کشمیر میں کلسٹر بموں سے حملے

کشمیر کے سر سبز کوہسار زبانِ حال سے چیخ چیخ کر فریاد کر رہے ہیں کہ اب تو کلسٹر بم بھی ہمارا حُسن اُدھیڑ چکے، بھارت لاتوں کا بھوت ہے وہ مذاکرات سے کبھی نہیں مانے گا۔ بھارت کے پڑوس میں بہتّر سال رہنے کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ وہ باتوں سے سیدھا ہونے والا نہیں

Hayat abdullah حیات عبداللہ منگل 6 اگست 2019

Kashmir mein cluster bmon se hamlay
کشمیریوں کی بساطِ بدن پر کیسے کیسے زخم کُھدے ہیں، اُن کے خدّوخال اور عارض و رخسار پر کتنے گہرے گھاو انھیں بے کل کیے ہوئے ہیں؛ اس کے تصوّر ہی سے جسم و جاں میں برق سی کوند جاتی ہے۔ اب دنیا کے انتہائی خطرناک کلسٹر بموں نے کشیریوں کے بدنوں کو جھلسانا شروع کر دیا ہے۔ مگر ہم مصلحت کوشی کے کاشانے میں ڈیرے ڈالے مسرور اور مطمئن بیٹھے ہیں۔ ہم جدید عالمی حالات کے تقاضوں کی چھتری تلے پاؤں پھیلا کر محوِ استراحت ہیں۔


 مسئلہ کشمیر پر ہماری سرد مہری اب خطرات کی آخری حدود کو چُھونے لگی ہے۔ شاید ہم نے خود فریبی کے لیے یہ جواز گھڑ رکھا ہے کہ چوں کہ ہم اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں اس لیے بھارت جتنا بھی ظلم کر لے ہم اقوام متحدہ ہی کے فیصلے کے منتظر رہیں گے۔ بھارت چاہے کشمیر میں مزید 38 ہزار نئے فوجی لے آئے مگر ہم نے اقوام متحدہ کی طرف دیکھنے کے سوا کچھ بھی تو نہیں کرنا۔

(جاری ہے)

سو ہم بھارتی جبر کے باعث کلپتے کشمیریوں سے مسلسل بے اعتنائی برتے چلے جا رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر جن اقدامات کا متقاضی ہے ان سے ہم بے رخی ہی برتے جا رہے ہیں۔ ہمیں خبر بھی ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، ہم اچھی طرح جانتے بھی ہیں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان ایک بنجر اور ریگستان بن سکتا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے احبابِ بست و کشاد کشمیریوں پر بھارتی جبر و استبداد سے نظریں چُرائے، بُکل مارے بیٹھے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر ہمارے لیے کس قدر اَہم ہے اس کو پورے شدّومد کے ساتھ باور کروانے کی اشد ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جانب تکتے تکتے اہلِ کشمیر کی آنکھیں پتھرا چکیں مگر مسئلہ کشمیر کے متعلق اقوامِ متحدہ کے سینے میں اتنی برف جمی ہوئی ہے کہ کشمیریوں کی دل دوز آہ و زاریوں اور چیخ پکار کے باوجود اقوامِ متحدہ کی چھاتی میں تلاطم تو کجا کوئی خفیف سا ارتعاش تک پیدا نہیں ہوتا۔

بھارت کی یہ عادت پختہ تر ہوتی جا رہی ہے کہ وہ ہر موقِع پر ہمیں دولتیاں مارتا ہے اور ہماری سابقہ حکومتیں ان دولتیوں کو کسی شوخ و الّھڑ محبوب کی کج ادائی سمجھ کر بڑے اداب، سلیقے اور خوش اسلوبی کے ساتھ برداشت بھی کرتی رہی ہیں۔ ہماری حکومتوں کی اسی رَوش نے مسئلہ ء کشمیر کو کھٹائی میں ڈال رکھا ہے۔
 بن چکا ہے ایک مقتل وہ مسلماں کے لیے
 کٹ رہے ہیں بوڑھے بچّے اور جواں کشمیر میں
 اُن کی چیخیں اور آہیں کیوں کوئی سنتا نہیں؟ 
 لُٹ رہی ہیں مائیں، بہنیں، بیٹیاں کشمیر میں
صدیاں بیت چلیں ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ مسلمانوں کی تہذیب اور ثقافت کا مرکز ہے۔

1325 ء میں یہاں اسلام کے غنچے چٹکنا شروع ہوئے۔ اس خطّے کا پہلا مسلمان حکمران صدرالدّین تھا۔ اسلام کی نکہتیں اپنے تن من میں بسانے سے قبل وہ بدھ مت کا پیروکار تھا۔ صدرالدّین کے اسلام کے سانچے میں ڈھلنے کے بعد جموں و کشمیر میں اسلام کے شگوفے کِھلتے چلے گئے۔ 1327 ء میں صدرالدّین فوت ہو گیا تو ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ پھر غیر مسلموں کے تسلّط میں چلا گیا۔

1344 ء میں اس ریاست میں باقاعدہ طور پر مسلم حکومت قائم ہو گئی۔ سلطان شہاب الدین نے کشمیر میں مسلم حکومت کی بنیادیں مستحکم کیں۔ 1819 ء سے 1839 ء تک سکھوں نے کشمیر پر قبضہ جمائے رکھا۔ 1822 ء میں راجا رنجیت سنگھ نے جموں کا علاقہ گلاب سنگھ کو دے دیا۔ اسلام سے مخاصمت اور معاندت کی وجہ سے سکھوں نے مسلمانوں پر ظلم و جور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر برِصغیر پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انگریزوں کو یقین ہو چلا تھا کہ اب وہ ہندوستان پر قبضہ برقرار نہ رکھ پائیں گے، اس لیے وہ ایسی سازشوں کے جال بُننے میں لگ گئے کہ یہاں کے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ہندوؤں اور سکھوں کہ غلامی میں دے دیا جائے۔ تین جون 1947 ء کو برّصغیر کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا۔

مسلم اکثریتی علاقے مسلمانوں جب کہ ہندو اکثریتی خطّے ہندوؤں کے سپرد کرنے کا اعلان کیا گیا۔کشمیر میں نوّے فی صد مسلمان آباد تھے۔ اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق قانونی، مذہبی اور جغرافیائی تقاضوں کے ساتھ ساتھ تین جون کے تقسیمِ ہند کے فیصلے کے بھی عین مطابق تھا۔ 
مگر تین جون 1947 ء کے تقسیمِ ہند کے فیصلے کے بعد ماؤنٹ بیٹن اور مہاتما گاندھی فساد کے بیج بونے ایک وفد کے ہمراہ کشمیر گئے، انھوں نے مہا راجا سے ملاقات کر کے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی سازش کی۔

ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن نے ضلع گورداس پور کے مسلم اکثریتی علاقے کو بھارت میں شامل کر دیا۔اس طرح بھارت کو کشمیر پر قبضہ کرنے کا راستہ آسانی سے مل گیا۔ ڈوگر فوج نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و تشدّد کا بازار گرم کر دیا۔ اُس وقت لوگوں نے ایمانی حلاوت کے ساتھ '' کشمیر بنے گا پاکستان'' کے نعرے لگائے۔یہی وہ اصولی اور بنیادی موقف تھا جو اُس وقت سے لے کر آج تک اہلِ کشمیر کے قلوب و اذہان میں رچا بسا ہے اور یہی وہ خواہش ہے کہ جس کی تکمیل کے لیے ایک لاکھ کے قریب کشمیری مسلمان شہادت کو اپنے گلے لگا چکے ہیں۔

ہمارے بابا حضرت محمّد علی جناح نے بڑے تفکّر اور تدبّر کے ساتھ کہا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے قبل حکومت پاکستان کا کشمیر کے متعلق ٹھوس اور دو ٹوک موقف تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے مگر گیارہ ستمبر کے بعد یکا یک ایسے جھکّڑ چلے جو حکومتی ایوانوں سے اس موقف اور نعرے کو اُڑا لے گئے۔
خون کے آنسو روتی کشمیر کی وہ دل آویز وادیاں، اداسیوں کے حصار میں مقیّد تتلیاں، مغموم اور افسردو وہ بہاریں، وہ لہو رنگ یاسمین و نسترن اور وہ اشک فشاں بلبلیں اور قمریاں ہم سے شکوہ کناں ہیں کہ اور کتنی آستینیں بھیگنے کا انتظار کرو گے؟ اور کتنے آنچلوں کے تار تار ہونے کے منتظر ہو؟ اور کتنی بہاروں کے لُٹنے کے انتظار میں مصروف ہو؟ اور کتنی گود اور سہاگ اجڑنے کے بعد تم کشمیر کی آزادی کے لیے کھڑے ہو گے؟ 
کشمیر کے سر سبز کوہسار زبانِ حال سے چیخ چیخ کر فریاد کر رہے ہیں کہ اب تو کلسٹر بم بھی ہمارا حُسن اُدھیڑ چکے، بھارت لاتوں کا بھوت ہے وہ مذاکرات سے کبھی نہیں مانے گا۔

بھارت کے پڑوس میں بہتّر سال رہنے کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ وہ باتوں سے سیدھا ہونے والا نہیں، سو مذاکرات کی میز سجانے کی بجائے بھارت سے کشمیر چھینا جائے۔ بھارت کے موجودہ سفاکانہ حملوں کے بعد تو اس کے علاوہ کوئی چارہ ء کار نہیں بچا۔
 اُس وادیِ پُر خوں سے اٹھے کا دھواں کب تک؟ 
 محکومیِ گلشن پر روئے گا سماں کب تک؟ 
 محروم نوا ہو گی غنچوں کی زباں کب تک؟ 
 ہر پھول ہے فریادی آنکھوں میں لیے شبنم 
 کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
 ہر جابر و ظالم کا کرتے ہی چلو سَر خم

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir mein cluster bmon se hamlay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 August 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.