ڈیموں کی تعمیر پر چیف جسٹس کا عزم صمیم قابل تحسین

کیا نگران حکومت شفاف انتخابات کرانے میں کامیاب ہو پائے گی؟ پاناما سکینڈل میں شریف خاندان کا کڑا احتساب

جمعہ 20 جولائی 2018

demo ki taamer par cheif justice ka azm Samim qabil tehseen
امیر محمد خان
شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے رہنما ہونے کے ناطے عوام کیلئے ہی کام کرتے ہیں اس کا ایک ثبوت انہوں نے اپنے حلقے میں زچہ بچہ ہسپتال کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا احکامات کو جوان کے ہمراہ علاقے کا دورہ کررہے تھے بہت دل سے سراہتے ہوئے ا نہیں طویل عمر کی دعا کی حالانکہ اس وقت زچہ بچہ شیخ رشید کا ہرگز مسئلہ نہیں حالانکہ ان کے اتحادی تین شادیاں کر چکے ہیں مگرشیخ رشید پر تاحال کوئی اثر نہ ہوا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم ، اور دیگر ڈیمز کی تعمیرات کرانے کیلئے ارادہ کیا جس کیلئے انہوں نے عندیدیا ہے کہ قرضے معاف کرانے والوں سے پیسے نکلوائیں گے اور ڈیم بنائیں گے، یہ ایک اچھی سوچ ہے۔ اللہ تعالی کرے ایسا ہو چونکہ ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ چاہے سیاست دانوں کا کیا ہوا ایماندار انہ وعدہ یاکسی محکمے کی جانب سے ،اس کا وقت آنے سے پہلے ہی حکومت تبدیل ہو جاتی ہے یا پراجیکٹ کی خواہش رکھنے والا اپنی ملازمت کی معیارختم کر بیٹھا ہوتا ہے اور لوگ دل میں ملک کی بہتری کی خواہشات لئے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ملک میں بہت ہی زور و شور سے انتخابی موسم چل رہا ہے اور لگتا ہے کچھ نئے انداز میں چونکہ لوگ تماشے دیکھ دیکھ کر عمر بیتا چکے ہیں، اعتماد کا فقدان خطرناک حد تک زور پڑ چکا ہے جو یہ ان ممالک کے نظام میں زہر قاتل ہے جو جمہوری نظام رائج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ہمارے ہاں تو جمہوریت کا شور غوغا ہے صرف، جمہوریت میں تو انتقال اقتدارعوام کی رائے کے مطابق ہوتا ہے اس میں ایک جمہوری حکومت دوسری منتخب حکومت کو اقتدارحوالے کرتی ہے اور عوام کی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے، اس میں کسی” نگران حکومت “کی انتخاب کرانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ، پڑوس میں اپنے دشمن کے جمہوری نظام سے بھی ہم سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔

پھر اس مرتبہ انتخاب سے قبل ہی تحر یک انصاف طے کر چکی ہے کہ اس کی حکومت ہوگی ، پاناما سکینڈل میں ملوث افراد میں سے قرعہ فال سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے نام نکلا اور انہیں گھسیٹ لیا گیا انہیں ابھی تک گھسیٹے جارہے ہیں۔ ضیاء الحق کی پی پی پی کے خلاف مہم کو سامنے رکھ کر مگر کسی اور انداز میں مسلم لیگ کو دیوار سے لگانے کی تمام تر کوششیں زور شور سے جاری ہیں مسلم لیگ کے لیڈران نے اگر چوریاں کی ہیں تو 2 ہفتہ صبر کر لیا جائے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا جب تک تو کم از کم صبر کر لیا جائے تا کہ انتخابات میں اس کا اشارہ نہ ملے کہ ایک جماعت کو عتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

دنیا میں انتخابات پر نظر رکھنے والے ممالک بھی اسی ملک کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جہاں انتخابات واقعی شفاف ہوں انتخاب کے دن پولنگ بوتھ پر پاک افواج کی شفاف انتخابات کرانے اور امن وامان کی ذمہ داری ہے مگر اصل کام تو پہلے شروع ہو چکا ہے، شفافیت کیلئے بقیہ متعلقہ اداروں کو پہلے دن سے توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔تحر یک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کیلئے ہزاروں امیدوار تھے جو ایک اچھی بات ہے مگر اب ان میں سے اکثر خاص طور پرمسلم لیگ ن سے آزادانتخاب لڑنے کو ترجیح دے رہے ہے، یہ آزاد امیدوارلوٹوں کی ایک نئی شکل ہوگی، کسی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ کرفتحس حاصلکر کے اگر حکومت بنانے والی جماعت تک رسائی ہو بھی گئی تو حکومت کے مزے اٹھانے کیلئے حکومتی جماعت میں جانے میں قانونی قباحتیں ہوتی ہیں ، دوبارہ انتخاب میں جانا پڑتا ہے اس کا مطلب پھر مقابلہ اور ایک دو کروڑ روپے کا خرچہ( الیکشن کمیشن کی جانب سے 40 لاکھ اور 20 لاکھ کے اخراجات کی پابندی تو ایک ڈرامہ ہے جس کی خلاف ورزی کو ثابت کرنا آسان نہیں بلکہ ناممکن ہے )اسلئے منافق لوگ آزاد امیدوار بن جاتے ہیں تا کہ جو جماعت بھی حکومت بنانے جارہی ہو وہ کود کر پہنچ جائیں جس جماعت کو حکومت بنانے کیلئے مطلوبہ نشستیں نہ ہوں وہاں جا ئیں نہ صرف حکومت کے مزے اٹھا ئیں وزارتیں حاصل کر لیں ، انتخاب میں خرچ شدہ رقم اس جماعت سے لے لیں ور نہ وزیربن کر یا حکومت کا ساتھ دیکر وہ اخراجات بمعہ اچھے خاصے سود کے ساتھ خصارہ پورا کر لینگے ۔

نواز شریف کا یہ الزام ہے کہ کوئی ایسا کرارہا ہے پہلے جماعت تبدیل کرائی، جو باقی رہ گئے ان میں ایک بڑی تعداد سے ٹکٹ واپس کرادئے، ان کی سوچ بھی شائد صحیح ہومگر اس وقت اسطرح کے لوگ طے نہیں کر پار ہے کہ” منجھی کتھے ڈ ھاواں “اسکی سب سے بڑی وجہ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ میں ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف واضح طور پرتا دیبی کاروائیاں ،نا اہلیت کی تلواریں جیسا غیر واضح موسم ہے، تو یہ بے چارے کروڑوں روپے لگا کرمسلم لیگ ن سے کیوں انتخاب لڑیں ،مسلم لیگ کوئی نظریاتی جماعت تو ہے نہیں جہاں نظر یہ پر ڈٹ جائیں ،مجھے تک یہ بھی احساس ہے کہ اگر میاں نواز شریف اور مریم بی بی نے لندن سے آکر انتخابی مہم میں حصہ لیاجو اپنے بیانیہ پرقائم رہیں گے ایسے میں بڑے بھائی اور تمام تر خاندانی احترام کے باوجود میاں شہباز شریف مشکل محسوس کرینگے ۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کا جم غفیر میاں نواز شریف اور مریم نواز کے جلسوں میں ہو گا ۔امیدوارں کے انتخابی مہم میں نوجوان جوووٹرز بھی نہیں انکی امید وارں کے خلاف نعرے بازی اور تشدد کی کو شش بھی قابل افسوس ہے جس پر نگران حکومت کو چاہئے کہ مقامی انتظامیہ کی سخت سزاوں کے ذریعے روکے ورنہ خدا ناخواستہ انتخابات میں خاص طور پر پنجاب میں جو کچھ ہو گاوہ ملک کیلئے تماشہ ہوگا اورانتخابات کے کھٹائی میں پڑنے کا اند یشہ ہو سکتاہے ۔

انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں یہ امر طے ہے کہ شیخ رشید اپنے حلقے سے ہمیشہ کی طرح انتخاب جیت جائیں ،گوکہ اس موقع شیخ رشید کے ہمراہ چیف جسٹس کا انکے علاقے کا دورہ مخالفین کو ششدر کر رہاہے انتخاب کے بعد انکے علاقے کا ’ زچہ وبچہ‘ ہسپتال شیخ رشید کے استعمال میں بھی ضرور آنا چاہئے ،سیاست میں بیگم کاہو ناضروری ہے ،ایک جماعت اپنی بیگم کی شہادت کو استعمال کرتی ہے ،دوسری جماعت بیگم کے کہنے پر مزاروں پر منت مانتی ایک جماعت (اللہ تعالیٰ صحت عطاکر ے ) اپنی خاتون اول کی تیمارداری کرہی ہے اور مخالفین اسے بھی تماشہ بنا رہے ہیں اور ہمارے ہاں فی الحال حکومت کی خواہش رکھنے والی تین ہی جماعتیں ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

demo ki taamer par cheif justice ka azm Samim qabil tehseen is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 July 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.