کشمیر لہو لہو

5 اگست 2019 سے نافذ ہونے والا کرفیو ابھی تک جاری ہے۔۔۔اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر، جنوری اور اب تو فروری بھی شروع ہو گیا ہے۔۔اور یہ سوچتے ہوئے دل و دماغ میں ایک شدت کی ٹیس اٹھتی ہے۔۔۔ آہ چھ ماہ ہوگئے

اتوار 2 فروری 2020

Kashmir lahoo lahoo
تحریر: نتاشہ عبدالستار 

کیا غم زندگی سناؤں میرا کشمیر جل رہا ہے
میں خوشی کہاں سے لاؤں میرا کشمیر جل رہا ہے
تمہیں یہ گلہ ہے دوست کہ مزاج کیوں ہیں برہم
کہو کیسے مسکراؤں میرا کشمیر جل رہا ہے
ہے ڈگر ڈگر موت ہے قدم قدم شہادت
سرے راہ نہ ڈگمگاوں میرا کشمیر جل رہا ہے
میرا زخم زخم ہے سینہ تو لہو لہو ہے سفینہ
میں سکوں کیسے پاؤں میرا کشمیر جل رہا ہے۔

دعا کرنا اس سال میرا کشمیر آزاد ہو جاے 
(نامعلوم شاعر)
دنوں سے ہفتے، ہفتوں سے مہینے گزر گئے ہماری شہ رگ پنجہ ہنود میں بری طرح جھکڑی ہوئی اور ہم کشمیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔۔
بھلا کشمیر سے ہم کو یہ کیسی محبت ہے؟
پھر ایسی محبت کی انھیں بھی کیا ضرورت ہے
لہو سستا نہیں اُن کا, جو برتی اتنی غفلت ہے
آج کشمیر میں کرفیو نازل ہوئے 181 دن ہو چکے ہیں 
کہنے کو بہت آسان ہے 181 دن.....
 5 اگست 2019 سے نافذ ہونے والا کرفیو ابھی تک جاری ہے۔

(جاری ہے)

۔۔اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر، جنوری اورل اب تو فروری بھی شروع ہو گیا ہے۔۔اور یہ سوچتے ہوے دل و دماغ میں ایک شدت کی ٹیس اٹھتی ہے ۔۔۔ آہ چھ ماہ ہوگئے۔۔۔۔72 سال سے ''کشمیر بنے گا پاکستان '' کے نعرے لگانے والے کشمیری۔۔۔تیسری نسل تک آ پہنچے۔۔۔ اپنے آباؤ اجداد سے سینہ بہ سینہ پاکستان کی محبت میں جینا مرنا سیکھا۔۔۔ اپنے عزیز ترین رشتے پاکستان کی محبت میں کھوئے۔

اپنے مال مویشی کھیت کھلیان۔۔کاروبار۔۔۔۔۔ پاکستان پر وار دئیے۔۔دن رات بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کے خوف میں گزارا۔۔
ذرا سوچو محسوس کرو اس تکلیف کو ان لوگوں کے درد کو محسوس کرو کہ جہاں 181روزہ کرفیو ہے۔ خود کو رکھ کر دیکھو ان کی جگہ...!آج 181 روز سے تم گھر کے اندر بند ہو تمہارے بچے اندر تڑپ رہے ہیں۔ تمہارے پاس روٹی نہیں ھے انھیں کھلانے کو۔

سوچو....!!تمہاری بیمار ماں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اور تم اس کو ہسپتال تو لے جانا دور کو بات تم اسے دوائی تک نہیں لا کہ دے سکتے۔ سوچو...!! تم کتنے بے بس ہو کہ باہر تمہارے بھائی تمہیں مدد کے لیے پکار رہے ہیں اور تم باہر نہیں جا سکتے کیونکہ تمہارے دروازے پر وحشی درندہ کھڑا ہے۔سوچو تم اس وقت کو کہ جب رات گئے کچھ غنڈے جو کہ اسلحہ سے لیس ہیں تمہارے گھر پر حملہ کر دیتے ہیں۔

تمہارے بچوں کے سر پر بندوق تان کر تمہاری جوان بہن کو اٹھا لے جا رہے ہیں۔ وہ چیخ رہی ہے تمہیں پکار رہی ہے وہ تمہاری طرف حسرت سے دیکھتی ہے کہ کاش اس کا بھائی اس کو ان درندوں سے بچا پائے۔مگر افسوس تم بے بس ہو۔سوچا؟؟؟ سوچ کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔یہ کوئی برا خواب نہیں ھے حقیقت ہے اور تم اس حقیقت سے واقف ہو۔ وہ کوئی غیر نہیں ہیں ھمارے کشمیری بہن بھائی ہیں۔

وہ سب سے پہلے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ان کی امیدیں ہم سے ہیں۔جہاں کی اٹھانوے فیصد آبادی پاکستان سے الحاق چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔پاکستان جسکے آبی ذخائر اور زرخیز زمینوں کا انحصار کشمیر سے آتے گلیشئیرز کے پانی پر ہے۔۔۔ اگر بھارت کشمیر کو اپنے ملک میں شامل کرلیتا ہے تو دشمن ملک کی طویل ترین سرحد پاکستان کے ساتھ مزید طویل ہوجائے گی۔یہ تو کشمیریوں کا احسان ہے کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور بھارت سے نفرت کرتے ہیں ۔

بھارت اسی لئے وہاں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریفرنڈم نہیں کرواتا کہ اگر کروالیا تو کشمیر کی عوام پاکستان کے حق میں فیصلہ کردے گی،اور بھارت نے پاکستان میں کمزور بزدل حکومت دیکھتے ہوئے کیسا وار کیا۔۔۔۔۔چھ ماہ کے کرفیو کے دوران کتنی بار بھوک سے بلکتے بچوں کو ماں باپ نے یہ کہہ کر سلایا ہوگا کہ بس پاکستان ہمیں آزاد کر والے گا۔

کتنی بار بزرگ ناتواں لوگوں کو اولاد نے حوصلہ دیا ہوگا بس پاکستان سے ہماری مدد آنے والی ہوگی تو آپ کو ہاسپٹل لے جائیں گے دوا لا دیں گے ،کتنی بار گھروں سے اٹھائے جانے والے جوان بیٹیوں کی ماؤں کو یہ آس بندھی ہوگی کہ اب تو پاکستان ہمارے لء- ضرور کچھ کرے گا وہ ہمیں اس وقت بھارت کے ظلم میں اکیلا نہیں چھوڑے گا ۔اور کتنی جوان بیٹیوں کی گمشدگی پر ماؤں نے آہ و بکا کی ہوگی کہ اب بس حد ہوگئی ستر سال سے ہماری قربانیوں کو پاکستان والے رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

وہ ضرور ہماری مدد کو آئیں گے۔گھروں میں قبریں کھود کر دفنانے والوں نے کتنی بار اپنے کندھوں سے جنازے اتار کر دفناتے سوچا ہوگا کہ بس اب تو پاکستان ہمیں ضرور بھارت کے شکنجے سے نکالنے آئے گا۔لیکن افسوس صد افسوس ہم نے ان کے ہردن کی چڑھتی صبح کے انتظار کو سرشام ہی آگ میں جھونک دیا ۔افسوس ہم اُس قوم کا حصہ ہیں جو ڈرامہ میں دانش نامی کی ڈرامائی موت پہ تو رو پڑتی ہے لیکن کشمیر میں ہونے والے ظلم پہ آواز تک نہیں اُٹھاتی۔

اور دوسری طرف ڈرامہ کی آخری 20 منٹ کی قسط دیکھنے پہ 20 کروڑ تو خرچ کرلیتی ہے لیکن کسی غریب کو 20 روپے دینے پہ موت آتی ہے۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ھونے کی ایک وجہ یہ کئی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں۔ جب مقصد ایک آزادی ھے تو اتنی سیاسی پارٹیوں کا مقصد ...؟
اے ریاست مدینہ کے دعویداروں!محمد بن قاسم نے ایک عورت کی پکار پر سندھ فتح کرلیا تھا، اب پورا کشمیر لہو لہو ہوکر ہمیں پکار رہا ہے.....سوچیں بھارت شاطر کیسی چال چل گیا۔

۔۔۔ستر سال سے زائد قربانی دینے والوں کے ایک ایک آس امید اور توقع کو مار گیا۔خود کو رکھ کر سوچیں کہ دو مہینے تو کیا دو ہفتے کوئی آپ کو ایسے قید کردے تو اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں سے کتنی امیدیں لگا کر آپ ایک ایک لمحہ اذیت میں کاٹیں گے اور اگر وہ آپکی مدد کو نہ آئیں تو آپ کا کیا حال ہوگا؟؟؟ پھر دشمن خود ہی آپ کو آزاد کردے تو آپ اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں دوستوں کو گلے لگا سکیں گے؟؟؟ کہیں گے نا اس وقت کہاں مر گئے تھے جب مجھے دشمن نے قید کررکھا تھا؟؟؟ بچا لی اپنی معیشیت!!! ''بچا لیا اپنا سرمایہ!!!!بچا لیا اپنے ایٹمی ہتھیار اور اسلحہ!!!!! ''جمعہ کو آدھا گھنٹہ کھڑے ہولئے۔

۔۔۔۔اقوام متحدہ میں آگ لگی تقریر بھی جھاڑ لی۔۔۔۔۔۔دشمن دوہری چال چل کر صدیوں کی محبت، انسیت، امید، آس کو مٹی میں ملا گیا اور کشمیر کو ہضم کرگیالیکن امید ابھی باقی ہے۔۔۔ ہم اپنے آخری سانس تک اپنے کشمیری بہن بھائیوں کو نہیں بھولیں گے ان کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے،ہمارا خون ابھی سفید نہیں ہوا۔۔۔۔ان۔شاء اللہ ہم کشمیریوں کی محبت کا قرض ادا کرتے رہیں گے،ایک دن ضرور کشمیر آزاد ہوگا اور پاکستان کا حصہ بنے گا۔

ان شاء اللہ ۔یہ محبت یہ جذبہ ہم مرنے نہیں دیں گے ہم اگلی نسلوں تک ضرور منتقل کریں گے ۔ جب موت طے ہے تو کیوں نا ایسی موت آئے کہ ہمیں موت پر بھی فخر ہو۔ اپنے مظلوم کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف جہاد کریں اور شہادت حاصل کریں۔ ڈریے مت جب مرنا ہے ہی تو ایسی موت مریں کر روز قیامت سر اٹھا سکیں۔ ورنہ قیامت کے روز اپنی بہن بیٹیوں کو کیا جواب دیں گے۔ خدا کے لیے یکجا ہو جائیں کشمیر کے لیے اور کشمیریوں کے لیے۔
شہ رگ کے بغیر زندہ ہو؟ بڑے بے ضمیر ہو 
اب انتظار کس بات کا ہے مارو یا مر جاؤ

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir lahoo lahoo is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 February 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.