کرکٹ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے دوسرے ایڈیشن کا فاتح ۔۔آسٹریلیا

Wtc Final

ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل میں آسٹریلیاپہلی مرتبہ اور اِنڈیا دوسری بار پہنچا، آسٹریلیا کو فائنل جیتنے پر ٹرافی کیساتھ 16لاکھ ڈالر کی انعامی رقم بھی ملی، دوسرے نمبر پر آنیوالی اِنڈیا کی ٹیم کو 8 لاکھ ڈالر ملے

Arif Jameel عارف‌جمیل جمعرات 15 جون 2023

Wtc Final
آسٹریلیا بمقابلہ اِنڈیا فائنل کی اہم خبریں: ﴾ کرکٹ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے فائنل میں آسٹریلیاپہلی مرتبہ اور اِنڈیا دوسری بار پہنچا۔ ﴾ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے دوسرے ایڈیشن "الٹی میٹ ٹیسٹ"میں اِس مرتبہ آسٹریلیا کے ہاتھوں اِنڈیا کو شکست ہوئی۔ ﴾ آسٹریلیا کو فائنل جیتنے پر ٹرافی کے ساتھ16لاکھ ڈالر کی انعامی رقم بھی ملی۔ ﴾ دوسرے نمبر پر آنے والی اِنڈیا کی ٹیم کو 8 لاکھ ڈالر ملے۔

﴾ کرکٹ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے فائنل کی پہلی ٹیسٹ سنچری آسٹریلین بیٹر ٹریوس ہیڈ نے بنائی۔ ﴾ فائنل ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں آسٹریلین بیٹرز اسٹیون سمیتھ اور ٹریوس ہیڈ کی 285رنز کی شراکت داری جیت میں اہم رہی۔ ﴾ آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز اور اِنڈیا کے کپتان روہت شرما نے اپنے اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا 50 واں ٹیسٹ کھیلا۔

(جاری ہے)

﴾ اس فتح کے ساتھ ہی آسٹریلیا آئی سی سی کے تمام ٹائٹل جیتنے والی واحد ٹیم بن گئی۔

آئی سی سی کرکٹ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا دوسرا ایڈیشن اگست2021ء تاجون2023ء کھیلا گیا ۔ اس مدت کے طویل سلسلے میں 9ٹیسٹ ٹیموں نے لیگ کی بنیاد پر راؤنڈ میچوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا ۔ کُل 27 سیریز میں68ٹیسٹ میچ کھیلے گئے۔جن میں سے 56کا فیصلہ ہوا اور 12بغیر نتیجہ کے ختم ہوئے۔ ہر ٹیم نے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر چیمپئین شپ کی فہرست میں اپنی پوزیشن کا اُتار چڑھاؤ دیکھا۔

آسٹریلیا کی ٹیسٹ ٹیم اپنی بہترین حکمت ِعملی کی وجہ سے سب سے مضبوط ٹیم نظر آئی اور فہرست پر جلد ہی فائنل کیلئے کوالیفائی کرنے کا اشارہ دیتی رہی اور پھر فائنل میں پہنچ گئی۔ کسی حد جنوبی افریقہ نے بھی کوشش کی اور آخر میں فائنل کیلئے کوالیفائی کر نے کیلئے پوائنٹس ٹیبل پر سری لنکا اور اِنڈیا کا مقابلہ نظر آیا جن میں سے اِنڈیا نے لگاتار دوسری مرتبہ فائنل کیلئے کوالیفائی کر لیا۔

فائنل ٹیسٹ آسٹریلیا بمقابلہ اِنڈیا : فائنل" ٹیسٹ کرکٹ2023ء" کی رینکنگ کی نمبر 1ٹیم اِنڈیا اور نمبر2ٹیم آسٹریلیا کے درمیان ہوا۔ جبکہ آسٹریلیا چیمپئین شپ لیگ کی فہرست میں نمبر 1 اور اِنڈیا نمبر2 پرتھی ۔اِنڈیا نے کرکٹ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین کے فائنل کیلئے دوسری بار کوالیفائی کیا تھا۔پہلے ایڈیشن کے فائنل میں نیوزی لینڈ سے شکست کے بعد اِنڈیا رَنر اَپ ٹیم رہی تھی۔

100سے زائد ٹیسٹ کھیلے جانے والے گیننگٹن،اوول لندن میں یہ" الٹی میٹ ٹیسٹ" پہلی بار جون کے مہینے میں کھیلا گیا۔ جسکا شیڈول7 ِجون تا11ِجون23 ء تھا۔ یہ بھی واضح کیا گیاتھاکہ اگر 5روزہ فائنل کے دوران وقت ضائع ہو تو اُسکے لیئے متبادل 6 واں دِن ہو گا۔ فائنل ٹیسٹ میںآ سٹریلیا کی طرف سے فاسٹ باؤلر پیٹ کمنز اور اِنڈیا کی طرف سے روہت شرما اپنے اپنے ملک کی ترجمانی کررہے تھے ۔

دونوں ٹیمیں اِن کھلاڑیوں پر مشتمل تھیں۔ آسٹریلیا : پیٹ کمنز(کپتان)، ڈیوڈ وارنر، عثمان خواجہ، مارنس لیبوشگن، اسٹیون سمتھ، ٹریوس ہیڈ، کیمرون گرین، الیکس کیری ،مچل اسٹارک، نیتھین لیون اور اسکاٹ بولینڈ۔ اِنڈیا:روہت شرما( کپتان) ،شبمن گِل، چیتشور پجارا، ویرات کوہلی، اجنکیا رہانے، رویندر جدیجہ، سریکر بھارت،شاردول ٹھاکر،اُمیش یادیو، محمد شامی اور محمد سراج ۔

ٹیسٹ میچ سے پہلے موسم اور پچ کے بارے میں جو پیشن گوئی اور تجزیئے سامنے آئے اُس کے مطابق پہلے دِ ن بارش کا امکان ظاہر کیا گیا اور چوتھے دِن میں ممکن بارش ہونے تک کا کہا گیا تھا۔پچ کے اُوپر 6ملی میٹر تک کا گھاس نظر آرہا تھا جسکی وجہ سے پچ مکمل طور پر سبز تھی اور موسم کے کے لحظ سے تیز باؤلرز کیلئے سوئنگ کے ساتھ گیند باؤنس کروانے کا بھی موقع تھا۔

بیٹرز اپنی صلاحیت سے کارکردگی دِکھا سکتے تھے۔ فائنل میچ کے ٹاس کیلئے سکہ اُچھالا گیا ور اِنڈیا کے کپتان روہت شرما نے ٹاس جیتتے ہی فیلڈنگ کر نے کا فیصلہ کر لیاجو پہلے ہی واضح لگ رہا تھا کہ جو ٹاس جیتے کا وہ اپنے فاسٹ باؤلنگ اٹیک کو ترجیح دے گا۔اِنڈیا کے تیز باؤلر محمد سراج نے صر ف2 کے مجموعی اسکور پر آسٹریلیا کے اوپنر عثمان خواجہ کو وکٹ کیپر سریکر بھارت کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کروا دیا ۔

76 کے مجموعی اسکور پر بالترتیب ڈیوڈ وارنراورمارنس لیبوشگن کو بھی تیز باؤلرز شاردول ٹھاکر اور محمد شامی نے آؤٹ کر کے پچ پر اپنا کنٹرول ثابت کرنے کی کوشش کی۔لیکن پھر آسٹریلیا کے سابق کپتان اسٹیون سمیتھ اور ٹریوس ہیڈ نے پہلے دِن کے اختتام تک کرکٹ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ کے فائنل کیلئے یادگا ر اننگز کھیل ڈالیں۔ ٹریوس ہیڈ چیمپئین شپ کے دونو ں ایڈیشن کے پہلے بیٹر بنے جنہوں نے سنچری بنائی اور دوسرے دِن 163رنز کے انفرادی اسکورپر آؤٹ ہوئے ۔

اسٹیون سمیتھ دوسرے دِن اپنے ٹیسٹ کیرئیر کی31ویں سنچری مکمل کر کے121رنز بنا کر پویلین لوٹے ۔اُن دونوں کے بعد بھی صرف وکٹ کیپر الیکس کیری48 رنز کی انفرادی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے اور 469 پر آسٹریلیا کی آل ٹیم آؤٹ ہو گئی۔محمد سراج نے3 کھلاڑی آؤٹ کیئے ۔محمد شامی اور شاردول ٹھاکر نے2،2 اور ایک وکٹ بائیں ہاتھ کے سپنر رویندر جدیجہ کی بھی ملی۔

کرکٹ کا بہترین موسم اور دوپہر کی ہلکی دُھوپ میں پچ پر چمکتا ہوا سبز گھاس آسٹریلین باؤلنگ اٹیک کو اِنڈین بیٹرز پر دباؤ ڈالنے کیلئے بہترین نظارہ پیش کر رہا تھا۔دِن ختم ہوا تو 151 کے مجموعی اسکور پر اِ نڈیا کے5 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے ۔تیسرے دِن اِنڈیا نے مشکل حالات میں دوبارہ بیٹنگ کا آغاز کیا کیونکہ فالو آن کا خطرہ سر پرمنڈلا رہا تھا۔

اجنکیا رہانے کے89رنز کی اننگز اورشاردول ٹھاکر کی نصف سنچری اِنڈیا کو فائنل ٹیسٹ میں واپس لے آئی ۔تاہم چائے کے وقفے سے کچھ دیر پہلے اِنڈیا296 رنز بنا کر آل آؤٹ ہوگئی۔ آسٹریلیا کی طرف سے کپتان پیٹ کمنز نے3 ، کیمرون گرین، مچل اسٹارک اور اسکاٹ بولینڈنے2،2اور ایک وکٹ سپنر نیتھین لیون نے حاصل کی۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں173رنز کی واضح برتری حاصل کر لی تھی اور تیسرے دِن چائے کے وقفے قریب بیٹنگ کا آغاز کیا تھا۔

اُنکی کوشش تھی کہ ایک بڑا ہدف دینے کی کوشش کی جائے اور اِنڈین کپتان روہت شرما کی کوشش تھی کہ ابھی پچ میں اتنی جان ہے کہ اُنکا باؤلنگ اٹیک کچھ کردِکھائے اور اِنڈین کو مقابلے کیلئے کم سے کم ہدف ملے۔اسکے لیئے روہت شرما نے اپنے سپنررویندر جدیجہ کا بہترین استعمال کیا اور تیسرے دِن کے اختتام پر 123 کے مجموعی اسکور پر آسٹریلیا کے 4 بیٹرز آؤٹ کر دیئے جن میں سے 2 رویندر جدیجہ نے سمیتھ اور ٹریوس کو آؤٹ کیا۔

چوتھے دِن بھی اِنڈین باؤلرز نے آسٹریلین بیٹرز کو کُھل کر کھیلنے نہ دیا اورجب آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز 270 کے مجموعی اسکور پر آؤٹ ہو ئے تو اُنھوں نے ساتھ ہی 8 کھلاڑی آؤٹ پر دوسری اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کر دیا۔وکٹ کیپر الیکس کیری 66 کے انفرادی اسکور پر ناٹ آؤٹ رہے۔اِنڈیا کی طرف سے سپنر رویندر جدیجہ3 کھلاڑی آؤٹ کر کے نمایاں باؤلر رہے ۔

محمد شامی اوراُمیش یادیونے 2،2 اور محمد سراج نے ایک کوکٹ حاصل کی۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگز کی برتری ملا کر اِنڈیا کو جیت کیلئے 444رنز کا ہدف دیااور ابھی فائنل ٹیسٹ میچ کا تقریباًڈیڑھ دِن باقی تھا۔پچ اب فاسٹ باؤلر زکے باؤنس کیلئے اتنی ساز گار نہیں تھی لیکن شام کی ہواؤں میں سپنر پچ سے مدد لے سکتا تھا۔لہذا2 وکٹیں فاسٹ باؤلرز کپتان پیٹ کمنز اور اسکاٹ بولینڈ نے حاصل کر لیں اور ایک اہم وکٹ کپتان روہت شرما کی 43 کے انفرادی اسکور پر سپنر نیتھین لیون کے حصے میں آئی اور 93 کے مجموعی اسکور پر اِنڈیا کے3 کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔

لیکن اسکے بعد دِن کے اختتام تک سابق کپتان ویرات کوہلی اور اجنکیا رہانے ذمہداری سے گراؤنڈ کے چاروں طرف شارٹس کھیلتے ہوئے مجموعی اسکور164 تک پہنچا دیا۔ فائنل ٹیسٹ کا یہ آخری موقع تھا جس میں دونوں اِنڈین بیٹرز کی شراکت کی وجہ سے میچ دوبارہ" الائیو" ہو گیا تھا۔جس پر آخری دِن کھیل شروع ہونے سے پہلے تک مختلف نوعیت کے تجزیئے کیئے جانے لگے ۔

آخری دِن اِنڈیا کو 97 اوورز میں جیت کیلئے 280 رنز بنانے تھے۔ 40 اوورز بعد نیا گیند ملنا تھا اور پچ بیٹرز کیلئے بھی مدگار ہوسکتی تھی۔ لیکن سپنرکیلئے زیادہ فائدہ تھا۔ اگر ہدف حاصل کرنا ممکن ہو گیا تو چوتھی اننگز میں چیمپئین شپ کا ہائی رَنز حاصل کرنے کا ریکارڈ ہو گا۔یہ سب کچھ ایک ہی بڑے نام " ویرات کوہلی" سے اُمید کی وجہ سے تھا۔لیکن 5 ویں دِن کی صبح آسٹریلین باؤلنگ اور شاندار فیلڈنگ نے اگلے دو گھنٹوں میں اِنڈین ٹیم کو 234کے مجموعی اسکور پر ڈھیر کر کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے دوسرا ایڈیشن کی ٹرافی جیت لی اور اِنڈیا پہلے ایڈیشن کی طرح دوسرے ایڈیشن میں بھی رَنر اَپ ہی رہا۔

ویرات کوہلی اور اجنکیا رہانے بالترتیب 49اور 46رنز بنا کر آؤٹ ہوئے ۔آسٹریلیا کی طرف سے سپنر نیتھین لیون 4 وکٹیں لیکر نمایاں باؤلر رہے اور مین آف دِی میچ آسٹریلین بیٹر ٹریوس ہیڈ ہوئے۔ مختصر تجزیہ : اس گراؤنڈ پر چونکہ پہلی دفعہ جون کے مہینے میں ٹیسٹ میچ کھیلا گیا تھا ۔لہذاموسم کی پیشین گوئی اور پچ کیسے ردِعمل دے گی اسکا پہلا تجربہ دیکھنے میں آنا تھا۔

جو سب نے فائنل ٹیسٹ کے اختتام پر دیکھا کہ بارش بالکل نہ ہو ئی۔بادلوں کی چلمن میں سورج کی دُھوپ نے ایک تیز پچ کو جہاں خُشک کر دیا وہاں تواقع کے برعکس بیٹرز کیلئے بھی بیٹنگ پچ رہی۔ تیز باؤلرز کے ساتھ سپنرز بھی اہم وکٹیں لینے میں پیچھے نہ رہے اور اپنے کپتانوں کے معیار پر پورا اُترے۔بس فرق تھا تو ایک پہلی اننگز میں ٹریوس ہیڈ اور اسٹیون سمیتھ کی 285 رنز کی اہم شراکت کا۔

دوسرا آسٹریلین باؤلنگ اور شاندار فیلڈنگ کا۔ آسٹریلین تیز باؤلرز نے جس معیار کی باؤلنگ سوئنگ اورباؤنس کے ساتھ ایک سبز پچ پر کی اور اِنڈین کھلاڑی کس مشکل سے اُن تیز گیندوں سے اپنے آپکو بچاتے ہوئے نظر آئے وہی دباؤ اُنھیں لے بیٹھا۔دوسری اننگز میں کوہلی اسکاٹ بولینڈ کی ایک ایسی گیند پر سلپ میں سمیتھ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے جو سوئنگ ہو کر تیزی سے اندر آئی اور بیٹ کے کنارے کو چُھو کر سلپ میں گئی جہاں سمیتھ نے واقعی قابلِ تعریف کیچ پکڑا ۔

جس کے بعد آسٹریلیا کی جیت ممکن نظر آنے لگی۔ اِنڈیا کی اِس فائنل میں شکست پر ٹیم میں وکٹ کیپر رِشبھ پنت اور بمرا کی جہاں بہت کمی محسوس کی گئی وہاں ایشون کو بھی فائنل ٹیسٹ ٹیم کا حصہ نہ بنانے پر شدید تنقید کی گئی۔حالانکہ اگر تجزیہ کیا جائے تو جو ٹیم اس فائنل میں کھیل رہی تھی اُسکے ہیڈ کوچ بھی اِنڈیا کے مایہ ناز سابق ٹیسٹ بیٹر راہول ڈریوڈ تھے جنہیں اپنی ٹیم پر مکمل بھروسہ تھا ۔

دوسرا یہ تینوں کھلاڑی پہلے ایڈیشن 21 ء کے فائنل میں اِنڈین ٹیم میں شامل تھے اور کوئی خاص کارکردگی نہ دِکھا سکے تھے ۔ نیوزی لینڈ نے ٹرافی جیت لی تھی۔لہذا کہہ سکتے ہیں کہ اِنڈیا نے اس مرتبہ بھی کوشش ضرور کی لیکن آسٹریلیا کے مقابلے میں کمزور ثابت ہوئی ۔ خصوصاً ٹاپ بیٹرز کی ناکامی کی وجہ سے۔دوسرا وہی پہلے ایڈیشن والا مسئلہ ایشین ٹیموں کو یورپ کی پچیں مشکل سے ہی موافق آتی ہیں۔ "آگے کھیلتے ہیں دیکھتے ہیں اور ملتے ہیں "

مزید مضامین :