ویتنام سے افغانستان تک امریکی ہزیمت کا سفر

واشنگٹن نے کمزور ممالک کی آزادی و خود مختاری کو مخصوص ایجنڈے کے تحت پامال کیا

بدھ 20 اکتوبر 2021

Vietnam Se Afghanistan Tak Americi Hazmiyat ka Safar
محمد عبداللہ حمید گل
جنگ کے نشے میں مبتلا امریکہ خونی تاریخ رکھتا ہے۔بر،بحر،اور فضاء تینوں پر اس کا یکساں کنٹرول ہے۔بیک وقت فوجی سپر پاور ہونا اور کمزور ملکوں پر جنگ مسلط کرنے کیلئے ہر سال پینٹاگون کے لئے کئی سو ارب ڈالر کا بل پاس کیا جاتا ہے۔”ایک ملک کو بچانے کیلئے کبھی اس کو تباہ بھی کرنا پڑتا ہے“،کے فلسفے پر عمل پیرا،طاقت کے نشے میں مخمور واشنگٹن ویت نام،کمبوڈیا،صومالیہ،عراق،لبنان،افغانستان پر حملہ کرتا ہے،اپنی تمام تر طاقت کو استعمال کر ڈالتا ہے۔

1776ء میں جب امریکہ آزاد ہوا تو یہ اُس کا پہلا شکار آبائی امریکی رہائشی تھے،نو آزاد شدہ امریکہ کی فوج نے بے رحمی سے لوگوں کو ملک بدر کرنا شروع کیا،ہزاروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔

(جاری ہے)

1848ء تک امریکہ قریب قریب آدھے میکسیکو پر قبضہ کر چکا تھا۔انہی زمینی قبضوں کی توسیع کیلئے امریکہ نے ایک ورلڈ کلاس بحری فوج تشکیل دی۔اس کا انچارج مستقبل کا امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ تھا،روزویلٹ کے چارج سنبھالنے کے اگلے ہی برس امریکہ نے اسپین کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا،اس کی کالونیاں جن میں کیوبا اور فلپائن بھی شامل تھے،وہ بھی امریکہ کے قبضے میں آگئے،لیکن اس دوران امریکی فوج کو فلپائن کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، امریکی فوج کو حکم تھا کہ ’سب کو جلا دو اور مار ڈالو‘انہوں نے ایسا ہی کیا۔

فلپائن کے مفتوح ہونے تک چھ لاکھ لوگ مارے جا چکے تھے۔
 1898ء سے 1934ء کے درمیان امریکی بحری فوج نے کیوبا پر چار مرتبہ،نکارا گوا پر پانچ مرتبہ،ہنڈورس پر سات مرتبہ،ڈومینیکن ریپبلک پر چار مرتبہ،بیٹی پر دو مرتبہ،گوئٹے مالا پر ایک مرتبہ،پانامہ پر دو مرتبہ،میکسیکو پر تین مرتبہ،اور کولمبیا پر چار مرتبہ حملہ کیا۔کئی ممالک میں امریکی بحری افواج نے کئی کئی دہائیاں بھی گزاریں۔

دو عالمی جنگوں کے بعد برطانوی استعمار کے اضمحلال اور عالمی معاملات پر اس کی گرفت کمزور پڑتے دیکھ کر امریکہ نے ناگاساکی اور ہیروشیما میں دو ایٹمی دھماکوں کے ذریعے لاکھوں بے گناہ افراد کو ہلاک کرکے دنیا کی چودھراہٹ کے میدان میں قدم رکھا تھا،اس کے بعد سے امریکہ بہادر اس رُخ پر مسلسل آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان اس کا نقطہ عروج تھا۔

امریکہ بہادر نے جہاں مختلف ممالک میں آمریتوں کو سپورٹ کیا وہاں لاؤس،کمبوڈیا،ویت نام،افغانستان،عراق اور دیگر ملکوں میں فوج کشی کرکے ان اقوام و ممالک کی آزادی و خود مختاری کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پامال کیا۔امریکہ نے اسرائیل قائم کرکے عربوں اور فلسطینیوں کے انسانی و شہری اور قومی و مذہبی حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ ان کے قتل عام اور در بدری کے جس سلسلہ کی پشت پناہی شروع کی تھی وہ ابھی تک جاری ہے۔

جبکہ اقوام متحدہ کا قیام دراصل اقوام و ممالک کے درمیان جنگ کو روکنے اور تنازعات کو نمٹانے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔مگر امریکہ نے اس عالمی فورم کو مذہب کے معاشرتی کردار کے خاتمہ،مغربی فکر و فلسفہ کی بالادستی،اور اقوام و ممالک کی خود مختاری سلب کرنے کے لئے انتہائی مہارت کے ساتھ استعمال کیا۔بہرحال امریکہ 20 سال تک طالبان کے ساتھ لڑنے اور لڑتے ہی رہنے کے بعد ناکام و نامراد ہو کر واپس جا چکا ہے طالبان نے اس کی عسکری حیثیت اور سفارتی قوت کے تارپود بکھیر کر رکھ دیئے ہیں۔


نیٹو دنیا کا جدید ترین فوجی ساز و سامان رکھنے کے باوجود ہزاروں فوجی گنوا بیٹھا اور آخرکار انتہائی ذلت کے عالم میں افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔پوری تاریخ میں جارح قوتوں کا انجام یہی ہوا ہے۔1993ء میں امریکہ پر صومالیہ کے اندر فوجی کارروائی کے لئے وہی پرانی غلطی دہرانے کا الزام لگا۔موغا دیشو کی سڑکوں پر مردہ امریکی فوجیوں کو گھسیٹنے والے مناظر امریکہ کو ابھی تک یاد ہوں گے۔

امریکی غرور ویت نام میں بھی چکنا چور ہوا تھا،اور افغانستان میں بھی امریکی گھمنڈ اور تکبر کے شیش محل ٹوٹنے کی صدائے بازگشت ساری دنیا میں گونج رہی ہے جو آج بھی مادی قوتوں پر انحصار اور ایمان رکھنے والوں کے لئے حیران کن،ناقابل یقین اور تعجب خیز ہے۔حیران کن بات ہے کہ امریکہ کی افغانستان پر مسلط کردہ حکومت اور تیار کردہ افغان نیشنل آرمی ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی۔

امریکہ نے 3 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل افغان نیشنل آرمی کو اعلیٰ سطحی تربیت پر کروڑوں نہیں اربوں ڈالر خرچ کیے۔ایک اندازے کے مطابق ویت نام اور کمبوڈیا میں امریکہ نے جتنا اسلحہ استعمال کیا،جس میں میزائل،بم،گولہ بارود سبھی شامل تھے،اس وقت تک کی انسانی تاریخ میں تمام جنگوں میں استعمال شدہ اسلحہ سے زیادہ تھا۔اس درندگی کے باوجود امریکہ کو ویت نام کی نہتی فوج کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔


ویت نام کی جنگ کے اختتام پر اپنی خفت کو مٹانے اور اپنی عوام کو ”چکر“ دینے کے لئے امریکہ نے اپنی شکست کا سارا ملبہ ویتنام کے پڑوسی ممالک پر ڈالتے ہوئے امریکی صدر نکسن نے 1970ء میں کمبوڈیا پر حملہ کر دیا تھا۔ویت نام کی جنگ سے واپس آنے والے فوجی جنگ کی ہولناک یادوں کے باعث Post Traumatic Stress Disorder کا شکار ہو گئے تھے۔ویت نام جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں سے زیادہ تعداد میں فوجیوں نے خود کشی کر لی تھی۔

ویت نام کے بعد افغانستان میں امریکہ کی دوسری طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوا۔ویت نام کی جنگ امریکہ کی سمندر پار جنگوں کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ تھی۔اس کے بعد افغانستان کی جنگ سب سے طویل اور مہنگی ترین جنگ بن گئی۔ویت نام جنگ کے دوران امریکہ میں پانچ صدور بدلے۔افغانستان میں جنگ (11 ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد سے آج تک 2021ء تک ) 20 سال تک جاری رہی۔

اس جنگ کے دوران بھی یکے بعد دیگرے چار صدور بدلے ۔امریکہ نے ویت نام کی جنگ پر 168 ارب ڈالر خرچ کیے جو آج 1 ٹریلین ڈالر کے برابر ہے۔جبکہ ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ امریکہ کے لئے ایک خوفناک جنگ تھی۔58000 سے زائد امریکہ فوجی ویت نام کی جنگ میں مارے گئے جبکہ افغانستان میں انسانی قیمت کم چکانا پڑی اور کل 2500 فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان میں جنگ کی لاگت 2 کھرب ڈالر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Vietnam Se Afghanistan Tak Americi Hazmiyat ka Safar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 October 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.