عوامی مسائل کا حل

ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ناگزیر ہے

منگل 8 دسمبر 2020

Awami Masail Ka Haal
رحمت خان وردگ
ملک بھر میں جنرل مشرف کی طرز کا بلدیاتی نظام رائج کرکے ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل اور تکمیل بلدیاتی نمائندوں کی ذمہ داری ہو البتہ مقامی ترقیاتی بورڈ میں اس علاقے کے اراکین اسمبلی اور ڈپٹی کمشنرز بھی ممبر ہوں اور ترقیاتی فنڈز ڈپٹی کمشنر کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں کی ہدایت کے مطابق خرچ ہوں اسی طرح انتخابی نظام میں اصلاحات کرکے سب سے پہلے تو ہر سیاسی جماعت کو پارٹی الیکشن کا پابند کیا جائے اور انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جائیں جس سے کوئی ووٹ ضائع نہیں ہو گا اور ملک بھر میں ہر پارٹی کو اس کی مقبولیت کے مطابق نمائندگی ملے گی۔

متناسب نمائندگی میں دولت کا عنصر سیاست پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا اور ہر پارٹی کے منشور کو ووٹ ملے گا اور ہر پارٹی انتخابات سے قبل اپنے امیدواروں کی لسٹ شائع کرے گی اور انتخابات سے دولت کا عمل دخل مکمل طور پر ختم ہو سکے گا۔

(جاری ہے)

موجودہ ہر صوبائی اسمبلی کی نشست کے ایریا کو قومی اسمبلی کی نشست قرار دیا جائے اور ہر قومی اسمبلی کی نشست میں 2 صوبائی اسمبلی کی نشستیں بنائی جائیں تاکہ عوام اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی پا سکیں۔


سیاست پر دولت مندوں کا مکمل قبضہ ہے اور مخصوص خاندان ملک بھر کے ایوان اقتدار پر قابض ہیں اور یہی مخصوص خاندان ہر حکومت میں لبادہ تبدیل کرکے شامل رہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنی دولت کا تحفظ ہوتا ہے‘تھانے اور پٹوار خانے پر ان خاندانوں کا مکمل قبضہ رہتا ہے اور یہ لوگ سیاست پر خرچ کی گئی اپنی دولت منافع سمیت وصول کرتے رہتے ہیں۔

یہی لوگ قومی اہم اثاثے اپنے من پسند افراد کو اونے پونے فروخت کرکے پھر ان لوگوں سے اپنی سیاست کے لئے اخراجات وصول کر رہے ہوتے ہیں ان مخصوص خاندانوں کا مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور نظام کی تبدیلی سے ہی سیاست سے دولت کا عنصر ختم کیا جا سکتا ہے۔موجودہ سیاسی نظام میں دولت مند اقتدار و ایوانوں پر مکمل طور پر قابض ہیں اور عام آدمی کی وہاں تک رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے۔

اس وقت بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں کو اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
بلدیاتی انتخابات ہر حالت میں مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں اور بلدیاتی اداروں کی مدت 4 سال ہونی چاہئے ۔جنرل مشرف کے دئیے گئے مقامی حکومتوں کے نظام سے ملک بھر میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے تھے اسی طرز کا نظام ہی بنیادی عوامی مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے،اس وقت جو بلدیاتی نظام رائج ہے وہ آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر ہے۔

اختیارات و وسائل بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہوں اور ان کے ایم این اے‘ایم پی اے وسینٹرز میونسپل کارپوریشن‘ڈسٹرکٹ کونسل و تحصیل کونسل کے ممبر ہوں اور مقامی طور پر تمام ترقیاتی کاموں کی منظوری مقامی حکومتوں کے ذمہ ہو جس کے فنڈز کا استعمال مقامی ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے ہونا چاہئے۔کراچی‘لاہور‘ملتان‘بہاولپور‘فیصل آباد‘ڈیرہ غازی خان‘ڈیرہ اسماعیل خان‘ سرگودھا‘بنوں‘پشاور‘مردان‘ ایبٹ آباد سمیت بڑے شہروں کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا جائے اور اسی مناسب سے انہیں فنڈز کی فراہمی ممکن بنائی جائے تاکہ بڑے شہروں کے مسائل حل ہو سکیں۔

صرف کراچی میں نہیں بلکہ اس وقت ملک کے تمام بڑے شہرے مسائل کی آماج گاہ بن چکے ہیں جہاں پینے کا صاف پانی بھی عوام کو میسر نہیں اور سیوریج‘ صفائی ستھرائی کے گھمبیر مسائل ہیں اور بڑے شہروں میں مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
پاکستان میں انتخابی‘عدالتی اور انتظامی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور موجودہ نظام میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف نہیں مل سکتا ۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو ملک کے ہر ڈویژن کو انتظامی صوبہ بنایا جائے۔سندھ‘پنجاب اور کے پی کے کو 4-4 انتظامی صوبوں جبکہ بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے 3 انتظامی صوبوں میں تقسیم کیا جائے اور انتظامی صوبوں کا نام لسانی بنیاد پر نہ ہو کیونکہ صوبوں کے نام لسانی بنیادوں پر ہونے کی وجہ سے ہم بدقسمتی سے اب تک ایک قوم نہیں بن پائے۔ہر ایک کروڑ کی آبادی کو انتظامی صوبہ بنا کر وہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بنچ کا قیام عمل میں لایا جائے اور ججوں کی تعداد دوگنی کر دی جائے تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مل سکے اور قانون سازی کرکے دیوانی مقدمات ایک سال اور فوجداری مقدمات 6 ماہ اور نیب کے مقدمات کا فیصلہ بھی ایک سال میں ہو جانا چاہئے اور جب تک ملزم عدالت میں باقاعدہ ”مجرم“ ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک اس کی گرفتاری کسی صورت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ الزام کی بنیاد پر طویل عرصے تک کسی کو قید رکھنا اور بعد میں اس کا بے قصورثابت ہو جانے کے واقعات عام ہیں لیکن یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے اور ملزم کو گرفتار کرکے اس کی عزت اچھا لی جاتی ہے۔

ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی اپیل پر 3 ماہ میں فیصلہ کر دیں۔انصاف میں تاخیر بھی ایک جرم ہے۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر مجسٹریٹ عدالتیں قائم کی جائیں ہر انتظامی صوبہ کوآبادی کے تناسب سے وفاق کی جانب سے براہ راست ترقیاتی فنڈز ملنے چاہئیں ۔
اس وقت عدالتی نظام ایسا ہے کہ لوگ دور دراز دیہات سے ہائی کورٹ میں پیشی کے لئے سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے کئی گھنٹوں بعد جب عدالت پہنچتے ہیں تو ان کے کیس کا زلسٹ میں آخری نمبروں پر ہونے کی وجہ سے کیس کی شنوائی ہوئے بغیر اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے ۔

موجودہ نظام میں انصاف کے حصول کے لئے کئی کئی نسلوں کو صبر کرنا پڑتا ہے اور انصاف کے حصول کے لئے اپنے اثاثے تک فروخت کرنے پڑتے ہیں اس کے باوجود انصاف کا حصول مشکل ترین ہو چکا ہے۔غریب آدمی تو کسی بھی صورت اپنے حق کے حصول کے لئے عدالت نہیں جا سکتا۔حالانکہ پاکستان کے آئین میں ہے کہ انصاف ہر ہر شہری کا حق ہے لیکن انصاف کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں اب تک آنے والی تمام حکومتیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

موجودہ حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اور عوام کو اس پر بہت توقعات تھیں اسی لئے نظام کی تبدیلی جانب تیز تر پیشرفت بہت ضروری ہے لیکن موجودہ حکومت کے پاس اسمبلیوں میں اس قدر اکثریت نہیں ہے جس سے اہم قوانین منظور ہو سکیں اور اپوزیشن سے بھی بات چیت سے اجنتاب برتا جاتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اہم ترین قومی معاملات اور عوام کی فلاح و بہود کے لئے تمام جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر ایسے مسودے پر دستخط کریں جس سے فوری طور پرملک میں انتظامی‘ عدالتی اور بلدیاتی نظام تبدیل ہو سکے۔

حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں وسیع ترین قومی مفاد میں بلدیاتی‘انتخابی‘انتظامی اور عدالتی نظام میں تبدیلی کے لئے ایک میز پر بیٹھیں اور ایسا مسودہ متفقہ طور پر منظور کریں جس سے نظام تبدیل ہو اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں‘عوام کو سستا اور فوری انصاف مل سکے اور وزیراعظم عمران خان نے شفاف ووٹنگ کے لئے جن تبدیلیوں کا عزم کیا ہے اس کے لئے تمام جماعتیں حکومت کے ساتھ بیٹھ کر ایسا نظام متعارف کروائیں کہ ملک میں شفاف ترین انتخابات ہوں اور ہارنے والے بھی نتائج کو تسلیم کر یں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Awami Masail Ka Haal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.