صہیونی جنگی جرائم سے فلسطین لہولہان

خلیجی ممالک کے راستے جدا،دہشت گردانہ حملوں سے امن معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا

بدھ 26 مئی 2021

Sehyoni Jangi Jaraim Se Palestine Lahulohan
محبوب احمد
فلسطین میں غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے کیونکہ دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقعہ ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان ہونے کے بعد سے اب تک سینکڑوں منصوبے بنائے جا چکے ہیں۔تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اسرائیل کے ظلم و جور اور سفاکیت و بربریت کا سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔

20 ویں صدی کے اوائل میں فلسطین کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنے قبضہ میں لینے کا جو پروگرام ترتیب دیا گیا تھا آج وہ عملی شکل اختیار کر چکا ہے۔یہود و ہنود کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناصرف مسئلہ فلسطین اور کشمیر ہنوز حل طلب ہے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور ایشیاء میں بدامنی کی لہر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کی طرف سے نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کرنا لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے یہاں سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان ظالمانہ اقدامات پر اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کے اعلانات بھی سامنے آرہے ہیں۔

(جاری ہے)

صہیونی حکومت کے جنگی جرائم نے غزہ میں قیامت صغریٰ بپا کی ہوئی ہے۔ماہ صیام کی مقدس ساعتوں اور عید الفطر کے روز بھی اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں میں کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔
امریکی آشیرباد پر ہونے والی اس تباہ و بربادی میں جہاں ہزاروں زخموں سے چور ہیں وہیں 50 سے زائد بچوں سمیت شہدا کی تعداد تقریباً 200 سے تجاوز کر چکی ہے۔سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں ”ابراہیمی معاہدوں“کے تحت یو اے ای اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے جن منصوبوں کو بڑی گرمجوشی سے حتمی شکل دی گئی ان کے نتیجے میں کئی دیگر عرب ریاستوں نے ناصرف اسرائیل سے اپنے تعلقات کو باقاعدہ تسلیم کرنا شروع کیا بلکہ سکیورٹی اور انٹیلی جنس سمیت بہت سے دوسرے شعبوں میں باہمی تعاون کے ایسے منصوبوں کو عملی شکل دینا شروع کر دی جن کی مثال ماضی میں کہیں دکھائی نہیں دیتی لیکن اب حالیہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بگڑتی صورتحال ان ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات کے لئے شرمندگی کا باعث بن چکی ہے جنہوں نے صہیونیوں سے اپنے تعلقات کو معمول پر لانے میں بڑی سرعت کا مظاہرہ کیا تھا کیونکہ یہ خود کو نہاہت ہی اہم مشکل مقام پر کھڑا پا رہے ہیں۔

اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ عرب ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے آنے والے دنوں میں بدامنی کی صورت میں بڑی بھارت قیمت چکانا ہو گی یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات”ابراہیمی معاہدے“سے باہر ہو جائے گا اور اس حوالے سے غورو خوض بھی کیا جا رہا ہے۔
سرزمین فلسطین میں صہیونی ریاست کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں بدامنی کی لہر مزید پھیل رہی ہے۔

امریکی حکومت کی سرپرستی میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔صہیونی فوج کی طرف سے فلسطین میں موجود تمام مقدس مقامات بالخصوص بیت المقدس میں موجود مسلمانوں کے پہلے قبلہ اول مسجد اقصیٰ اور غرب اردن کے شہر الخلیل میں قائم تاریخی جامع مسجد ابراہیمی کی بے حرمتی افسوسناک ہے۔یہودی شرپسندوں نے مساجد میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندیاں لگا رکھی ہیں،مسلمانوں کو اذان دینے سے روکا جا رہا ہے،قبرستانوں کی بھی بے حرمتی روز کا معمول بن چکی ہے۔

مسجد اقصیٰ کی بنیادوں میں کھدائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اسرائیلی مظالم کے اعتراف کے باوجود اب تک صرف لفظی مذمت ہی کی گئی ہے جس سے عملی طور پر فلسطینیوں کی کوئی مدد ہوئی ہے نہ ہی کبھی اسرائیل کے حملے رکے ہیں۔او آئی سی،عرب لیگ اور دیگر مسلم ممالک کا مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنا بھی افسوسناک امر ہے۔ صہیونی حکومت کے ظالمانہ برتاؤ سے متعلق عالمی برادری کی سستی و کاہلی اور مغرب کی ہمہ گیر حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے سلسلے میں مزید گستاخ بنا ہوا ہے۔یو این او جو فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنانے میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی،عراق پر امریکی حملے‘افغانستان کیخلاف نیٹو کارروائی‘ بوسنیا‘چیچنیا‘میانمار جیسے معاملات و مظالم پر اس سے کوئی امید رکھنا یا شکوہ کرنا عبث و بیکار ہی ہے۔

فلسطین کے موجودہ حالات کے تناظر میں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ نہتے شہریوں کا قتل عام اور یہودی آباد کاری کیلئے بین الاقوامی قوانین کی پامالیاں رکوانے کیلئے موٴثر اقدامات کئے جائیں تاکہ قیام امن کیلئے دی گئی قربانیوں کو زائل ہونے سے بچایا جا سکے۔عالم اسلام کے حکمرانوں کو بھی اب فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہود و ہنود کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sehyoni Jangi Jaraim Se Palestine Lahulohan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 May 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.