلاڑی اچھا نہیں کھیلتا اُسے کو ڈراپ کرنا شروع کردیں تو سارے نااہل سیدھے ہوجائیں گے۔

یونس خان کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں لہذا اُسے دوستیاں نبھانے سے گریز کرنا چاہئے اور ہر وہ قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے جوٹیم کے مفاد میں ہو۔

مزید مضامین :