آسٹریلیا کو پاکستان | ویسٹ انڈیز کو انگلینڈ سے ٹیسٹ سیریز میں کامیابی

Test

بینیو ،قادر ٹرافی ٹیسٹ سیریز کی پہلا ایڈیشن کی ٹرافی پاکستان کو ہوم گراؤنڈ پر ہرا کر آسٹریلیا نے اُٹھالی،رچرڈز، بوتھم ٹرافی ٹیسٹ سیریز کا پہلا ایڈیشن ویسٹ اِنڈیزنے انگلینڈ کیخلاف ہوم گراؤنڈ پر جیت لیا

Arif Jameel عارف‌جمیل جمعرات 31 مارچ 2022

Test
اہم خبریں: # آسٹریلیا نے پاکستان اور ویسٹ اِنڈیز نے انگلینڈ سے ٹیسٹ سیریز کے آخری میچ جیت کر سیریز اپنے نام کر لی۔ # بینوا ۔قادر ٹرافی ٹیسٹ سیریز کی پہلا ایڈیشن کی ٹرافی پاکستان کو ہوم گراؤنڈ پر ہرا کر آسٹریلیا نے اُٹھالی۔ # رچرڈز۔ بوتھم ٹرافی ٹیسٹ سیریز کا پہلا ایڈیشن ویسٹ اِنڈیزنے انگلینڈ کے خلاف اپنی ہوم گراؤنڈ پر جیت لیا۔ # آخری ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے عثمان خواجہ اور ویسٹ اِنڈیز کے وکٹ کیپر جوشوا ڈسلوا نے سنچریاں بنا ئیں۔

# مین آف دِی میچ آسٹریلیا کے فاسٹ باؤلر پٹ کمنز اورپلیئر آف دِی سیریز آسٹریلیا کے عثمان خواجہ ہوئے۔ # ویسٹ اِنڈیز کے وکٹ کیپر جوشوا ڈسلوا مین آف دِی میچ اور پلیئر آف دِی سیریز ویسٹ اِنڈیز کے کپتان کریگ براتھویٹ ہوئے۔ پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا آخری ٹیسٹ: پاکستان میں آسٹریلیا کے ساتھ کھیلی جانے والی3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے 2میچ بے نتیجہ رہے۔

(جاری ہے)

پہلے ٹیسٹ میچ میں راولپنڈی کی " مُردہ پچ " آڑے آگئی اور کراچی کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے کپتان بابر اعظم کی بیٹنگ نے " روح پھونک" دی۔ دِلچسپ یہ تھا کے دونوں صورتوں میں آسٹریلین ٹیم ہی حیرت زدہ رہی۔لیکن تیسرے ٹیسٹ میچ میں کون حیرت زدہ رہا کیوں نہ اسکو ایک کہانی کی شکل میں بیان کیا جائے۔ پاکستان اورآسٹریلیا کے درمیان تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ 21ِمارچ 22ء کو لاہور کے مشہور قذافی اسٹیڈیم میں شروع ہوا۔

آسٹریلیا نے اپنی ٹیم کوئی تبدیلی نہ کی جبکہ پاکستان کی طرف سے فہیم اشرف کی جگہ ایک دفعہ پھر19سالہ فاسٹ باؤلر نسیم شاہ کو موقع دیا گیا۔ موسم اور پچ کے بارے میں کہا گیا تھا کہ درجہ حرارت 35ڈگری سنٹی گریڈ تک رہ ہو سکتا ہے لیکن کھیل کیلئے موزوں رہے گا ۔ دوسرا قذافی اسٹیڈیم کی پچ پچھلے کئی سالوں سے بیٹنگ کے لیے بہترین رہی ہے لہذا باؤلرز کو کھیل کے کم از کم پہلے دو دِنوں میں وکٹیں حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی۔

ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کیلئے کو آگے فائدہ ہوگا۔ آسٹریلیا نے سیریز میں دوسری مرتبہ بھی ٹاس جیت کر بیٹنگ کا آغاز کیا ۔تیسرے اوور کی تیسری اور پانچویں گیند پر شاہین آفریدی نے اوپنر ڈیویڈ وارنز کو7رنز پر ایل بی ڈبلیو اورمارنس لیبوشگن کو "گولڈن ڈَک" پروکٹ کیپر محمد رضوان کے ہاتھوں کیچ کروا کر ٹیسٹ میں دلچسپی پیدا کر دی۔

پھر یہ دِلچسپی کچھ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی ۔ ایک طرف عثمان خواجہ ، اسٹیون سمتھ ،کیمرون گرین اور وکٹ کیپر ایلکس کرے کی ذمہ دار انہ بیٹنگ کی بدولت مجموعی اسکور میں اضافہ ہوتا چلا گیا اوردوسری طرف پاکستانی باؤلرز اپنا زور لگاتے رہے اور آخر کار391کے مجموعی اسکور پر انگلینڈ کی آل ٹیم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔اس میں پاکستان کی طرف سے باؤلر نسیم شاہ کا کردار بھی بہت اہم رہا جنہوں اپنے ساتھی فاسٹ باؤلر شاہین آفریدی کا خوب ساتھ دیا اور آسٹریلیا کے بیٹرز کیلئے کسی حد تک مشکلات پیدا کیں ۔

دونوں باؤلرز نے4،4وکٹیں لیں اور سپین باؤلرز نعمان علی اور سجاد خان نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ آسٹریلیا کی طرف سے ایک مرتبہ پھر اوپنر عثمان خواجہ 91رنز بنا کر نمایاں بیٹر رہے۔کیمرون گرین 79،ایلکس کرے 67اور اسٹیون سمتھ59 رنز بنا کر پویلین لوٹے۔ پاکستان کے اوپنرز عبداللہ شفیق اور امام الحق نے دوسرے دِن چائے کے وقفے کے بعد بیٹنگ کا آغاز کیا اور20کے اسکور پر11رنز بنا کر امام الحق آؤٹ ہو گئے ۔

اُمید تھی کہ پاکستان اپنی ہوم گراؤنڈ پر ایک بہترین اننگز کھیلتے ہوئے تیسرے روز آسٹریلین باؤلرز کو دباؤ کا شکار کرے گا لیکن اچانک سب کچھ اُلٹ ہو گیا ۔ پاکستان کی آل ٹیم دِن کے اختتام سے چند منٹ پہلے 268رنز پر ڈھیر ہو گئی ۔ اسی کی کڑی میں آخری روز ایک مرتبہ پھر 235کے مجموعی اسکورپر آسٹریلین باؤلنگ لائن کا شکار ہو کر 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا آخری ٹیسٹ ہار گئی۔

آسٹریلیا نے سیریز1۔0سے جیت لی اور چیمپئین شپ کے 12پوائنٹس بھی حاصل کر کے فہرست پر نمبر1پر ہی رہی جبکہ پاکستان سانپ سیڑھی کے کھیل میں دو درجے نیچے چوتھے نمبر پر آگیا۔ پہلی اننگز میں پاکستان کی طرف سے عبداللہ شفیق نے81رنز ،اظہر علی نے 78رنز اور کپتان بابراعظم نے 67رنز بنائے ۔106اوورز تک3کھلاڑی آؤٹ تھے اگلے11اوورز میں ساری ٹیم پویلین لوٹ گئی۔

تین کھلاڑی صفر پر ہی آؤٹ ہو گئے۔آسٹریلیا کی طرف سے باؤلنگ میں یہ کمال دِکھایا کپتان پٹ کمنز نے 5اورمچل اسٹارک نے 4کھلاڑی آؤٹ کر کے ۔ایک وکٹ نتھن لائن کے حصے میں آئی۔ پھر اسی نتھن لائن نے دوسری اننگز میں کپتان پٹ کمنز کی اُمید کے مطابق اپنی سپین کا جادُو جگایا اور 5 وکٹیں لیکر میچ کی جیت اہم کردار ادا کیا۔ کپتان پٹ کمنز نے3اور مچل اسٹارک اور کیمرون گرین نے ایک ایک وکٹ حاصل کی ۔

دوسری اننگز میں پاکستان کی طرف سے امام الحق نے70رنز بنائے اور بابر اعظم نے میچ کی دوسری نصف سنچری۔ اب آتے ہیں آسٹریلیا کے اُس بیٹر ہیرو اوپنر عثمان خواجہ کی طرف جنہوں نے دوسری اننگز میں بھی شاندار بیٹنگ کرتے ہو ئے اپنی 12ویں ٹیسٹ سنچری بنا ئی ۔اُنکی ناقابل ِشکست 104رنز کی اننگز کی بدولت 227رنز 3کھلاڑی آؤٹ پر کپتان پٹ کمنز نے چوتھے روز چائے کے وقفے کے کچھ دیر بعد ہی اننگز ڈکلیئر کرکے121اوورز میں351رنز جیتنے کا ہد ف دے دیا۔

جو ممکن نہ ہو سکا اور پلیئر آف دِی سیریز آسٹریلیا کے عثمان خواجہ لے اُڑے اور مین آف دِی میچ کا اعزاز بھی آسٹریلیا کے فاسٹ باؤلر پٹ کمنز کے حصے میں آیا۔ مختصر تجزیہ: آئی سی سی ورلڈ کرکٹ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے دوسرے ایڈیشن کی فہرست پر اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے کیلئے آسٹریلیا کو پاکستان کا دورہ کر نا لازمی تھا جسکے لیئے اُنکے بوڑد نے مکمل تعاون کیا اور پٹ کمنز کی قیادت میں پہلے ٹیسٹ ٹیم بھیجی۔

راولپنڈی اور کراچی کی فلیٹ پچو ں پر میچ برابر رہنے کے بعد لاہور کی سست سطح پر کم باوٴنس کے باعث آسٹریلین باؤلرز نے دو روز بعد واقعی بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور ایک ایسا سپل بھی کیاکہ پاکستان کی ٹیم پہلی اننگز میں اچانک دھڑم تختہ ہو گئی۔ اسکا ایک ٹریلر تو کراچی میں بھی آسٹریلین ریورس سوئنگ کے تحت دیکھ چکے تھے لیکن وہاںآ سٹریلین باؤلر ز دوسری اننگز میں ناکام رہے ۔

جبکہ اس مرتبہ دوسری اننگز میں آسٹریلین باؤلرنتھن لائن کی سپین کا جادُو چل گیا اورماہرانہ طور پر کھردرے پیچ کو نشانہ بناتے ہوئے 19ویں بار اننگز میں5وکٹیں لے کر آسٹریلیا کی جیت میں اہم کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔تیسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں پٹ کمنز کا اچانک ڈکلیئر کرنا ایک جرات مندانہ فیصلہ تھا کیونکہ ابھی بہت وقت پڑا تھا اور پاکستان اپنی ہوم گراؤنڈ کا فائدہ اُٹھاکر جیت بھی سکتا تھا لیکن پٹ کمنز کی شاندار حکمت عملی اور باؤلنگ اٹیک میں تبدیلیوں نے آسٹریلیا کو 2016 ء کے بعد پہلی بار بیرون ملک ٹیسٹ سیریز میں فتح دلوائی اور ایشیاء میں 11 سال بعد۔

پٹ کمنز گزشتہ 7 ٹیسٹ میچوں سے کپتان کے طور پر ناقابل شکست ہیں اور اس سیریز کے بعد اپنی ٹیم کو چیمپئین شپ فہرست پر 1 نمبر پر لے آئے ہیں۔جبکہ دوسری طرف پاکستانی ٹیم جسکے متعلق اُمید کی جارہی تھی کہ اپنی ہوم گراؤنڈ پر آسٹریلیاکو شکست دینے کی کوشش کرے گی اور چیمپئین شپ میں اپنی پوزیشن بہتر کرلے گی بہت سی کوتاہیوں کی وجہ سے کمزور رہی۔

سپین باؤلنگ کا شعبہ تو بالکل ناتجربہ کا ر لگا ۔یاسر شاہ اور شاداب خان کی بہت یاد آئی۔فیلڈنگ میں آسٹریلیا اور پاکستان دونوں کمزور نظر آئے۔بیٹنگ میں آسٹریلیا کی طرف سے پاکستانی نثراد عثمان خواجہ کی گڈُی سب سے اُوپر رہی اور وہ واحدآسٹریلین بیٹر رہے جنہوں نے اس ٹیسٹ سیریز میں ایک ہی نہیں دو سنچریاں بنائیں۔اُنھوں نے دونوں ٹیموں میں سب سے زیادہ 496 رنز بنائے۔

پاکستان کی بیٹنگ اپنی ہوم وکٹ پر بہتر رہی ۔کپتان بابر اعظم کی جیتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے خصوصاً دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 196رنز کی یادگار اننگز۔لیکن پاکستان کی طرف سے عبداللہ شفیق 397 رنز بنا کر سیریز میں کامیاب بیٹر رہے۔بہرحال آسٹریلیا نے پاکستان کی سر زمین پر آخری ٹیسٹ جیت کر سیریز میں فتح کا جھنڈ لہراتے ہوئے پاکستانی کرکٹ شائقین کو حیرت زدہ کر دیا اور وہ کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ " آسٹریلیا واقعی ایک ورلڈکلاس کرکٹ ٹیم" ہے۔

ویسٹ اِنڈیز بمقابلہ انگلینڈ آخری ٹیسٹ : دونوں ممالک کے درمیان3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے 2ٹیسٹ میچ برابر رہے جسکے بعد اُمید کی جارہی تھی کہ آخری کرکٹ ٹیسٹ میچ کا نتیجہ نکلے گا۔گزشتہ دو میچوں کے مطابق انگلینڈ حاوی رہے گا لیکن ویسٹ اِنڈیز اپنے ہوم گراؤنڈ و کراؤڈ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انگلینڈ کو دباؤ کا شکار کر سکتا ہے۔ موسم بہتر اور کبھی کبھی بادل چھا نے کے بارے میں کہا گیا تھا جس سے باؤلرز کو ہوا کی صورت میں مزید مدد مل سکتی تھی۔

باؤلر ز نئی بال سے بہتر سوئنگ اور پچ سے مدد لے سکتے ہیں۔ جو بیٹر کچھ وقت گزارے گا وہ اچھی شارٹس سے اسکور بھی کر ے گا۔ دونوں ٹیموں میں ایک ایک تبدیلی کی گئی ۔ انگلینڈ نے میتھیو فشر کی جگہ ایک مرتبہ پھر پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے کریگ اوورٹن کو شامل کیا ۔ ویسٹ اِنڈیز جس نے پہلے دونوں ٹیسٹ میچ میں ایک ہی ٹیم رکھی اس ٹیسٹ میچ میں ویراسمی پرمول کی جگہ کیل میئرز کو موقع فراہم کیا۔

نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم نزد سینٹ جارج گریناڈا ، کیریبین میں 24مارچ22ء کو شروع ہونے والے ٹیسٹ میں ویسٹ اِنڈیز کے کپتان کریگ براتھویٹ نے ٹاس جیت کر فیلڈ نگ کا فیصلہ کیا جو بالکل صحیح ثابت ہوا اور پہلے ہی روز 204رنز پر انگلینڈ کی آل ٹیم آؤٹ کر دیا۔دو اہم بیٹرز کپتان جوروٹ اور جونی بیئر اسٹو " گولڈن ڈَک" لیکر واپس گئے۔ اِنکے علاوہ 5 ٹاپ بیٹر زبھی ڈبل فیگر میں داخل نہ ہوسکے۔

آخری دو بیٹرزثاقب محمود اور جیک لیچ نے بالترتیب 49اور ناقابل شکست 41رنز بناکر مجموعی اسکور میں کچھ اضافہ کیا۔ ویسٹ اِنڈیز کی طرف باؤلرزجیڈن سیلز نے3، کیمار روچ، کائل میئرز، الزاری جوزف نے2،2 اور جرمین بلیک ووڈ نے ایک وکٹ لی۔ ایک مرتبہ تو انگلینڈ کے باؤلنگ اٹیک نے بھی ویسٹ اِنڈیز کے بیٹرز کو مشکل میں ڈال دیا 128کے مجموعی اسکور پر7کھلاڑی آؤٹ کر دیئے۔

لیکن پھر اُنکے23سالہ وکٹ کیپر جوشوا ڈسلوا نے ذمہداری سنبھالی اور اپنے کیرئیر کے14ویں ٹیسٹ میچ میں اپنی پہلی ناقابل شکست سنچری100رنز بنا کر مجموعی اسکور297تک پہنچا دیا جس پر آخری کھلاڑی جیڈن سیلز آؤٹ ہوگئے۔ انگلینڈ کی طر ف سے کرس ووکس 3وکٹیں لیکر نمایاں باؤلر رہے۔ ویسٹ اِنڈیز کے پاس پہلی اننگز میں 93رنز کی برتری تھی۔ لہذا کپتان کریگ براتھویٹ نے کچھ حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے برتری کا فائدہ اُٹھاتے ہو ئے باؤلرز سے انگلینڈ کے بیٹرز پر دباؤ بڑھایا۔

تیسرے دِن لنچ کے بعد انگلینڈ نے دوسری اننگز میں بیٹنگ شروع کی تھی اور پچ اُس وقت تک فاسٹ باؤلرز کیلئے مددگا ر تھی۔ جسکا اُنھوں نے بھرپور استعمال کیا اور برتری کے اندر 83رنز پر 6کھلاڑی آؤٹ کر دیئے ۔پھر چوتھے روز صبح آتے ہی 120پر آل ٹیم ڈھیر کر دی۔ ویسٹ اِنڈیز کی طرف سے آل راؤنڈر میڈیم فاسٹ باؤلر کیل میئرز اپنے کیرئیر کے11ویں ٹیسٹ میچ میں پہلی مرتبہ 5وکٹیں حاصل کر کے نمایاں باؤلر رہے۔

ویسٹ اِنڈیز کے پاس جیتنے کیلئے 28رنز کا ہدف تھا جو اُس نے بغیر کسی نقصان کے حاصل کر کے10وکٹوں سے ٹیسٹ جیت لیا اور سیریز کو بھی 1۔0 اپنے حق میں سے فیصلہ کُن کر لیا۔مین آف دِی میچ ویسٹ اِنڈیز کے وکٹ کیپر جوشوا ڈسلوا ہوئے اور پلیئر آ ف دِی سیریز کا اعزاز ویسٹ اِنڈیز کے کپتان کریگ براتھویٹ حاصل کر نے میں کامیاب ہو گئے۔چیمپئین شپ کے12 پوائنٹس بھی جیتنے والی ٹیم کو ملے ۔

وہ فہرست میں 7ویں نمبر پر آگیا اور انگلینڈ آخری نمبر9پر۔ مختصر تجزیہ: ویسٹ اِنڈیز اور انگلینڈ کے درمیان 3ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے دو میچ بھی پاکستا ن اور آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز کے پہلے دوٹیسٹ میچوں کی طرح برابر ہی رہے ۔لیکن تیسرے میچ میں ویسٹ اِنڈیز نے اپنی ہوم گراؤنڈ پر اِنگلینڈ کو شکست دے کر کچھ اتنا خاص حیران نہیں کیا جیتنا کہ انگلینڈ کی شکست پر سب حیران رہ گئے ۔

گو کہ پچ نے دونوں ٹیموں کے تیز باؤلرز کو مدددی اور اُنھوں نے باؤنس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بیٹرز کوپریشان بھی کیا اور آؤٹ کر کے پویلین بھی واپس بھیجا لیکن دوسری اننگز میں جسطرح انگلینڈ کے اہم بیٹرز ایک مرتبہ پھر اور وہ بھی ویسٹ اِنڈیز کی پہلی اننگز کی برتری کے دوران ہی آؤٹ ہو گئے وہ کسی شکاری کے جال سے کم نہ تھا جو ویسٹ اِنڈیز اپنی ہوم گراؤنڈ میں بچھانے میں کا میاب ہو ہی جاتا ہے لیکن انگلینڈ کی یہ ٹیم اُس میں پھانس جائے گی اُمید نہ تھی۔

اصل میں اس میچ کی قابل ِتعر یف ویسٹ اِنڈیز کے وکٹ کیپر جوشوا ڈسلوا کی وہ ناقابل شکست سنچری رہی جو ویسٹ اِنڈیز کیلئے پہلی اننگز میں برتری کا باعث بنی اور پچ کے لحظ سے دونوں ٹیموں میں فرق ڈال گئی ۔ آئی سی سی ورلڈ کرکٹ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے دوسرے ایڈیشن میں انگلینڈ کی اپنے ملک میں اِنڈیا سے ابھی تک نامکمل سیریز میں شکست اور پھر آسٹریلیا میں ایشز سیریز میں شکست نے پہلے ہی جوروٹ کی کپتانی میں ٹیم پر سوال اُٹھائے تھے اب وہ مزید تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔

کیونکہ 2021 ء سے اب تک انگلینڈ 20ٹیسٹ میچ کھیل چکا ہے جن میں سے پہلے 3ٹیسٹ میچ جیتنے کے بعد اگلے17میں سے ایک ٹیسٹ میچ جیتا ہے 11ہارا ہے اور5برابر رہے ہیں۔ویسٹ اِنڈیز کی ٹیسٹ ٹیم گزشتہ کئی سالوں سے ایک کمزور ٹیم سمجھی جاتی ہے اور چیمپئین شپ کے دوسرے ایڈیشن میں اس ے پہلے 2ٹیسٹ سیریز کھیل چکی تھی۔پہلی ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کے خلاف جو 1۔1سے برابر رہی تھی اور دوسری سری لنکا کی میزبانی میں جس میں 0۔2 سے شکست ہوئی تھی۔لہذا اُسکی اپنی ہوم گراؤنڈ پر انگلینڈ کے خلاف سیریز میں جیت ویسٹ اِنڈیز کیلئے بہت بڑی کامیابی رہی۔ یہ مضمون شائع ہو نے تک جنوبی افریقہ بمقابلہ بنگلہ دیش 2ٹیسٹ میچوں کی ایک اور سیریز کا آغاز ہو چکا ہو گا۔ لہذا : "آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "

مزید مضامین :