ابھی نندن ،وادی سماہنی اور بدمعاشیہ

جمعہ 4 ستمبر 2020

Aftab Shah

آفتاب شاہ

وادی سماہنی ،ضلع بھمبر آذاد جموں وکشمیر کی ایک تحصیل ہے،جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری  ہے اور بہت ہی خوبصورت سیاھتی مقام ہے۔یہ وہی وادی سماہنی ہے۔ جہاں پر 27 فروری کو بھارتی پائلٹ ابھی نندن کا چائے کی دعوت کا پہلا پرتپاک استقبال وادی سماہنی کے دلیر اور نڈر نوجوانوں نے کیاتھا۔اور خوب خاطر و تواضع کے بعدپاکستان آرمی کے حوالے کیاتھا۔


وادی سماہنی شہداء کی وادی ہے ۔ اس وادی کے شہداءمیں راجہ نثار یوسف شہید،اویس منیر شہید ,محمد اعجازشہید،شہراز احمدشہید  جیسے بہادر اور عظیم نوجوانوں نے اپنے پاک خون سے سماہنی کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔آئے دن بھارتی گولہ باری کے وجہ سےشاید ہی کوئی دن خالی گیا ہو کہ کنٹرول لائن پر کوئی شہید یا زخمی نہ  ہوا ہو۔

(جاری ہے)

  کنٹرول لائن پر آباد لوگ انتہائی مشکل سے اپنے دن گزارتے ہیں ۔

آئے دن کنڑول لائن پر گولہ باری کی وجہ سے زندگی درد کا شکار رہتی ہے۔کاروبار زندگی ہمیشہ ہی متاثر رہتاہے۔یہ خوف اور ڈر ہر وقت لگا رہتا ہے کہ کب بھارت کی جانب سے گولہ باری شروع ہو جاے۔لیکن وادی کی بہادر اور غیورعوام اپنے روز مرہ  کےمعمولات احسن طریقے سے نباہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وادی  بیشمار مسائل کا شکار ہے۔ان میں صف اول پر بجلی کا مسلئہ ہے۔

بجلی کے کم ولٹیج نے  لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔بجلی کے کم ولٹیج  اور وہ بھی کم کم ہی موجود ہوتی ہے ۔ بجلی کے کم ولٹج کی وجہ سے کاروبار بہت متاثر ہے۔ وادی کے لوگ درجنوں مرتبہ احتجاج رکارڈ کرا چکے مگر حقام بالاکے سر پر جوں تک نہیں رینگی ۔۔۔۔
اس کے علاوہ  اس کو ہر طرح سےاس کو نظر انداز کیا گیا ہے۔زندگی کی عام سہولیات کا فقدان ہے ۔

اتنے سال بیت گے کہ کچھ سڑکوں کا کام جناب سکندر حیات کے دور میں ہوا۔اسکے بعد اب جب الیکشن قریب آرہا ہے توجیب میں نئے امیدوار  سڑکیں ،نلکے ،کھبنے،لے کر گھوم رہےہیں۔نام نہاد بننےوالی سڑکوں کی کوالٹی اتنی اچھی ہوتی ہے کی ایک ہی رات میں سڑک بنتی ہیں۔اور ایک ہی بارش کے ساتھ وہ سڑک بہہ جاتی ہے۔ٹنڈر سے لے کر ٹھکیدار تک سب کی ملی بھگت شامل ہوتی ہے۔

20 فیصد تو عام سی بات ہے۔ سرکاری منصوبوں میں کرپشن عروج پر ہے۔پیرگلی سے برجاہ تک ایک ایسی سڑک جو کہ کھنڈرات کا ایسا منطر پیش کر رہی ہے، کہ آپ موہنجو داڑو کے کھنڈرات کو بھول جایئں گے۔ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ,بیشمار مہلک بیماریوں کا شکار ہیں۔ اور اسں پر ایک اور ظلم کہ برادری  ازم کی سیاست عروج پر ہے۔جب  ان  کے پاس  کوئی درخواست لے کر جاو تو ایسے بھاری پڑتے ہیں۔

اور احسان جتلاتے ہیں ،جیسےاپنی جیب سے سب ادا کرتےہیں۔اسمبلی میں منتخب ہونے والے عوام کی آواز ہوتے ہیں اور عوام کے  ٹیکس کی رقم سے ہی اپنی تنخوا لیتے ہیں۔
کرپشن کی انتہا یہ کہ برادری ازم عروج پر ہے۔اس حساب سے ترقیاتی کاموں کی بھی بندر بانٹ ہوتی ہے۔جہاں سے زیادہ ووٹ ملیں ،اس یونین کو نوازا  جاتا ہے۔وڈیرہ  سسٹم ہی رائج ہےاور اسی طرح کی حالت آزاد کشمیر کے دوسرے تمام حلقوں کی ہے۔اہل علاقہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنا نمائندہ  اس کو چنیں جوکہ  خدمت کے جذبے سے سرشار ہو اور آپ کی آواز بنے،نہ کہ اپنا بینک بیلنس بنائے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :