برطانیہ میں مساجد پر حملوں کی نئی لہر؟

اسلاموفوبیا مغربی ممالک میں کھل کر سامنے آنے لگا دنیا بھر میں مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ پر یشان کن ہے

پیر 8 اپریل 2019

Bartania mein masajid par hamlon ki nai lehar
 محبوب احمد
مغرب میں مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم کی شرح میں بتدریج اضافہ پریشان کن اور لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کیونکہ کچھ لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کو جائز تصور کرتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ عالم اسلام کو ایسے منافرت انگیز نظرئیے کا سامنا ہے جس کی توجہ صرف مسلمانوں پر مرکوز ہے
۔کفروالحاد کی طاقتیں ہر جگہ عالم اسلام کے خلاف متحدومنظم ہو کرامت مسلمہ وعالم اسلام کو مزید مسائل سے دوچار کرنے ،سیاسی ومعاشی اور مذہبی ہر سطح پر مزید بحران سے دوچار کرنے کے لئے جو سازشی اقدام تجویز کررہی ہیں اور ان پر اب بڑے منظم اندا زمیں عمل بھی کیا اور کرایا جا رہا ہے۔


صدیوں سے اہل مغرب کے دل اسلام واہل اسلام کے خلاف نفرت ودشمنی سے لبریز ہیں۔

(جاری ہے)

اگست 1990ء کے آغاز میں کویت کی آزادی کے نام پر اپنے فوجیوں کو سعودی عرب بھیجتے وقت بش سینئر نے اپنی تقریر میں انہیں جنگ پر ابھارا ،اصل میں یہی تقریر جزیرہ نما عرب اور خلیج کے مسلمان ممالک کے خلاف ایک نئی صلیبی مہم کا آغاز تھا۔
بش جونےئر نے 11ستمبر کے واقعہ کے بعد 16ستمبر2001ء کو اپنے ان مذموم جذبات کا بھی اظہار کیا کہ وہ افغانستان کے خلاف صلیبی حملے کی تیاری میں مصروف ہے اور پھر اس کے بعد میڈیا پر اپیگنڈے ،
غلط افکار کی ترویج اور تمام تروسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کے تحت بڑی منظم اور خوفناک و خون ریزجنگ کا آغاز کر دیا گیا۔

حقیقت میں مغرب صلیبی جنگوں کے دوران بیت المقدس میں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ہونے والی شکست کا بدلہ لے رہاہے کیونکہ اس نے جہاں ایک طرف اپنے آلہ کار اتاترک سے خلافت جیسے اہم ترین ادارے کو ختم کرکے عالم اسلام کے اتحاد کو انتشارو افتراق اور خلفشار میں بدل دیا وہیں دوسری طرف اسلامی علاقوں کے عین قلب یعنی فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔


اسلام کا پھیلاؤ مغرب اور عالمی استعمار کے لئے ایک عرصہ سے روح فرسابنا ہوا ہے ،یہی وجہ ہے کہ دنیائے مغرب کو اسلام ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قرآن وسنت اور امت مسلمہ سے برگشتہ اور متنفر کرنے کے لئے آئے دن نت نئے منصوبے اور اسکیمیں بنائی جارہی ہیں اورا س کیلئے کبھی گستاخانہ خاکے بنوائے جارہے ہیں تو کبھی قرآن کریم کونذر آتش کرنے والوں کی پیٹھ ٹھونکی جارہی ہے ،کبھی اسلام کے خلاف لکھنے والوں کو ”سر “کا خطاب دیا جاتا ہے تو کبھی اسلام سے مرتد ہونے والوں کو ہیروبنا کر پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے ،کبھی مساجد کے میناروں اور اذان پر پابندی ہے تو کبھی پردہ،حجاب اور اسلامی پہناوے کے خلاف قانون سازی کی جا رہی ہے اور کبھی توہین آمیز فلمیں بنوا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو
 تڑ پا کر ان کے مذہبی جذبات سے کھیلا جارہا ہے الغرض اسلام،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ،اسلامی احکام
،اسلامی شعائر اور امت مسلمہ کو ہر جگہ مطعون کرنے نا اور تضحیک کا نشانہ بنانے،ان کے خلاف تشدد،
نفرت اور انتقام کے جذبات رکھنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹادینے کے مکروہ عزائم اور گھناؤ نے منصوبوں پر مسلسل عمل کیا جارہا ہے۔


دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کو امن وسکون اور عافیت واطمینان سے زندگی گزارنے دی جارہی ہو کیونکہ ہر جگہ مسلمان ہی دنیائے کفر کا نشانہ اور ہدف بنے ہوئے ہیں ،یہ امریکہ کی تھپکی اور شہ ہی ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی ،بھارت میں جنونی انتہا پسند ہندو اور برما میں بدھ بلوائی نہتے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں دیگر مسلم مالک میں بھی یہی سلسلہ جاری ہے ،ان مجبور و مقہور مسلمانوں کا قتل عام اور انہیں میز ائلوں اور بمباری سے موت کے گھاٹ اتار نے اور مقدس مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے ۔


نیوزی لینڈ میں ایک سفید فام نسل پر ست تربیت یافتہ دہشت گرد برنٹن ٹیرنٹ کے ہاتھوں فائرنگ سے جس طرح 50نمازی شہید ہوئے اس دہشت گردی کے المناک واقعہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اس واقعہ سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ امریکہ اورمغربی ممالک میں کس طرح منظم طریقے سے اسلاموفوبیا کو پروان چڑھایا جارہا ہے ،اس سانحہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب میں انسانیت بتدریج زوال کا شکار ہوتی جارہی ہے ۔


کرائسٹ چرچ میں 2مساجد پر ہونے والے حملوں کے بعد برطانیہ میں بھی مساجد اور مدرسوں پر حملوں کی ایک نئی ہر آئی ہے اور اب ان حملوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے جس میں برطانیہ میں 6سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والے المناک سانحہ پروہاں کی وزیر اعظم کے مقابلے میں امریکی صدر کاردعمل افسوسناک رہا ہے کیونکہ انہوں نے اس واقعہ کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے سے گریز کیا ہے ۔


تاریخ گواہ ہے کہ ٹرمپ مذہبی منافرت بڑھانے کے ذمہ دار ہیں ۔امریکہ اور مغربی ممالک کی منافقت تاریخ کا حصہ رہی ہے کیونکہ جب بھی کوئی غیر مسلم دہشت گردی کرتا ہے تو اسے ذہنی مریض قرار دے دیا جاتا ہے اور کوشش یہی کی جاتی ہے کہ اس واقعہ کی ساری ذمہ داری اسلام کے ساتھ جوڑدی جائے حالانکہ حقیقت یہ ہے دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں اور اسلام دہشت گردی کی بلا تفریق اور بلا امتیاز مذمت کرتا ہے ،اگر بظاہر دیکھا جائے تو یہ جرائم 2017ء میں مانچسٹرمیں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ہونے والے نفرت انگیز جرائم سے بھی زیادہ ہیں ،حال ہی میں اکیڈمی اسلامک سکول پر حملے میں توڑ پھوڑ اور قرآن مجید کے نسخوں کو نقصان پہنچانے کے واقعے کے بعدجن 6نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے کہ ان کی عمریں14سے18برس کے درمیان ہیں اور ان میں 2لڑکیاں بھی شامل ہیں ،یہاں یہ بھی یاد رہے کہ بر منگھم کی 5مساجد کو نقصان پہنچانے کے الزام میں بھی ایک34سالہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے ۔

1990ء کے اوائل میں صحافی ڈیوڈہال کا ایک مضمون”تاریخ کے دھارے کی تبدیلی“کے عنوان سے واشنگٹن پوسٹ اور جاپان ٹائمز میں شائع ہوا جس میں اس نے کہاکہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اولین دشمن اسلام اور اس کی تہذیب ہے ۔
1990ء کے وسط میں ہی ایک اور صلیبی سابق فرانسیسی وزیر اعظم مائیکل ڈیبری کا ایک مضمون جولو
کوتھیڈین ڈبرے نامی اخبار میں شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ ”اسلام اب یورپ کا دشمن بن چکا ہے اور سب سے پہلے وہ فرانس کا دشمن ہے اور فرانس کو جنوب یعنی اسلامی خطوں سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے بالکل اسی طرح جرمن میگزین ڈیر شپیگل کے 1991 ء کے آٹھویں شمارے میں مغربی تہذیب کو اسلام سے لاحق خطرات بارے شائع کیا گیا۔


دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور اسلام امن کادرس دیتا ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ مغرب میں کسی بھی ہونیوالے واقعہ کی کڑی مسلمانوں سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ۔اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ 20ویں صدی مغرب کیا پوری دنیا میں سیکولرازم کے غلبے کی صدی ثابت ہوئی ہے ۔
مغرب میں عیسائیت اور مشرق میں ہندوازم ،یہودیت اور بدھ ازم نے سیکولرازم کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے ریاست وسیاست اور معیشت وعلوم وفنون میں اس کی بالادستی کودل سے تسلیم کیا لیکن اسلام اور اس کے زیراثر اسلامی تحریکوں نے مغرب اور اس کے سیکولرازم کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا چنانچہ کم وبیش تمام اہم مسلم ریاستوں اور معاشروں میں اسلام ایک زبردست مزاحتمی قوت بن کرابھرا ،
اس مزاحمتی قوت کے کئی پہلو ہیں مثلاً ایک پہلویہ ہے کہ مغرب کبھی اسلام کو طاقت کے ساتھ منسلک کر تا اور کہتا کہ اسلام پسند صرف طاقت کے ذریعے اقتدار میں آسکتے ہیں لیکن اسلامی تحریکوں نے جمہوری طریقے سے اقتدار میں آکر دکھایا ۔


الجزائر،فلسطین،مصر،تیونس اور ترکی اس کی بڑی بڑی مثالیں ہیں مگر مغرب نے ہر جگہ اسلام اور اسلامی تحریکوں کے خلاف شرمناک ورکیک شازشیں کیں۔قابل غور امریہاں یہ بھی ہے کہ اسلام اپنی تمام ترقوت وشوکت اور امکانات کے ساتھ مسلم معاشروں میں موجود ہے اور یہی اہم بات ہے ۔اسلام کی مزاحمت کے عظیم الشان مظاہرے دیکھ کر مغرب آج خوف کا شکار ہے کیونکہ اس نے جہاد کی قوت سے وقت کی سپر پاور سوویت یونین کوا فغانستان میں شکست سے دوچار ہوتے دیکھا ہے اور اب افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی شکست سے دوچار ہیں۔


 امریکہ تقریباً18برس قبل افغانستان میں آیا مگر وہ وہاں نہ طالبان کو ختم کر سکا نہ کوئی موٴثر حکومت قائم کر سکا۔اللہ تعالیٰ اور اس کے پیار ے حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے میں ہی مسلمانوں کے دنیوی مسائل ومصائب کاحل اور اخروی نجات کاراز مضمر ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج مسلم امہ کی یہ حالت زار ہے کہ تمام مغربی اقوام عالم اسلام کیخلاف متحد ہیں اور اندرونی محاذ آر ائی کا شکار مسلم حکمران ان کے لئے ا جیراوردست نگربن چکے ہیں لہٰذا ایسے آزمائشی حالت میں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ مسلمانان عالم اپنی بے عملی اور کمزوریوں کا ادراک اور احساس کرتے ہوئے خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی صفوں میں اتحادویگا نگت کا مظاہرہ کریں تاکہ اسلام کیخلاف کفرو شرک کی ہر سازش کو ناکام بنایا جا سکے۔


عالمی میڈیا پر اسلام کیخلاف تعصب اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اس کے ثبوت ریکارڈ پر بھی موجود ہیں ۔عالم اسلام کو ان نازک حالات میں قرآن اور سیرت کی تعلیمات کی روشنی میں دنیا کو اسلام کا حقیقی
 چہرہ دکھانے اور مذموم پراپیگنڈے کا جواب دینے کیلئے دلائل پر مبنی لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے ۔او آئی سی کو بھی اس وقعہ سے سبق سیکھ کر بھر پور فعال اور متحرک کردار ادا کرنا ہو گاتا کہ غیر مسلموں کے اذہان میں اسلام کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کوبروقت دور کیا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Bartania mein masajid par hamlon ki nai lehar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 April 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.