پچھلے کچھ دنوں سے کشمیر میں جنگ کا سماں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے۔ہر چھوٹے،بڑے اور ہر کس و ناکس کی زبان پر صرف ایک ہی بات ہے ''کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے'' شاید کچھ بڑا اور کچھ برا ہونے والا ہے جس سے کشمیر کے خرمن امن میں آگ لگ سکتی ہے۔عوام کی بے چینی بھی ایسے ہی نہیں ہے بلکہ کشمیر کا ماحول اس وقت خوف و ہراس سے بھرا ہوا ہے۔
سات لکھ فوجیوں کی موجودگی کے باوجود بھی بھارت نے پہلے مرحلے میں دس ہزار اور پھر دوسرے مرحلے میں مزید پینتیس ہزار فوجی کشمیر میں تعینات کئے۔
اس کے علاوہ فضائیہ کو بھی تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔گویا کشمیر میں اب جنگ کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں،صرف حکم ملنے کی دیر ہے اور میدان کارزار گرم ہوگا۔
(جاری ہے)
ان سب اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کشمیری عوام میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے تو یہ اچنبھے کی بات نہیں۔
کیونکہ بھلے ہی کشمیر میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوئے ہوں اتنا خوف و ہراس کبھی نہیں پایا گیا۔اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے تو یہ بات یقینی ہے۔لوگوں میں بے چینی کی وجہ یہ کہ بھارتی پارلیمنٹ میں 6 اور 7 اگست کو کشمیر کو حاصل خصوصی اختیار دفعہ 370 اور دفعہ 35 A کو بھارتی سرکار ختم کرنا چاہتی ہے۔جس کا دار و مدار ہونے والی پارلیمانی بیٹھک پر ہے۔
اگر ایسا ہو جاتا ہے اور دفعہ 370 یا دفعہ 35 A ختم کیا جاتا ہے تو کشمیر میں حالات انتہائی کشیدہ ہوں گے۔کیونکہ یہ دوسرے الفاظ میں کشمیر کے بقا کی جنگ ہوگی۔انہیں امکانات کو نظر میں رکھتے ہوئے لوگوں میں بے چینی بڑھ گئی ہے اور متوقع حالات سے نپٹنے کے لئے لوگ اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی میں لگے ہوئے ہیں۔
پچھلے تین دنوں سے بازاروں میں لوگوں کا اژدہام دیکھنے کو مل رہا ہے بالخصوص پیٹرول پمپوں اور کریانہ کی دکانوں پر۔
اسی طرح سکولوں اور کالجوں کو بند کر دیا گیا ہے۔یونیورسٹی میں مقیم طلباء کو بھی گھروں کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔امر ناتھ یاترا کو منسوخ کر کے یاتریوں کو واپس جانے کے لئے احکامات دئے گئے ہیں۔دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں سیاحوں کو ہنگامی بنیادوں پر کشمیر چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔گویا زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اگست کے آخر تک امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہو چکے ہوں گے۔صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے افغان امن کے معاہدے کا براہ راست کشمیر پر بھی اثر ہونا ہے۔تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب جب افغانستان میں امن ہوا،تب تب کشمیر میں میدان کارزار گرم ہوا۔
پھر چاہے وہ 1839 کا دور ہو جب برطانیہ نے افغانستان میں روسیوں کا نفوذ روکنے کے لئے افغانستان پر حملہ کیا۔اس دور میں کشمیر سکھ حکمرانوں کے زیر تسلط تھا اور کشمیر ان دنوں تباہ کن قحط سے سنبھل رہا تھا۔اس دور میں سکھ حکمرانوں نے قحط سے بچنے کے لئے لوگوں کو بغیر سود کے قرضے دئے اور زمینوں کی شرح میں پچاس فیصد کٹوتی کر دی۔کشمیر تو گویا زرعی انقلاب کی دہلیز پر تھا مگر افغانستان میں جونہی لندن اور کابل کے درمیان سمجھوتہ ہو کر 1842 میں سیز فائر ہوگیا تو کشمیر پر دوسری آمریت کا سولہ سالہ قہر نازل ہونے کی تیاری شروع ہوئی۔
1846 میں انگریزوں نے سکھ دور کا خاتمہ کر دیا اور گلاب سنگھ کو یہ خطہ مع آبادی نقدی رقم (75 لاکھ نانک شاہی سکوں) 75 lakh اور چند تحائف کے عوض بیچ دیا گیا۔اس طرح کابل میں امن کا قیام کشمیر میں مذہبی جبر،بے گار اور ظلم و ستم کی نوید لے کر آیا۔
1878 میں برطانیہ نے پھر افغانستان پر حملہ کر دیا۔لیکن ادھر کشمیر میں انگریزوں نے نے مہاراجہ رنبیر سنگھ پر دباؤ بڑھایا کہ کشمیر میں ظلم و ستم کی شکایات آ رہی ہیں لہٰذا سریندر میں انگریزوں کا ایک سفیر تعینات کیا جائے۔
دوسری طرف سریندر میں بسکٹ سکول،میلن سن سکول اور اسلامیہ ہائی سکول کی بنیادیں استوار ہوئیں اور جب پرتاپ سنگھ کشمیر کی تخت پر براجمان ہوئے تو نہ صرف یہاں انگریز ریزیڈنٹ نے عہدہ سنبھالا بلکہ کشمیر میں تعلیم کا نشات ثانیہ ہوا۔
1919 میں برطانیہ نے ایک بار پھر افغانستان پر حملہ کر دیا تو اس وقت کشمیری نوجوان حصول تعلیم کی خاطر لاہور اور علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے۔
افغان جنگ کے دوران لگتا تھا کہ اب مہاراجہ مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں حساس ہیں۔مگر کابل میں سیز فائر ہوا تو کشمیری دستکاروں پر ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی اور چند برسوں کے دوران ہی انہوں نے مزاحمت شروع کر دی۔ریشم خانہ پر فوج کسی اور ذالڈ گر میں شالبافوں کو غرقاب کرنے کے واقعات ابھی بھی کشمیری قوم فراموش نہیں بکر سکی ہے۔
اس کے بعد جب 1979 میں سویت یونین نے افغانستان پر فوج کشی تو کشمیر میں تعلیم و ترقی اور صحت عامہ کے شعبوں میں نئے باب لکھے جا رہے تھے۔
پھر جب سویت یونین نے طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے تو کشمیر اپنی تاریخ کے خونین انقلاب سے ہمکنار ہوگیا۔1989 میں باضابطہ مسلح مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا۔طالبان کی فتح کے ساتھ ہی کشمیر میں خاک اور خون کا سلسلہ چل نکلا۔یہ وہ دور تھا جب ایک طرف افغانستان میں امن قائم ہوا تو دوسری جانب کشمیر میں جبری گمشدگیوں،سیاسی ہلاکتوں،اجتماعی عصمت ریزیوں،گرفتاریوں اور ٹارچر کا دور دورہ تھا۔
اس دور میں کشمیر میں حالات قیامت کی حد تک خراب ہوئے۔پھر جب 2001 میں امریکی ٹون ٹاورز پر حملوں کے بعد امریکہ اپنے اتحادی افواج کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو کشمیر میں ایک دہائی پر محیط ظلم و ستم کی سیاہ رات چھٹنے لگی اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی برف پگھلنے لگی اور امن کا قیام ممکن ہو سکا۔یہ اس لئے کیونکہ افغانستان پر فوج کشی کرنے کے لئے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی لہٰذا بھارت کو پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر نرم رویہ اختیار کرنے کو کہا گیا۔
اسی دور میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کاروان امن بس سروس اور سمجھوتہ ایکسپریس کا آغاز ہوا جبکہ افغانستان پر مسلسل آگ و آہن کی بارش ہوتی رہی۔2016 میں جب امریکہ اور افغانستان میں امن مذاکرات کا دور شروع ہوا تو کشمیر ایک بار پھر میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔کیا یہ اتفاق ہے؟اب جبکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان درمیان افغان امن معاہدہ اپنی حتمی شکل کو پہنچ چکا ہے تو کشمیر میں یہ کشیدگی کا ماحول یونہی نہیں ہے۔
جنگوں کے خارجی اثرات ہر بار یکساں نہیں ہوتے مگر افغانستان اور کشمیر کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ افغانستان کے حالات کا براہ راست کشمیر پر اثر ہوتا ہے۔اس وقت جب امریکہ طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات کو بنانے کے لئے اور افغانستان سے عافیت سے نکلنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے تو کشمیر میں ایک بار پھر فضا جنگ آلود ہو رہے ہے۔
امریکی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں افواہ گرم ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا پر اتفاق ہو رہا ہے اور آجکل معاہدے کے مسودے پر کام ہو رہا ہے۔غالب امکان ہے کہ اگست کے آخر تک یہ معاہدہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہوگا۔امریکہ کی خواہش ہے کہ طالبان کی جانب سے ملا ہیبت اللہ اس معاہدے پر دستخط کر دیں مگر طالبان کا اعتراض ہے کہ زلمے خلیل زاد ملا ہیبت اللہ کے ہم منصب نہیں ہیں اسی لئے طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی اس معاہدے پر دستخط کریں گے۔
امریکہ کی خواہش تھی کہ معاہدے سے پہلے طالبان ایک بار کم از کم رسمی طور ہی افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے بات چیت کرے۔اس سلسلے میں ملا ہیبت اللہ اور افغان صدر کی ملاقات اسلام آباد میں تجویز کی گئی تھی اور کابل انتظامیہ اس ملاقات کے بارے میں اتنی پر امید تھی کہ ان کے وزیر مملکت برائے امن عبدالسلام رحیمی نے یہاں تک اعلان کیا تھا کہ اگلے دو ہفتوں میں طالبان کے ساتھ افغان حکومت براہ راست بات چیت کرے گی۔
مگر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان حکومت سے بات چیت کرنے پر دو ٹوک انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک تک افغانستان سے فوجی انخلا کا ٹائم ٹیبل جاری نہیں کیا جاتا،تب تک کسی بھی قسم کی بات چیت نہیں ہو سکتی۔تاہم دوسری طرف ملا ہیبت اللہ نے اسلام آباد آکر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے بات چیت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد کی طرف سے امیر المومنین ملا ہیبت اللہ کو دعوت دی جاتی ہے تو وہ ضرور برادر اسلامی ملک کا دورہ کریں گے۔
اس بات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے امکانات روشن ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلا کے اقدامات تیز کر دئے ہیں اور پہلے مرحلے میں افغانستان سے پانچ ہزار فوجی واپس بلائے جائیں گے۔اور اس کے بعد باقی فوجی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد واپس بلائے جائیں گے۔امریکہ یہ پانچ ہزار فوجی اس وجہ سے نکال رہا ہے تاکہ طالبان کو یہ یقین دلا سکے کہ وہ صاف نیت ہیں اور افغانستان سے فوجی انخلا چاہتے ہیں۔
تاہم طالبان مذاکرات کار دستے کے سربراہ مالا عبدالغنی ان دنوں انڈونیشیا کے دورے پر ہیں جس کے بعد شاید وہ چین جائیں گے اور پھر قطر پہنچ کا معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔امریکہ کی خواہش تھی کہ معاہدے سے پہلے طالبان افغان صدر سے بات چیت کر لیتے مگر طالبان نے یہ بات واضح کرتے ہوئے کہا کہ فوجی انخلا کا ٹائم ٹیبل جب تک جاری نہیں کیا جاتا تب تک طالبان کابل کے ڈاکٹر صاحبان سے کسی بھی قسم کی بات چیت نہیں کریں گے۔
مزید یہ کہ معاہدہ امن ہونے تک طالبان جہاد جاری رکھیں گے۔
اس صورتحال کو دیکھ کر یہ بات عیاں ہے کہ امریکہ اب افغانستان سے اپنا بوریا بستر باندھ رہا ہے۔طالبان کی فتح سے قبل بھارت کو افغانستان میں جو برتری حاصل تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے۔اب پاکستان کو افغانستان میں واضح برتری حاصل ہے۔بھارت نے جو اربوں روپے کی سرمایہ کاری افغانستان میں کی تھی وہ اب ڈوب چکی ہے۔
مزید یہ کہ اب پاکستان افغانستان کے مسلے سے آزاد ہو رہا ہے۔اور پاکستان کی پوری پوری توجہ اب مسئلہ کشمیر پر مرتکز ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ اگر افغان امن معاہدہ ہو جاتا ہے تو بھارت کے لئے مشکل حالات سامنے آتے ہیں۔اول تو یہ کہ پاکستان افغانستان کی طرف سے محفوظ ہوگا اور اس کی ساری توجہ کشمیر پر مرکوز ہوگی۔دوم یہ کہ افغانستان کے حالات کا کشمیر پر صدیوں سے اثر انداز ہوتے آنا ہے۔
یعنی جب جب افغانستان میں امن ہوا،کشمیر کی فضا جنگ زدہ ہوگئی۔نوے کی دہائی میں جب افغانستان میں طالبان نے کنٹرول حاصل کیا تو میجر مست گل اور اکبر بھائی جیسے افغان کمانڈر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔بھارت کو اب یہ تشویش کھائے جا رہی ہے کہ جونہی ایک طرف امریکہ افغانستان سے فوجیں نکالے گا تو دوسرے ہی لمحے طالبان کشمیر میں آ دھمکیں گے اور کشمیر کی فضا ایک بار پھر جنگ زدہ ہوگی۔
اسی بھارت کی حتی الامکان یہی کوشش یہی ہے کہ یا تو افغان امن معاہدہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ پائے یا پاکستان کو کشمیر کے محافظ پر گھسیٹ کر افغانستان سے توجہ ہٹانے پر مجبور کیا جائے۔سرحدوں پر جہاں تک چھیڑ چھاڑ اور فائرنگ کا مقصد ہے تو یہ بات بالکل سہی ہے کہ بھارت کو اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہے کہ اس کی فوج کو چونکہ دو بدو جنگ لڑنے گا تجربہ نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان کی فوج گوریلا جنگ لڑنے میں ماہر ہے۔
لہٰذا بھارت اب پیشگی خطرے سے نمٹنے کے لئے کشمیر کو میدان جنگ بنا رہا ہے تاکہ اس کی فوج کو تربیت مل سکے اور مستقبل میں اگر انہیں چین سے یا کسی اور ملک سے لڑنا پڑا تو کوئی دقت نہ آ سکے۔
یہ صورتحال نہایت ہی مخدوش ہے۔بھارت افغانستان سے نکل باہر ہو چکا ہے۔اور طالبان کا جھکاو پاکستان کی جانب ہے، یہ بات بالکل عیاں ہے۔
گویا اب بھارت افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ کشمیر میں لڑنا چاہتا ہے۔
وجہ کچھ بھی ہو۔چاہے کشمیر اور لداخ کو یونین ٹریٹری بنایا جائے اور جموں کو الگ ریاست کا درجہ دیا جائے یا دفعہ 370 اور دفعہ 35 A کو ہٹایا جائے۔کشمیر میں اگر حالات خراب ہوگئے تو شاید یہ گذشتہ ستر سالوں میں ہونے والی سب سے بڑی غلطی ہوگی اور سب سے بڑا خونی دور ہوگا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔