صنف نازک پر بڑھتا تشدد لمحہ فکریہ

ایک سال کے دوران عورتوں پر تشدد و عصمت دری کے 25 ہزار سے زائد کیس درج ہوئے

بدھ 24 مارچ 2021

Sanf e Nazuk Per Barhta Tashadud - Lamha Fikriya
بشریٰ شیخ
عالمی یوم خواتین کے موقع پر جاری کی گئی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں گزشتہ ایک سال کے دوران خواتین پر تشدد اور ان کے ریپ کے تقریباً ڈھائی ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے صرف 25 منتخب اضلاع میں جنوری سے دسمبر 2020ء تک 2 ہزار 297 کیسز رپورٹ کیے گئے۔

مذکورہ اعداد و شمار صرف ملک کے 25 اضلاع کے ہیں اور یہ واقعات نہ صرف ملک کے اخبارات میں شائع ہوئے بلکہ ان واقعات کی تصدیق متعلقہ تھانوں نے بھی کی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں خواتین پر تشدد،ان کے استحصال اور اغوا کے بعد ریپ کے سب سے زیادہ واقعات ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہوئے۔

(جاری ہے)

رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے مجموعی طور پر 57 فیصد کیسز کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے جب کہ 27 فیصد کا تعلق صوبہ سندھ،8 فیصد کا خیبر پختونخوا،8 فیصد گلگت بلتستان اور 2 فیصد کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں خواتین کے قتل کے بعد سب سے زیادہ واقعات ریپ،خودکشی،اغوا،کم عمری کی شادی اور گھریلو تشدد جیسے واقعات سب سے زیادہ رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ خواتین کے خلاف جرائم و تشدد کے واقعات سب سے زیادہ پنجاب میں رپورٹ ہوئے تاہم حیران کن طور پر خواتین کے قتل کے واقعات سب سے زیادہ بلوچستان میں رپورٹ ہوئے۔

اسی طرح گلگت بلتستان میں جرائم،تشدد و استحصال سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے خواتین کی جانب سے خودکشی کیے جانے کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔خیبر پختونخوا میں بھی قتل،ریپ اور خواتین کی خودکشی کے واقعات میں جنوری سے دسمبر 2020ء تک اضافہ دیکھا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس،مقامی افراد اور استحصال کی شکار ہونے والی خواتین سے کیے گئے انٹرویوز سے معلوم ہوا کہ تشدد کا شکار بننے والی خواتین میں ڈھائی سال کی کم سن بچیوں سے لے کر درمیانی عمر کی شادی شدہ خواتین شامل ہیں۔

رپورٹ ہونے والے زیادہ تر کیسز غریب طبقے کے تھے۔ساتھ ہی بتایا گیا کہ تعلیمی اداروں سمیت دفاتر میں بھی خواتین پر تشدد و جرائم رپورٹ ہوئے۔سالانہ رپورٹ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ ’ریپ‘ کا شکار ہونے والی خواتین پولیس،قریبی افراد اور سماج کے دباو کی وجہ سے معاملات کو عدالتوں کے باہر ہی حل کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔رپورٹ میں ریپ کا شکار ہونے والی دو کم عمر بچیوں کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے،جو ’ریپ‘ کے بعد 12 سے 13 سال کی عمر میں بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہوئیں۔


ساؤتھ ایشیا پارٹنر شپ پاکستان کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے،تشدد کے 57 فیصد واقعات پنجاب،27 فیصد سندھ8 فیصد خیبر پختونخوا،2 فیصد،بلوچستان جبکہ 6 فیصد گلگت بلتستان میں رپورٹ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق سال 2020ء کے دوران جنوری سے دسمبر تک پچیس اضلاع میں کل 297 عورتوں پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے،کورونا کے دوران تشدد کے واقعات کو رپورٹ کروانے کا رجحان بہت کم تھا،یہ تعداد حیران کن ہے،جن مہینوں میں کورونا عروج پر تھا تشدد کے سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کے 57 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے،سندھ میں 27 فیصد،خیبر پختونخوا میں 8 فیصد، بلوچستان میں 2 فیصد جبکہ 6 فیصد گلگت بلتستان میں رپورٹ ہوئے،تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی عمر 2 سال سے لے کر 35 سال تک ہے اور ان کا تعلق نہا یت غریب اور درمیانے درجے کے گھرانوں سے ہے۔


رپورٹ میں تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کورونا کے دوران عورتوں پر تشدد کو پبلک ہیلتھ کا مسئلہ جانا جائے جس میں ہیلتھ ورکرز اور ہیلتھ سنٹرز کو تشدد سے متاثرہ خواتین کی مدد کیلئے استعمال کیا جائے۔ روزمرہ کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے واقعات سننے کو ملتے ہیں لیکن تمام حکمران طبقہ اس پر آنکھ بند کیے خاموش ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں جہاں خواتین کی موجودگی پائی جاتی ہے وہاں ان کا استحصال اور ان سے زیادتی بھی جاری رہتی ہے۔

گھریلو خواتین سے لے کر نوکری کرنے والی خواتین تک کو ایک ہی بیلن میں پیس دیا جاتا ہے۔ان کا معاشی ،جسمانی،ذہنی،نفسیاتی اور ہر طرح کا استحصال کیا جاتا ہے۔اگر کبھی این جی اوز کی ”سماجی خیر خواہ“ سرمایہ دار طبقے یا میڈیا اور شوبز کی خواتین کو ظلم کی ماری مزدور خواتین کے بارے میں کچھ خیال آبھی جائے تو وہ ان کے لئے ایک تفریح سے کم نہیں ہوتا،دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والی مختلف رپورٹس کے مطابق کورونا سے متاثر تمام ممالک میں لاک ڈاؤن نے گھریلو تشدد اور بالخصوص خواتین پر تشدد کے واقعات میں بے حد اضافہ کیا ہے۔

چین میں اس تشدد میں نوے فیصد تک اضافہ ہوا جس میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے ہوبے میں گھریلو تشدد پر کروائی جانے والی رپورٹس میں تین گنا اضافہ ہوا۔
برازیل میں خواتین کے ساتھ ساتھ بچے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں اور وہاں کی شرح چالیس سے پچاس فیصد بڑھ گئی ہے اور سب سے زیادہ تشدد وہاں کے شہر ریورڈی جنیرد میں نظر آیا ہے۔

اور رپورٹ کے مطابق اٹلی میں تو تشدد بھی انہی علاقوں میں زیادہ دیکھا گیا جہاں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد زیادہ تھی۔ایسے حالات میں جہاں گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہے وہاں خواتین کے ٹیکسٹ میسجز پر رپورٹس میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔اسپین کی رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد میں اضافے کے باعث ہسپانوی حکومت نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ تشدد کی شکار خواتین کو گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے کیونکہ ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے جہاں خواتین کو خود کو باتھ رومز میں بند کرکے بچانا پڑا۔

فرانس میں تشدد کی شکار خواتین کی عمریں 18 سے 75 سال تک ہیں۔بھارت میں جہاں لاک ڈاؤن ایک ماہ گزر چکا ہے وہاں بھی گھریلو تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں 200 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sanf e Nazuk Per Barhta Tashadud - Lamha Fikriya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.