پاکستان امت مسلمہ کا ایک قلعہ ہے جس نے ہمیشہ دنیابھرکے اسلامی ممالک کے مابین ایک پُل کا کردار ادا کیا ہے ، پاکستان نے ا و آئی سی کے ذریعے بھی تنازعات کے حل کے لئے ضرورت پر زور دیا ہے ، یہ پاکستان ہی تھا جس نے1969میں مراکش کے شہر رباط میں اسلامی کانفرنس کے نام سے ایک مستقل ادارے کی تشکیل کی تجویز پیش کی جس پر تمام اسلامی ممالک نے حمایت کی اور اسلامی کانفرنس کا قیام عمل میں لایا گیا ۔
اگر اسلامی کانفرنس کے منشور کو دیکھیں تو اس میں فلسطینی عوام اور مقدس مقامات کا تحفظ و دفاع ، مسلمانوں کی جدوجہد کی حمایت، سیاسی سماجی شعبو ں میں تعاون، عالمی سلامتی کے اصولوں کی پاسداری وغیرہ شامل ہیں، پاکستان نے حالیہ ایران امریکہ تنازعات کو حل کرنے کے لئے او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ایران و امریکہ کے مابین تناؤ ختم ہوسکے اور جنگ کے منڈلاتے بادل چھٹ جائیں کیونکہ جنگ کسی صورت میں کسی کے مفاد میں نہیں۔
(جاری ہے)
اس سال نیوزی لینڈ کے شہر کرائٹس چرچ میں جو سانحہ برپاہوا اس نے دنیابھرکے مسلمانوں کو کسی حد تک قریب کردیا ہے لیکن اس کے بعد پھر امت مسلمہ مختلف معاملات پر بکھری بکھری سی نظر آتی ہے گزشتہ روز کرائٹس چرچ میں شہداء کی فیملیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے انٹر فیتھ بائیک رائیڈ کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد عیدالفطر کے موقع پر اظہار یکجہتی کرکے مذہبی ہم آہنگی پیدا کرناتھا ،نائن الیون کے بعد دنیابھرمیں مسلمانوں کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی قوموں میں شمار کرکے تہذیبوں کے مابین تصادم پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کی آگ میں آج بھی کئی مسلمان ممالک جھلس رہے ہیں، عراق، افغانستان، شام ، یمن اور دیگر مسلمان ممالک میں خانہ جنگی کاسماں ہے جبکہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔
ان حالات میں ایران کو بھی جنگ میں جھونکنے کی کوشش میں اپنے پرائے سب متحد نظر آتے ہیں ، سانحہ نیوزی لینڈ سے کوئی سبق نہیں سیکھاگیا اور آج یہ عالم ہے کہ ایک ایک کرکے تمام اسلامی ممالک کو تباہ و برباد کرنے کی اسلام دشمن پالیسی پر عمل درآمد جاری ہے ، سانحہ نیوزی لینڈ کے فوراً بعد پاکستان نے او آئی سی کے اجلاس طلب کرنے کی تجویز دی جس پر بائیس مارچ کو استنبول ، ترکی میں اجلاس کا انعقاد ہوا ، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس موقع پر جن خیالات کا اظہار کیا وہ امت مسلمہ کے ہرمسلمان کے دل کی آواز قرار دی جاسکتی ہے، 1920میں جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ترکی کے حصے بکھرے کرکے عالمی طاقتوں نے ایک معاہدہ کیا تھا کہ ترکی کے اندر اسلامی تعلیمات کو فروغ نہیں دیاجائے گا اور نہ ہی ترکی اسلامی تحریکوں کی حمایت کرے گا۔
اس معاہدے کی پابندی آئندہ سال2020میں مکمل ہو جائے گا جس کے بعد ترکی عالم اسلام کے ایک نئے ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے گا ، خلافت عثمانیہ کے دورمیں موجودہ سعودی عرب، عراق، کویت، شام ، اردن، یمن وغیرہ جیسے کئی ممالک خلافت عثمانیہ کا حصہ رہے اور تین براعظموں میں خلافت عثمانیہ کی حکومت رہی، لیکن اس کے بعد ان تما م صوبوں کو الگ الگ مملکت کی حیثیت دے کر انگریزنے ڈیوائڈ اینڈ رول کے فارمولے پر عمل کیا اور آج امت مسلمہ کا اتحا دپارہ پار ہ نظر آرہا ہے۔
گزشتہ دنوں او آئی سی کے اجلاس میں مسلم امہ کے حقوق کے تحفظ کے لئے مل جل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور کشمیر ، فلسطین میں جاری جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے الگ کرنے کا مطالبہ دہرایاگیا، سعودی عرب کے شہر مکہ میں ہونے والے اس غیر معمولی اجلاس میں پاکستان کی قیادت وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سعودی فرمانرواکی دعوت پر کی ، وزیراعظم پاکستان نے او آئی سی کے غیرمعمولی اجلاس میں پوری مسلم امہ سے مطالبہ کیا کہ او آئی سی کے ممبران ممالک و سربراہان اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور اسلام کے درست تشخص کو اجاگر کیا جائے،ہمیں اس سلسلے میں اپنی تعلیم و تحقیق پر توجہ دینا ہوگی ، نائن الیون سے قبل اسی فیصد خود کش حملے جو سری لنکامیں تامل ٹائیگرز نے کئے ان کو کسی نے بھی ہندو مذہب کے ساتھ نہ جوڑا جبکہ دنیا میں کسی جگہ بھی اگر کوئی دہشت گردی ہوتی ہے تو اسے براہ راست مسلمانوں سے جوڑ دیاجاتا ہے ۔
او آئی سی کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرناتھا لیکن آج تک یہ فورم اتنا متحرک اور فعال نظر نہیں آیا جس کی ضرورت کے لئے اسے قائم کیاگیاتھا،اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیامیں مسلمان ہی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان کے حقوق کی پامالی کی جارہی ہے اور انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان پر عرصہ حیات تنگ کیاجاچکا ہے اور انہی الزامات کے تحت ایران کے خلاف بھی کارروائیوں کے تانے بانے جوڑے جارہے ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنے حقوق کے لئے جدوجہد تیز کرنے کے ساتھ ساتھ اس تاثر کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں کہ مسلمان تخریبی ذہن رکھنے والی قوم ہیں ، نیوزی لینڈ والا واقعہ اس با ت کا ثبوت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی دین نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی وطن ہوتا ہے ان کا کام صرف اور صرف معصوم لوگوں کو نشانہ بنانااور مکروح عزائم کی تکمیل ہوتا ہے، او آئی سی کو اب ماضی سے زیادہ متحرک اور فعال بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ نیوزی لینڈ کا سانحہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑگیا ہے۔
او آئی سی کو دنیامیں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی اور او آئی سی صرف انگریزی کے لفظ Oh I see بن کر رہ گیا ہے جس کی قراردادوں پر کوئی عمل نہیں کیاجاتا اور اس کا براہ راست فائدہ اسلام دشمن قوتوں کو حاصل ہورہا ہے ، نیوزی لینڈ کی مساجد میں دہشت گرد کی کارروائی کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کی شہادت ہوئی لیکن ا س واقعہ سے یورپ میں بسنے والے عیسائیوں کو دہشت گرد قرار نہ دیا گیا اور اسے ایک شخص کی نفسیاتی حرکت قرار دینے کی کوشش کی حالانکہ دہشت گرد سے حاصل ہونے والی بندوق کے اوپر جو پیغامات درج تھے وہ مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کے انتہا پسند لیڈروں کے القابات تھے۔
عیدالفطر مسلمانوں کے مابین جزبہ حب الوطنی، بھائی چارے، امن، محبت کے تجدید عہد کا دن ہے مگر اس دن کو دنیامیں یوم امن کے طور پر متعارف کروا کر مسلمان دنیامیں اسلام دشمن قوتوں کو زیرکرسکتے ہیں اور یہی اس با ت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام نقطہ مکاتب فکر اکھٹے ہو کر دشمنی قوتوں کا مقابلہ کریں، اگلے روز پاکستان دشمن قوتوں کی ایما ء پر کے پی کے ممبران اسمبلی نے براہ راست فوج پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں پاک فون کے جوان شہید بھی ہوئے لیکن اس سے ایک ملکی تاثر پاک فوج کے بارے میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو مسلم دشمن قوتوں کی ایک سازش ہے جسے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں ایسی قوتوں نے پاکستان کو دولخت کردیا اور اب ایک مرتبہ پھر اپنے ایجنڈوں کے ذریعے پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے اور ہزاروں افسروں و جوانوں کی قربانیوں سے دہشت گردی کے ناسور پر قابوپایا ہے اور دشمن کو یہ کامیابی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اسی تاک میں لگا ہے کہ پاکستانی عوام کو فو ج کے مقابل لا کھڑا کرے تاکہ پاکستان دشمن قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل ہو سکے جو اول روز سے قیام پاکستان کے مخالف اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، پاکستان میں غیر ملکی ایجنڈوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوری کاروائی کی ضرور ت ہے تاکہ پاکستان میں پیدا ہونے والے امن کے ثمرات سے دنیابھر میں خوشحالی پیدا ہو سکے، عیدالفطر آپس میں پیدا تنازعات کو ختم کرکے مل بیٹھنے کے عزم کو دہرانے کادن ہے اور اس کا مظاہرہ حکومتی سطح پر قوموں کے مابین تنازعات کو دور کرنے کے لئے بھی کیاجاناچاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔