بارڈر پاکستان کے

واہگہ پاکستان کی جانب لاہور کا ایک قصبہ ہے جبکہ اٹاری بھارتی شہر امرتسر کا حِصہ ہے جو لاہور سے دہلی جانے والی ریلوے لائن پر بھارت کا پہلا شہر ہے۔ واہگہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ سب سے مشہور اور مصروف گزرگاہ ہے جہاں ہر شام جھنڈا اتارنے کی تقریب ہزاروں لوگوں کا خون گرماتی ہے

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری منگل 9 اپریل 2019

border Pakistan ke
ہمارے سکول کے زمانے میں ایک سوال ہمیشہ مطالعہ پاکستان کے پرچے میں آتا تھا، ''پاکستان کا محلِ وقوع بتائیں؟'' اور ہم مشرق میں بھارت، شمال مغرب میں افغانستان، جنوب مغرب میں ایران، شمال میں چین اور جنوب میں بحیرہ عرب لکھ کر مطمئن ہو جاتے اور یہ سوچتے کہ ہمیں پاکستان کے جغرافیہ پر مکمل عبور حاصل ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے اس زمانے میں اتنی معلومات ہونا بھی بہت سمجھا جاتا تھا اور ہم نے تو ویسے بھی امتحان پاس کرنا ہوتا تھا سو اس سے زیادہ جاننے کی کبھی کوشِش بھی نہیں کی۔

خیر آگے چل کہ یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ محلِ وقوع کوئی عام نہیں ہے بلکہ اپنے اسی محلِ وقوع کے اعتبار سے وطنِ عزیز کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
 پاکستان کی لوکیشن نہ صرف دفاعی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے بلکہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی حوالے سے بھی اسکی ایک الگ حیثیت ہے۔

(جاری ہے)

کہنے کو تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرحدیں چار ملکوں سے ملتی ہیں لیکن یہی چار ملکوں سے ملنے والا بارڈر، ساحلِ سمندرسے ہو کر تپتے صحراوٴں، گہرے دریاوٴں، زرخیز میدانوں، بل کھاتے ندی نالوں، کھیتوں کھلیانوں، بلند و بالا پہاڑوں، عظیم گلیشیروٴں، قدیم دروں، سنسان بیابانوں اور گھنے جنگلات سے گزرتا ہے اور یہی بارڈر کہیں تو دنیا کا سب سے اونچا سرحدی مورچہ بن جاتا ہے اور کہیں دنیا کی سب سے خطرناک سرحدی لکیر۔

پاکستان کی زمینی سرحد کل 6،774 کلو میٹر لمبی ہے۔ آئیئے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل اس بارڈ کا جائزہ لیتے ہیں۔
1-پاکستان،بھارت :پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحدی لکیر کو ''ریڈ کلف لائن'' کہا جاتا ہے جو ''سرسائرل ریڈ کلف'' نے کھینچی تھی۔ 17 اگست 1947 کو اس حد بندی کو حتمی قرار دیکر پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل بین الاقوامی سرحد بنا دیا گیا۔

ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے بیچ انتہائی اہمیت کی حامل یہ سرحد 2،240 کلو میٹر لمبی ہے جس میں ''ورکنگ باوٴنڈری'' بھی شامل ہے۔740 کلومیٹر لمبی لائن آف کنٹرول اس کے علاوہ ہے۔
جنوب مشرق سے شروع کریں تویہاں بھارتی ریاست گجرات کی سرحد، سندھ کے ضلع ٹھٹھہ، بدین اور تھر پارکر سے ملتی ہے۔ اسکے بعد ریاست راجستھان کی سرحد شروع ہوتی ہے جو ضلع تھر پارکر، عمر کوٹ، سانگھڑ، خیر پور، گھوٹکی (سندھ)رحیم یار خان، بہاول پور اور بہاول نگر( پنجاب) تک جاتی ہے۔

جبکہ بھارتی پنجاب کا بارڈر اوکاڑہ، قصور، لاہور، شیخوپورہ اور نارووال کے اضلاع کیساتھ لگتا ہے۔ اسکے بعد ورکنگ باوٴنڈری شروع ہو جاتی ہے جسکے ایک طرف تو پاکستان کی بین الاقوامی سرحد( جہاں نارووال اور سیالکوٹ کے ضلعے ہیں) واقع ہے جبکہ دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیرکی متنازعہ ریاست ہے۔ اس سے آگے ''لائن آف کنٹرول '' ہے جسکے دونوں جانب جموں و کشمیر کی آزاد اور مقبوضہ ریاستیں ہیں اور یہ پاکستان اور بھارت کے بیچ ''عارضی'' سرحد ہے جہاں بھارتی حکومت کی طرف سے ''باڑ'' بھی لگائی گئی ہے۔

دنیا کے خطرناک ترین اس بارڈر پہ 3 مقامات ایسے ہیں جہاں ''بارڈر کراسنگز'' بنائی گئی ہیں جن میں سب سے مشہور ''واہگہ اٹاری'' بارڈر ہے۔
 واہگہ پاکستان کی جانب لاہور کا ایک قصبہ ہے جبکہ اٹاری بھارتی شہر امرتسر کا حِصہ ہے جو لاہور سے دہلی جانے والی ریلوے لائن پر بھارت کا پہلا شہر ہے۔ واہگہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ سب سے مشہور اور مصروف گزرگاہ ہے جہاں ہر شام جھنڈا اتارنے کی تقریب ہزاروں لوگوں کا خون گرماتی ہے۔

1947 میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ہجرت بھی اسی راستے سے ہوئی تھی۔ دوسری کراسنگ قصور کے علاقے ''گنڈا سنگھ والا'' اور بھارتی پنجاب کے ضلع فیروزپور کے شہر''حسینی والا'' کے درمیان ہے جو 1960 اور 70ء کی دہائی میں ایک مرکزی گزرگاہ تھی جسے بعد میں بند کر دیا۔ اب اسے دوبارہ کھولنے کا منصوبہ زیرِغور ہے۔ یہاں بھی واہگہ کے طرز پر ایک چھوٹی سی تقریب روزانہ شام کو منعقد کی جاتی ہے۔

انڈیا پاکستان سرحد پر تیسری اور سب سے غیر معروف کراسنگ ''کھوکھراپار-موناباوٴ'' کے مقام پر ہے جو راجستھان کے ضلع بارمار کے گاوٴں ''مونا باوٴ'' اور سندھ کے ضلع تھرپارکر کے قصبے ''کھوکھراپار'' کے درمیان ہے- 1965 کی جنگ کے بعد اس کراسنگ کو بند کر دیا گیا تھا اور فروری 2006 کو اسے دوبارہ کھولا گیا۔ کھوکھراپار موناباوٴ روٹ پر چلنے والی ''تھر ایکسپریس'' کراچی سے ہو کر جودھ پور تک جاتی ہے۔

پاک بھارت سرحد پوری دنیا میں کئی حوالوں سے مشہور ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
1- یہ دنیا کی خطرناک ترین سرحدوں میں سے ایک ہے۔
2۔ 50 ہزار کھمبوں پر لگی 150،000 فلڈ لائیٹس کی بدولت، روشنی کی لکیر کے طور پراس سرحد کا نظارہ خلاء سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ انتظام بھارت کی طرف سے کیا گیا ہے۔
3۔ پاکستان اور ہندوستان کی سرحد پہ جہاں ایک طرف لاکھوں کی آبادی والے بڑے شہر آباد ہیں وہیں دوسری جانب بنجر بیابان، دلدلی علاقے، گرم صحرا، زرخیز میدان، بہتے دریا،نہریں، پہاڑ اور خوبصورت وادیاں بھی اس سرحد کا حصہ ہیں۔

4- یہ دنیا کا سب سے پیچیدہ بارڈر ہے جہاں سرکریک، جموں و کشمیر اور سیاچن سمیت مختلف مقامات دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنازعات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ 
5۔ دنیا کا سب سے اونچا سرحدی محاذ ''سیاچن'' بھی پاک بھارت کے درمیان واقع ہے۔
2- پاکستان-چین :دیو قامت گلیشیئروں سے گِھری ، چین اور پاکستان کی 595 کلومیٹر سرحد دنیا کے چند خوبصورت ترین نظارے پیش کرتی ہے۔

جہاں ایک طرف کلِک ، پرپیک اور خنجراب جیسے درے ہیں تو دوسری جانب دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ''کے- ٹو''بھی اسی سرحد پہ واقع ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد 1961 سے 1965 تک دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں کے تعین کے لیئے کئی معاہدے ہوئے لیکن حتمی سرحد کا تعین 1963 کے مشہورِ زمانہ ''سائنو پاک ایگریمنٹ'' میں کیا گیا۔ پاکستان کی زمینی سرحدوں میں سب سے چھوٹی سرحد چین کے ساتھ ہے۔

حالانکہ ماضی میں کلِک پاس اور منٹاکا پاس کو بھی سرحدی راستے کے طور پہ استعمال کیا جاتا تھا لیکن اپنی دفاعی اہمیت کے پیشِ نظر موجودہ دور میں ''درہ خنجراب'' پاکستان اور چین کے درمیان واحد بین الاقوامی سرحدی گزرگاہ ہے جسکے ایک طرف گلگت بلتستان اور دوسری جانب چین کا صوبہ ''زین جیانگ'' واقع ہے۔قراقرم کی برف پوش چوٹیوں سے گِھرا، درہ خنجراب 4،693 میٹر کی بلندی پہ واقع ہے۔

ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری پاک - چین دوستی کی نشانی، ''شاہراہِ قراقرم'' اسی درے سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے اونچی اور پختہ سرحدی گزرگاہ ہے جسے ہر سال لاکھوں سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ یہاں پاکستان اور چین نے 2006 میں گلگت سے کاشغر تک بس سروس بھی شروع کر رکھی ہے۔
3- پاکستان-افغانستان :2،430 کلومیٹر لمبی پاک افغان سرحد، پاکستان کے تین اور افغانستان کے گیارہ صوبوں کو لگتی ہے جسے ''ڈیورنڈ لائن'' بھی کہا جاتا ہے۔

یہ سرحد 1893 میں افغانستان اور برطانوی سامراج کے درمیان کیئے گئے ایک معاہدے کے تحت وجود میں آئی جسکا نام اس وقت کے برطانوی سیکرٹری خارجہ ''سرہنری مورٹیمر ڈیورنڈ'' کے نام پہ رکھا گیا۔ ڈیورنڈ لائن سلسہ کوہِ پامیر اور ہندوکش سے لے کر بلوچستان میں کوہِ چاغی تک پھیلی ہوئی ہے۔
شمال مشرق میں یہ پاک- چین بارڈر سے شروع ہوتی ہے جسکے ایک جانب گلگت بلتستان اور دوسری جانب افغانستان کے صوبے بدخشاں کا علاقہ ''واخان'' ہے۔

واخان، بدخشاں کی ایک لمبی اور تنگ سی پٹی ہے جو چترال اور گلگت بلتستان کو وسط ایشیائی ریاست تاجکستان سے الگ کرتی ہے۔ اسے واخان کوریڈور بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پاکستان کو افغانستان سے ملانے والا پہلا راستہ کوہِ ہندوکش میں بروغل کے مقام پر ہے جہاں 3،798 میٹر بلند ''درہ بروغل'' واخان اور چترال کو ملاتا ہے۔
دوسری کراسنگ ''دوراہ'' ہے جہاں ہندوکش کے پہاڑی سلسے میں واقع دوراہ پاس چترال کو بدخشاں سے ملاتا ہے۔

یہ درہ 4،300 میٹر بلند ہے جس کے قریب ''حوضِ دوراہ'' نامی ایک جھیل ہے۔اسکے بعد ''تورخم'' بارڈر ہے جوفاٹا کی خیبر ایجنسی کو صوبہ ننگرہار سے ملاتا ہے۔ یہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سسے بڑی اور مرکزی کراسنگ ہے جہاں سے نیٹو افواج کے لیئے سامان لے جانے والے کنٹینر بھی گزرتے ہیں۔ تورخم - جلال آباد بارڈر پہ جولائی 2016 میں پاکستان کی طرف ایک خوبصورت گیٹ ''بابِ پاکستان'' کے نام سے بنایا گیا ہے۔

جہاں ہر شام واہگہ طرز پر ایک پرجوش تقریب ہوتی ہے۔
اگلی کراسنگ ''پیوار کوتل پاس'' ہے جو افغان صوبہ پکتیا کو کْرّم ایجنسی سے ملاتی ہے۔ یہ ایک غیر معروف سی جگہ ہے جسے دونوں ممالک زیادہ استعمال نہیں کرتے۔اسکے بعد جنوبی وزیرستان ایجنسی کو افغان صوبہ ''پکتیکا'' سے ملانے والی ''انگور اڈہ'' کراسنگ ہے۔ انگور اڈہ پکتیکا کے ضلع برمال کا ایک قصبہ ہے۔

یہ سرحدی راستہ سنگلاخ اور بلند پہاڑوں پر مشتمل اس بارڈر کا قدرے میدانی اور آسان راستہ ہے۔
وزیرستان کو پکتیکا سے ملانے والا دوسرا راستہ ''درہ گومل'' سے ہو کرجاتا ہے جو غزنی کو بذریعہ سڑک ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان سے جوڑتا ہے۔ اسکا نام دریائے گومل کے نام پہ رکھا گیا ہے۔ درہ گومل، خیبر پاس اور درہ بولان کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔

پاک افغان سرحد کی آخری اور دوسری بڑی بین الاقوامیگزرگاہ چمن کے مقام پر ہے۔ یہ صوبہ بلوچستان کی واحد کراسنگ ہے جو ضلع چمن کو قندھار کے علاقے '''سپن بولدک'' سے ملاتی ہے۔ اسکو ''واش چمن کراسنگ'' کہا جاتا ہے۔ 2003 میں یہاں دو محرابوں والا ''دوستی گیٹ'' بنایا گیاجسکا منہ بلوچستان کی جانب ہے اور اسکے ماتھے پر انگریزی میں ''فخرِ پاکستان '' اور ''سب سے پہلے پاکستان'' کے الفاظ جگمگا رہے ہیں۔

واش چمن بارڈر سے جہاں دن میں کراچی سے آئے نیٹو کے کنٹینر گزرتے ہیں وہیں رات میں اسے اسمگلر استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کی جانب ڈیورنڈ لائن کے قریب بمبوریت، لنڈی کوتل، پاراچنار، میران شاہ، دتہ خیل، قمرالدین کاریز، گلستان اور نوشکی شہر آباد ہیں۔ 28 مئی 1998 کو پاکستان کی جانب سے کئے جانے والے 6ایٹمی دھماکے بھی اسی سرحد کے قریب چاغی ہلزمیں کئے گئے تھے۔

4- پاکستان-ایران :-909 کلومیٹر لمبی پاکستان ایران سرحد کے ایک جانب بلوچستان کے اضلاع، چاغی، واشک، پنجگور، تربت اور گوادر جبکہ دوسری جانب ایران کا صوبہ سیستان و بلوچستان ہے۔ 1957 میں ایران سے کیئے گئے ایک سرحدی معاہدے میں اسے بین الاقوامی بارڈر اور حتمی قرار دیا گیا۔پاکستان اور ایران کا یہ بارڈر پر امن سرحدوں میں سے ایک ہے۔
اس پوری سرحد پہ سب سے بڑی کراسنگ ''کوہِ تفتان'' کے مقام پر ہے۔

کوہِ تفتان یا تفتان ضلع چاغی میں واقع ہے اور کوئٹہ شہر سے 600 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ایران کی طرف سے یہ آخری پاکستانی شہر ہے جبکہ اسکی دوسری جانب ایرانی شہر ''میر جاوا'' ہے۔تفتان بارڈر ایران کیساتھ پاکستان کی اکلوتی سرکاری اور قانونی سرحدی گزرگاہ ہے جو مقامی لوگوں میں ''روڈ ٹو لندن'' کے نام سے مشہور ہے کیونکہ یہ اسمگلنگ کے حوالے سے ایک مشہور و معروف گزرگاہ ہے۔

کوئٹہ سے ایرانی شہر زاہدان جانے والی ریلوے لائن کوہِ تفتان اور میر جاوا سے گزر کہ جاتی ہے۔اسکے علاوہ ایران کی جانب سے صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہر ''پیشین'' کے مقام پر بھی ایک کسٹم پوسٹ قائم کی گئی ہے جسکی دوسری جانب ضلع تربت کا شہر ''مند'' ہے۔پاکستان کی جانب، سینڈک، ماشخیل، گار اور ساحلی شہر جیوانی سرحد کے قریب واقع ہیں۔اگرچہ پاک ایران سرحد پہ جگہ جگہ چوکیاں اور قلعے نما مورچے قائم ہیں لیکن اسمگلنگ کی روک تھام کے لیئے ایران کی جانب سے سرحدی باڑ کو 10 فیٹ اونچی کنکریٹ کی دیوار سے بدلا جا رہا ہے جو تفتان سے مند تک بنائی جائے گی۔

حکومتِ پاکستان نے اس دیوار پر کوئی اعتراض نہیں کیا (کیونکہ یہ دیوار ایران اپنی حدود میں بنا رہا ہے) البتہ بلوچستان اسمبلی میں اس دیوار کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے۔
5- بحیرہ عرب :-پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب کا ساحل ہے جہاں پاکستان کی 1،046 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے جو مشرق میں ''سرکریک'' سے شروع ہو کر مغرب میں ''جیوانی'' تک جاتی ہے۔

یہ پاکستان کی سرحدوں میں پست ترین علاقہ ہے۔
بحیرہ عرب کے کنارے واقع علاقوں میں ٹھٹھہ، کراچی، لسبیلہ اور گوادر کے اضلاع شامل ہیں جبکہ بن قاسم، کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں بھی یہاں واقع ہیں جو پاکستان کی تجارت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اہم ساحلی شہروں میں سسونمیانی، اورمارہ، پسنی، جیوانی اور ہاد شامل ہیں۔ دریائے سندھ، حب اور ہنگول کے طاس بھی اسی پٹی پر واقع ہیں۔

صوبہ سندھ کے ساحلوں کے قریب پائے جانے والے ''مینگروو'' کے جنگلات اور بلوچستان کے ساحل پر مکران کوسٹل ہائی وے اور ہنگول نیشنل پارک دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہاں موجود کئی چھوٹے بڑے جزیرے، کھاڑیاں ، مچھلی پالنے کے تالاب، نمک جمع کرنے کے تالاب، دلدلی علاقے، چمرنگ (مینگروو) کے جنگلات اور ایک خوبصورت لائٹ ہاوٴس پاکستان کے ساحل کی خوبصورتی میں قابلِ ذکر اِضافہ کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی صورت میں ہم پرخاص کرم فرمایا ہے اور ہم اسکی ناشکری کرتے ہوئے اس نعمت کو ضائع کر رہے ہیں۔ آئیں اس بات کا عہد کریں کہ ہم اپنے ملک اور اسکی سرحدوں کی حفاظت تن من دھن سے کریں گے، اپنی تمام تر صلاحیتیں اسکے لیئے وقف کر دیں گے اور اسکی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں گے۔
پاکستان۔۔۔ زِندہ باد
ہم تومرجائیں گیاے ارضِ وطن،لیکن تْجھ کو
زِندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

border Pakistan ke is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 April 2019 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.