کشمیر مل سکتا ہے

کشمیر وہ گلشن شاداب ہے جو کسی کی جاگیر نہیں،کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت اور رائے شماری ہے جو خود ہندوستان 1947 میں سیز فائر کے وقت لے کر گیا تھا

Murad Ali Shahid مراد علی شاہد جمعہ 30 اگست 2019

Kashmir mil sakta hai
چہار اطراف کرفیو کی خار دار تاروں سے جکڑا کشمیر تیسرے عشرے میں داخل ہو گیاہے،وادی جنت نظیر بوٹوں کی چاپوں،گولہ بارودکی سرخیوں،ہندو بنئے کی ہٹ دھرمیوں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے سایہ تلے مسموم ارادوں سے نرگ کا سماں پیش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔چنار لہو لہان ہیں،جھیلیں کشمیریوں کے خون سے سرخ ہیں،آبشاریں سرخی مائل،ہر طلوع ہوتا ہوا سورج تابداری کی بجائے اماوسی رنگ لئے ابھرتا ہے۔

لیکن دنیا کے منصفوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہندو بنئے کی سنگینوں اور سنگین حالات سے خدا کے شیروں کو پابند سلاسل تو کیا جا سکتا ہے لیکن غلامی پر کبھی مجبور نہیں کیا جا سکتا،اس لئے کہ ہر کشمیری سمجھتا ہے کہ بیڑیاں پاؤں کے لئے ہوتی ہیں اذہان کے لئے نہیں،کشمیری اس فلسفہ حیات سے بھی واقف حال ہیں کہ 
بیڑیاں پاؤں میں نہیں ہوتیں
لوگ ذہنی غلام ہوتے ہیں
کشمیری بھائیوں کا خیال ہے کہ پابجولا انسان ایک نہ ایک دن اپنے عزم صمیم سے ان آہنی زنجیروں سے آزادی حاصل کر ہی لیتا ہے لیکن غلام لوگوں اور قوموں کے ذہن غلامی کی بیڑیوں میں ہمیشہ مقفل ہی رہتے ہیں ان کی رہائی عالم کل کے چاہنے سے بھی ممکن نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

کہتے ہیں جب امریکہ میں غلامی عروج پر تھی تو ایک ہیرئٹ نامی خاتون نے خفیہ تنظیم بنائی جو غلاموں کو بھاگ جانے میں مدد کرتی تھی ایک بار اس خاتون سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے اس مشن میں سب سے مشکل مرحلہ کون سا ہوتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ”غلام کو ترغیب دینا کہ تم غلام نہیں ہوتم آزاد ہو سکتے ہو“ایسے ہی فلسفہ کا اظہار لیو ٹالسٹائی نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب”جنگ اور امن “میں کیا ہے کہ”اگر جیل کے قیدیوں کو اپنی مرضی سے جیلر کے انتخاب کا حق مل جائے تو وہ آزاد نہیں ہو جائیں گے قیدی ہی رہیں گے“لیکن کشمیری اس فلسفہ فکر کو ہر نومود کو سونپتے ہیں کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“کشمیر کا ہر کشمیری عرصہ ستر سال سے یہ فلسفہ حریت پیدا ہونے والے بچے کی گھٹی اور وراثت میں سونپتا ہے۔

کشمیر وہ گلشن شاداب ہے جو کسی کی جاگیر نہیں،کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت اور رائے شماری ہے جو خود ہندوستان 1947 میں سیز فائر کے وقت لے کر گیا تھا۔آرٹیکل370 یا A35 کا خاتمہ دراصل اقوام متحدہ کی ان قراردوں کو کھلا چیلنج ہے جو مختلف اوقات اور اجلاسوں میں دونوں ممالک نے پیش کیں۔اب چونکہ کشمیر کی آواز بین الاقوامی صدائے حق بنتی جارہی ہے،وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ روز اپنی تقریر میں اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ پوری دنیا میں نہ صرف مسئلہ کشمیر کو نئے سرے سے اجاگر کریں گے بلکہ وہ کشمیر کی آواز اور سفیرِکشمیر بن کر اقوام عالم کی توجہ اس مسئلہ کی طرف مبذول کروائیں گے،چلئے بہتر سالوں بعد کوئی تو ایسا حکمران آیا جس نے یہ ارادہ تو کیا کہ بس اب اور کچھ نہیں بس مسئلہ کشمیر کا حل چاہئے۔

اگر تعصب کی عینک اتار کر چشم کشا سے مشاہدہ کیا جائے تو وزارت خارجہ اور خود وزیر اعظم عمران خان مسئلہ کشمیر پر بہت رنجیدہ و سنجیدہ ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کاز کے لئے دنیا کی رائے کو کشمیر کے حق میں کرنے کے لئے بلاشبہ شب وروز ایک کر رکھے ہیں۔انہوں نے اس سلسلہ کے لئے تمام ذرائع اظہار کو استعمال کرنے میں موئی کسر اٹھا نہیں رکھی،سیاسی،سفارتی اور قانونی وآئینی ہر وہ پلیٹ فارم استعمال کرنیکا ارادہ کیا ہوا ہے اور ہر وہ راستہ اختیار کرنے کی سعی میں مصروف عمل ہیں جو مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف جاتا ہو۔

وہ ذاتی دورہ ہو،سفارتی خطوط یا ٹیلی فونک رابطہ ہو ان تمام ذرائع کے استعمال کا ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں کشمیر کی آواز اٹھانے میں کامیاب ہوجائے۔اور اقوام عالم کی توجہ اس طرف مبذول کروانے میں کامیاب وکامران ہو جائے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور وہ کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یہ بھی ان کا اپنا فیصلہ ہے،اس پر کوئی ملک جبر ،ظلم،استبداد اور زور زبردستی سے اپنی حاکمیت قائم نہیں رکھ سکتا۔

ہندوستانی فوج کو ایک دن اس خطہ مقدس سے نلکنا ہوگا۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستان بزور طاقت کشمیر پر قابض رہنا چاہتا ہے یہ کہہ کر کہ کشمیر ان کا اٹوٹ انگ ہے،مسلسل کرفیو کا نفاذ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے،ہماری وزارت خارجہ کی طرح ان کی وزارت بھی خاموش نہیں ہے ان کی بھی پوری کوشش ہے کہ دنیا کی رائے کو اپنے حق میں کیا جائے تاکہ کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں،خاص کر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ایک نیا موڑ دیں کیونکہ بہت سے اسلامی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے سیاسی،معاشی اور خارجہ تعلقات پاکستان سے مضبوط سمجھے جاتے ہیں جس کی ایک مثال متحدہ عرب امارات کا مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ”آرڈر آف زید“کا عطا کرنا۔

لیکن ان سب اسباب کے باوجود ہندوستان کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ کشمیر ان کا اٹوٹ انگ ہے بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کے انگ انگ کو ہی توڑ دیا جائے،وزیر اعظم کے ارادوں سے تو لگتا ہے کہ اب مسئلہ کشمیر حل ہو کر ہی رہے گا،انشا اللہ لیکن ایسے
کشمیر مل سکتا ہے
شمشیر اٹھا لی جائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir mil sakta hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 August 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.