او آئی سی اور عالم اسلام کو درپیش چیلنجز

ایک طاقتور مسلم بلاک بننے کی رکاوٹ میں مسلسل استعماری قوتیں حائل

پیر 21 دسمبر 2020

OIC Or Alam e Islam Ko Darpesh Challanges
رابعہ عظمت
حالیہ کانفرنس میں او آئی سی وزراء خارجہ کے سینتالیسویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے محصور عوام مدد کے لئے او آئی سی اور امت مسلمہ کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ انہیں تکالیف سے نجات مل سکے۔او آئی سی ممالک سے اپیل ہے کہ وہ اپنا سیاسی و معاشی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مزید مظالم کرنے سے بھارت کو روکیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کی پانچویں بڑی آبادی ہونے کے باوجود کرونا کے بدترین اثرات کی روک تھام میں کامیاب رہا ہے۔لیکن اس کے باوجود خطرہ ابھی ٹلا نہیں اور اس وبا کی دوسری شدید لہر ہم سب پر حملہ آور ہو چکی ہے۔کرونا عالمی وبا ان مشکلات میں سے محض ایک وجہ ہے جن سے امت آج برسر پیکار ہے۔

(جاری ہے)

اسلاموفوبیا اور مسلمانوں سے نفرت کی لہر مغرب اور دیگر جگہوں پر تیزی سے سر اٹھا ر ہی ہے۔

قرآن کریم کی بے حرمتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کے منافی خاکوں کی دوبارہ اشاعت نے دنیا بھر کے ایک ارب اسی کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔
گستاخانہ خاکوں جیسی شرمناک حرکات کو آزادی اظہار کے نام پر جواز نہیں دینا چاہئے۔بہت سارے ممالک میں انتہائی دائیں بازو کے انتہاء پسندوں کے سیاسی دھارے میں شامل ہونے اور ان کے برسر اقتدار آنے سے مسلمانوں کیلئے دشمنی اور عداوت کا ماحول بن چکا ہے ۔

اس نئے عفریت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ہم اس فورم سے گزارش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف دانستہ اشتعال انگیزی اور نفرت پر اکسانے کو غیر قانونی قرار دینے کی عالمی مہم شروع کرنے کی ذمہ داری اس سیکرٹریٹ کو تفویض کی جائے۔ 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے مقابلے کا عالمی دن‘قرار دیا جائے۔بھارت میں ”ہندو توا“ کی بڑھتی ہوئی لہر نہ صرف بھارت کے مسلمانوں کے لئے خطرہ بن کر ابھری ہے بلکہ اس نے علاقائی سلامتی کو بھی خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔

بی جے پی حکومت کھلم کھلا ہندو توا کا پرچار کر رہی ہے جو شدت پسند نسل پرستی کا نظریہ ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی نفرت کا زہر بھرا ہوا ہے۔مودی حکومت منظم انداز میں بھارت کے اندر مسلمانوں پر حملے کر رہی ہے۔ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کا سرعام قتل تیزی سے بڑھ رہا ہے۔غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مقامی مزاحمت کی تحریک کو بدنام کرنے اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے بھارت پاکستان پر ’سرحد پار دہشت گردی‘ کے جھوٹے الزامات عائد کرتا ہے اور بھارت کوئی ’فالس فلیگ‘آپریشن اور کوئی مہم جوئی کر سکتاہے۔


بھارت لائن آف کنٹرول (ایل۔او۔سی) پر 2003ء جنگ بندی معاہدے کی بھی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے۔پاکستان بے انتہاء تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن ہمارے صبر کی بھی ایک حد ہے۔پاکستان دہشت گردی کے عفریب کے خلاف صف اول میں جنگ لڑ رہا ہے جبکہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کرانے کا پورا تانا بانا بن رہا ہے۔

ہم نے بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کرانے اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد کا ڈوزئیر عالمی برادری کو پیش کیا ہے۔ہمیں امید ہے کہ او۔آئی۔سی‘اپنی اجتماعی حیثیت میں اور مسلم ممالک اپنی انفرادی حیثیت میں بھارت کو اس خطرناک راستے پر چلنے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔وزیر خارجہ نے مزید زور دیا کہ افغان امن عمل نے افغان مہاجرین کی باعزت گھروں کو واپسی کا بھی موقع فراہم کر دیا ہے۔


تاہم حالیہ کانفرنس میں کشمیر پر متفقہ قرارداد کی منظوری پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں کشمیر پر پاکستان کے جائز اور اصولی موقف کی بھرپور حمایت اور گزشتہ سال 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی سمیت تمام بھارتی اقدامات کے مکمل استرداد پر مبنی قرارداد کی متفقہ منظوری بلاشبہ عالم اسلام کی جانب سے مظلوم کشمیری مسلمانوں اور اہل پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا امید افزا مظاہرہ ہے۔

پاکستان کی پیش کردہ اس قرارداد کی منظوری سے بھارت کا پھیلایا ہوا یہ تاثر کہ اجلاس کے ایجنڈے میں کشمیر کا معاملہ سرے سے شامل ہی نہیں‘بالکل بے بنیاد ثابت ہو گیا اور یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے کہ مسلم ممالک مختلف شعبوں میں بھارت سے مفادات کے اشتراک کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے جائز حق کی حمایت کے اظہار میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں۔

اسلامی وزرائے خارجہ کے 47 ویں اجلاس میں منظور کی گئی کشمیر سے متعلق قرارداد میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجرا اور دیگر ناجائز اقدامات منسوخ کرے۔
57 ملکوں نے آر ایس ایس،بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مودی حکومت متنازع خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے حوالے سے کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رہے۔

قرارداد میں بھارتی فورسز کے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالیوں،جعلی مقابلوں اور نام نہاد آپریشنوں میں ماورائے عدالت قتل سمیت ریاستی دہشت گردی کے دیگر واقعات کی شدید مذمت کی گئی۔ قرارداد میں معصوم شہریوں کے خلاف پیلٹ گنوں کے استعمال اور کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو ملٹری کریک ڈاؤن بڑھانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔

قرارداد میں بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کا کردار ایل او سی کے اطرف بڑھائے،جموں و کشمیر،سر کریک اور دریائی پانی سمیت تمام تنازعات عالمی قانون اور ماضی کے معاہدات کے مطابق طے کرے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صورتحال کی نگرانی کرے،عالمی برادری اور اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی جلد بحالی کے لئے کردار ادا کرے اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ خصوصی ایلچی کا تقرر کریں۔

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ نمائندہ خصوصی مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مسلسل نگرانی کریں اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو آگاہ کریں جبکہ سیکرٹری جنرل او آئی سی،انسانی حقوق کمیشن اور جموں و کشمیر پر رابطہ گروپ بھارت سے بات کرکے رپورٹ پیش کریں۔کشمیر پر پاکستان کے موقف کی اس کامیابی پر بھارت کا سخت رد عمل سامنے آیا۔

بھارتی امور خارجہ کی وزارت کے ترجمان انوراگ سری واستو نے او آئی سی کی مسئلہ کشمیر کی قرارداد کو مسترد کرنے کی وجہ یہ بیان کی کہ’اس میں حقائق غلط،بے معنی اور بلاجواز‘طریقے سے بیان کیے گئے ہیں۔انڈیا کے تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سینیئر رکن،صحافی اور تجزیہ کار سوشانت سرین کہتے ہیں کہ او آئی سی کے اعلامیے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

تنظیم کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں مسئلہ فلسطین بھی شامل ہے اور یقینا مسئلہ فلسطین تمام تر مسائل سے اولین مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی ممالک کی یہ تنظیم بھی اقوام متحدہ کی طرح مسئلہ فلسطین کے حل اور فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔مسئلہ فلسطین کے عنوان سے او آئی سی نے متعدد اجلاس بلائے جن میں سربراہی اجلاس بھی شامل تھے۔

المیہ تو یہ ہے کہ تنظیم کے رکن ممالک جب کسی بڑے اجتماعی یا کانفرنس میں کسی بھی مسئلے پر قرارداد منظور کرتے ہیں تو وہ متفقہ طور پر موقف ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہی رکن ممالک عملا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرتے اور متفقہ طور پر منظور شدہ قراردادوں پر عمل نہیں کرتے۔چنانچہ تنظیم آگے نہیں بڑھ سکتی۔اسی وجہ سے یہ قراردادیں بے اثر اور بے سود ثابت ہوتی ہیں۔

اس لئے او آئی سی کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ اس کی قراردادیں بے اثر اور بے سود ثابت ہوتی ہے جب تک تنظیم کے رکن ممالک کے رویے میں واضح اور بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی وہ چیلنچر کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
علاوہ ازیں افریقی ملک نیامے نائیجر میں منعقدہ رابطہ عالم اسلامی کے وزرائے خارجہ کی 47 ویں کانفرنس میں رابطہ کے ممبران کے درمیان اسرائیل امارات عرب ڈیل کے حوالے سے اضطراب دکھائی دے رہا تھا اور کئی ارکان میں امارات کے فیصلوں،پالیسیوں پر شدید غم و غصہ کا اظہار بھی پایا گیا۔

رابطہ عالم اسلامی میں سعودی عرب کو ایک قائد کی حیثیت حاصل رہی ہے اور سعودی عرب نے ایک طویل عرصہ تک رابطہ کے اراکین ممالک کے اقتصادی امور کو بہتر بنانے کے لئے کئی مرتبہ مالی امداد فنڈ بھی دیئے ہیں۔سعودی عرب کا عالم اسلام میں سے دیگر اسلامی ملکوں سے برادرانہ تعلق و برتاؤ ہے۔حالیہ کانفرنس میں مسلمانان عالم اسلام کے مسائل کو بڑے واضح اقدامات میں ڈٹ کر پیش کیا گیا۔

پاکستان نے کشمیر کو مسئلہ اٹھانے اور اجلاس میں پیش کرنے میں سفارتی کامیابی حاصل کی۔اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی آرگنائزیشن آف اسلامک ممالک دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے۔57 اسلامی ممالک اس کے رکن ہیں اور تھائی لینڈ اقوام متحدہ و یورپی یونین کے مستقل نمائندے یہاں مندوبین کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں۔
رابطہ عالم اسلامی کا قیام 1969ء میں ہوا مسلمانان عالم کو ہمیشہ سے ہی رابطہ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں ہر تین سال میں اجلاس ہوتا ہے ۔

اس کے علاوہ سالانہ خصوصی میٹنگیں بھی منعقد کی جاتی ہیں جبکہ گروپ بہت کم مسلمانوں کی ایک متحدہ آواز کے طور پر دنیا میں بلند مقام بنانے میں ناکام رہا یہ صرف قراردادوں و تجاویز تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے کوئی خامی قرار کے عملی نفاذ میں کبھی کامیابی نہیں ملی۔یہاں کوئی رکن ملک کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔رابطہ کو سیاسی امور سے علیحدہ رکھ کر بڑی نا انصافی کی گئی۔

عالمی طاقتیں نہیں چاہتی کہ رابطہ او آئی سی دنیا میں ایک طاقتور مسلم بلاک بن کر ابھرے یا مسلم ممالک اپنے تنازعات کو باہم اس پلیٹ فارم پر حل کر لیں ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ایک موثر و مضبوط پلیٹ فارم بنایا جائے اور یہ ایک عظیم طاقت بن سکتی ہے اس میں نئی روح پھونکنے کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔

او آئی سی کے ذریعے سفارت کاری سے یہ رابطہ گروپ اسلام دشمن ملکوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔غربت،جہالت کا خاتمہ، ممبران ملکوں میں ڈیجیٹل انقلاب برپا کرنے اور ان ملکوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے ٹیکنالوجی،تعلیمی،معاشی،صنعتی ترقی کو بڑھایا جائے۔درآمدات و برآمدات کے حوالے سے ایک جامع پروگرام ترتیب دیا جائے عنقریب و پسماندہ اسلامی ملکوں کو ترقی کی شاہراہ پر لانا تمام مسلم الدار ملکوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔مسلم ممالک اور دنیا میں مسلم اقلیتوں کی بقا تحفظ اور ترقی کا ایک موٴثر ایجنڈہ تیار کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

OIC Or Alam e Islam Ko Darpesh Challanges is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.