
سندھ کابینہ میں ردوبدل کا فیصلہ
متحدہ، پیپلز پارٹی اور دینی مدارس پر پابندی کی باتیں۔۔۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی اور ضمنی انتخابات میں فتح مندی کے بعد بلاول بھٹو، فریال تالپور اور آصف زرداری سندھ میں پارٹی کے اثرورسوخ سے تو مطمئن ہیں
جمعہ 19 فروری 2016

سندھ کا بینہ میں ایک بار پھر تبدیلیوں پر غور ہو رہا ہے۔ ردوبدل کا فیصلہ بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر ہے۔ اس بار کافی عرصے سے غیر فعال ہزار بجارانی ، سابق وزیر روبینہ قائم خانی اور میر اوقاف قیوم سومرو سمیت کئی نئے چہروں کو سامنے لایا جارہا ہے جبکہ کئی موجودہ وزراء کی فراغت کی بھی اطلاعات ہیں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی اور ضمنی انتخابات میں فتح مندی کے بعد بلاول بھٹو، فریال تالپور اور آصف زرداری سندھ میں پارٹی کے اثرورسوخ سے تو مطمئن ہیں البتہ وہ اپنی گرفت مزید مضبوط رکھنے کے لئے ”آپ ڈاوٴن “ کرتے رہتے ہیں تاکہ ”پیرپگارو “ کے الفاظ میں زبردست بالادست اور بالا دست بے اثر ہو سکیں ویسے بھی تھر میں اموات، بدامنی کے واقعات اور کرپٹ عناصر کے خلاف مہم نے پی پی قیادت کو مخصمے میں ڈال رکھا ہے۔
(جاری ہے)
سندھ مسائل کا وہ آتش فشاں ہے جو کسی بھی لمحے پٹ سکتا ہے اور ابلا ہوا لاوا منظر نامہ تبدیل کر دے گا ۔ سندھ میں تبدیلی پسند کے بڑے محرک علی قاضی کہتے ہیں کہ 2018 تبدیلی کا سال ہو گا۔ 2018 کو انتخابات کا سال بھی کہہ رہے ہیں لیکن پی پی کا متبادل کون ہو گا؟ پیر پگارا، عمران خان، مولانا فضل الرحمن ، سندھی قوم پرست یا پھر علی قاضی کے حامی آئیڈیلسٹ ،متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اس کی صفوں میں بھی سندھی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن گا ہے گاہے سندھ کی تقسیم ، نئے صوبے کا مطالبہ اور اس کے بعض بیانات صوبے میں اس کے مخالفین کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔ اگر دوراندیشی کے تحت یکساں پالیسی رکھی جائے تو یہ بھی کئی ایک حلقوں میں انٹری دے سکتی ہے۔ سوال زیر بحث یہ ہے کہ بے روزگاری، بدامنی، کرپشن کا شکار سندھ میں تبدیلی کون لاے گا ؟ 2002 سے 2008 تک سندھ میں ایوان اقتدار آباد رکھنے والی ق لیگ کے پاس اب کوئی بڑا نام نہیں رہا۔ اس کے صوبائی صدر اسد جونیجو اور سیکرٹری طارق حسن کسی پارلیمانی ادارے کے رکن نہیں یہی کیفیت تحریک انصاف، جے یو آئی ،جماعت اسلامی، سندھی قوم پرستوں کی ہے۔ 2008 اور 2013 کے انتخابات کے نتائج بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔ مسائل سے دوچار صوبے کے عوام سے رابطے کی بجائے سیاسی لیڈر شپ اخبارات کے صفحات اور الیکٹرونک میڈیا کی سکرین پر نظر آتی ہے گنے کے آباد کاروں، نہروں میں وارہ بندی کے باعث ربیع کی فصلوں کی تباہی کا شکار کسانوں ، بے روزگار نوجوانوں سے کوئی رابطے میں نہیں ہیں۔
حیدرآباد میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی کی رہائش گاہ پر فائرنگ کی اطلاعات ہیں ۔ حملے سے ایک روز قبل وہ میر پور خاص میں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں سیاسی مداخلت ہو رہی ہے بدامنی کے ذمہ داروں کا خاتمہ سرجری سے ہوگا جبکہ حکومت میک اپ سے کام چلانا چاہتی ہے۔ ان کا مطالبہ تھا متحدہ پی پی اور دینی مدارس پر پابندی لگائی جائے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ صوبے میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔ کراچی سے کشمور تک امن ہے ۔ ایسے ہی بیانات دیگر سیاستدانوں کے ہیں۔ زمینی حقائق سے آنکھیں چرا کر ریت میں گردن دبالینے کو حکمت عملی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
Sindh Kabina Main Rad o Badal Ka Faisla is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 February 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.